مثنوی سحر البیان کی فنی و فکری خصوصیات
موضوعات کی فہرست
مثنوی سحر البیان کی کردار نگاری
میر حسن کی مثنوی میں دو قسم کے کردار میں مردانہ کردار اور نسوانی کردار۔ مردانہ کرداروں میں بے نظیر، بے نظیر کا باپ، فیروز شاہ، مسعود شاہ کے علاوہ نجومی اور جوتشی وغیرہ شامل ہیں جبکہ نسوانی کرداروں میں بدر منیر، نجم النساء اور ماہ رخ کے علاوہ محل کی کنیزیں اور خواصیں وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مثنوی سحر البیان کا تنقیدی جائزہ
مثنوی کا مرکزی کردار شہزادہ بے نظیر ہے۔ مثنوی کے تمام تر واقعات اس کردار کے گرد گھومتے ہیں۔ جبکہ شہزادی بدر منیر مثنوی میں ایک ہیروئن کا کردار ہے۔
مثنوی کے تمام کرداروں کو ایک طرف رکھ کر وزیر زادی نجم النساء کے کردار کو دیکھا جائے پتا چلتا ہے کہ نجم النساء ہی ایک ایسا کردار ہے جس سے کہانی کا عمل آگے بڑھتا ہے۔
نجم النساء شوخ و چنچل ، شریر، ہوشیار ، اور جاندار کردار ہے۔ اگر چہ یہ ہیروئن نہیں مگر اپنے جاندار اور متحرک کردار سے ہیروئن لگتی ہے۔
بقول عابد علی عابد نجم النساء کی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے ۔ میر حسن نے مثنوی میں بدر منیر کی سہیلی نجم النساء کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں:
تھی ہمراہ اک اس کے دخت وزیر
نہایت حسین اور قیامت شریر
زبس تھی ستاره سی وہ دلربا
اسے لوگ کہتے تھے نجم النسا
مثنوی سحر البیان کی زبان و بیان
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
میر حسن نے سحر البیان کی کہانی میں انسانی جذبات ، قدرتی مناظر حسین مرقعوں ، بزم نشاط اور عالم ہجر کے نقشوں ، تقریبات اور رسوم و رواج کو توازن سے ملا کر اپنے مخصوص انداز بیان میں سخن کا دریا بہایا ہے اور ایسی تخلیق کو وجود بخشا ہے جو اردو ادب میں اس وقت بھی منفرد تھی اور آج بھی منفرد ہے۔ ( تاریخ ادب اردو، ایضا)
میر حسن کی مثنوی میں الفاظ کا انتخاب بڑی سوچ بچار کے بعد کیا گیا جس سے زبان و بیان کو چار چاند لگ گئے۔ خوبصورت زبان و بیان کی وجہ سے اس مثنوی کا نام "سحر البیان رکھا گیا۔ میر حسن نے ہر موقع پر سب سے زیادہ موزوں ، معنی خیز ، خوبصورت اور پرتاثیر لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ بول چال ، روزمرہ اور محاورہ کی پابندی تشبیہات و استعارات کا خوبصورت اہتمام کیا ہے۔
مثنوی سحر البیان میں محاکات نگاری
میر حسن کو محاکات نگاری میں پوری قدرت حاصل ہے ۔ وہ اپنے گہرے مشاہدے اور باریک بینی کو کام میں لاتے ہوئے ہمارے سامنے جیتی جاگتی ، چلتی پھرتی تصویر پیش کر دیتے ہیں۔ جن پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے ۔
وہ خارجی عناصر اور داخلی محسوسات کو بڑی خوبی سے نقل کرتے ہیں۔ عبدالسلام ندوی کہتے ہیں کہ میر حسن کی اصلی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے سینکڑوں چہروں کا نقشہ کھنچا ہے اور مختلف مناظر کا سماں دکھایا ہے لیکن کسی موقع پر فطری انداز سے تجاوز نہیں کرتے:
ترا رنگ غیرت سے اڑتا نہیں!
تجھے کیا پری زاد جڑتا نہیں!
ہمارا گئی بھول خوف و خطر
لگی رکھنے انسان پر تو نظر
بھلا چاہتی ہے تو اس کو نکال
کنویں میں جسے تو نے رکھا ہے ڈال اور اس کی قسم کھا کہ پھر گر کہیں لیا نام اس کا، تو پھر تو نہیں
گیا ماہ رخ کو یہ فرمان جب
ہوئی خوف سے وہ پریشان تب
کہا: مجھ سے تقصیر اب تو ہوئی کہو، اس کو لے جائے یاں سے کوئی اگر اب میں لاگو ہوں اس کی کبھی
تو پھر پھونک دیجو پرستاں سبھی پر اتنا یہ احسان مجھ پر کرو
کہ اس کا پرستان میں چرچہ نہ ہو
مثنوی سحر البیان میں فطری مکالمه نگاری
اچھی کہانی کا وصف یہ ہے کہ اس کی مکالمہ نگاری فطری ہو۔ یعنی مکالمے کرداروں کی ذہنی استعداد و شخصیت و مزاج کے مطابق ہو۔ سحر البیان میں کرداروں کے حوالے سے یہ خوبی بدرجہ اتم نظر آتی ہے اور میر حسن اس خوبی کے ذریعے کہانی کے مختلف کرداروں میں جان ڈال دیتے ہیں.
مثنوی سحر البیان کی منظر نگاری
منظر نگاری میں بھی میر حسن نے اپنے قلم کا جادو جگایا ہے ۔ مختلف مناظر کا بیان اس انداز سے کرتے ہیں کہ حقیقت نگاری اور سادگی کا دامن نہیں چھوٹتا۔اگر تشبیہ اور استعارہ بھی استعمال کرتے ہیں تو زیادہ نمایاں نہیں کرتے ۔اس طرح بڑی سادگی اور مہارت سے سے منظر پیش کر دیتے ہیں۔
پروف ریڈر: محمدعرفان ہاشمی
حواشی
کتاب۔اردو شاعری کی تفہیم و تعارف،کورس کوڈ۔9003،صفحہ۔174-175،مرتبہ۔رخشندہ عنبرین
مضوع۔ مثنوی سحر البیان کی فنی و فکری خصوصیات