کتاب کا نام :تاریخ ادب اردو 2
صفحہ نمبر:80 تا 82
عنوان:مثنوی سحر البیان کا تنقیدی جائزہ
مرتب کردہ: ارحم
__🌸__
میر حسن کے مثنوی سحر البیان کا تنقیدی جائزہ
لکھنو کے تین بڑے مثنوی نگار میں بلا شبہ میر حسن سر فہرست قرار پاتے ہیں میر انیس نے پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں کہا تو ان کا اظہار فخر بجا تھا کہ میرا حسن ان کے دادا تھے میر حسن کے والد میر غلام حسین ضامک دہلی کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے سودا سے لگتی تھی چنانچہ سودا نے خاصی غلیظ زبان میں ان کی ہجو لکھی
میر حسن کا اصل نام غلام حسن تھا لیکن دنیائے ادب میں میر حسن کے نام سے ہی معروف ہوئے تاریخ پیدائش پر محققین متفق نہیں قیاسہ کہا گیا کہ 1154/1741 میں دہلی میں پیدا ہوئے لکھنؤ میں 1201 تا 1786 میں وفات پائی
دہلی میں حالات کے خرابی کے باعث دیگر شعراء کی مانند ان کے والد میر زامک نے بھی ترک وطن کیا پہلے فیض آباد اور پھر لکھنو میں مقیم رہے جب میر حسن لکھنو پہنچے تو ان کی عمر 22، 23 برس کی ہوگی
میر حسن صاحب کلیات میں اردو شعراء کا تذکرہ شعرائے اردو 1978 قلم بند کیا
یہ مشہور شعر انہی کا ہے :
جو کوئی اوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہیں تیرے
ہم کہاں تک تیرے پہلو سے سرکتے جائیں
پروفیسر مظفر حنفی نے دیوان کا انتخاب غزلیات میر حسن کے نام سے مع مقدمہ شائع کیا۔دہلی 1991 کلیات 1979 میں مرتب ہوا میر حسن نے ایک درجن مثنویاں لکھیں۔
نقل تلاوت نقل نون فاحشہ نقل قصاب، نقل قصائی مثنوی شادی آصف الدولہ 1959 رموز العارفین 1974 مثنوی درہجو حویلی کہ کرایہ گرفتہ بود 1975۔76 گلزار ارم 1978 مثنوی تہنیت عید 1784 مسنوی درد صف قصر جواہر1984مثنوی خوا نعمت 1984 اور مثنوی سحر البیان 1984
یہ امر معنی خیز ہے کہ میر حسن نے 1984 میں 4 مثنویاں قلم بند کی اور یہ امر مزید میں نے خیز ہے کہ سحر البیان کے بعد اور کوئی مثنوی نہ لکھ پائے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میر حسن صرف سحر البیان لکھنے کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرتے رہے 1984 تخلیقی ابال کا سال تھا ایک ایسا تخلیقی سیلاب جو زرخیز تخیل کی مدد سے سیر البیان کا عالم طاری کر گیا
سحر بیان کا قصہ مافوق الفطرت کرداروں اور خارق عادات و واقعات پر مبنی کیا ہے لیکن میر حسن کا رواں قلم کسی ماہر افسانہ نگار کی مانند مناظر کی تصویر کشی اور کرداروں کی مرقع نگاری کرتا ہے اس ضمن میں وہ واقعی مصورانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہیں یہاں تقریبا ت کا بیان ہے ۔وہاں انہوں نے جزیات نگاری کا حق ادا کر دیا ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ قصہ کی تخلیق فضا میں لکھنو کی تقریبات سچی تصویریں بنا ڈالی کرداروں کے بیان میں ان کی نفسیات اور گفتگو میں ان کی حیثیت مرتبہ مزاج اور حفظ مراتب کو ملحوظ رکھا تقریبا ہڑھائی ہزار اشعار پر مشتمل مثنوعی سحر البیان بحر متقارب مثمن مقصور و مغضوب میں قلم بند کی گئی ہے
اس متحرک بحر میں میر حسن نے وہ اسلوب نکالا کے الفاظ عالم رقص میں محسوس ہوتے ہیں
میر حسن کے سیر البیان اگرچہ قصہ اور طرز ادا کے لحاظ سے جدید نہیں مگر اس کے باوجود ہر عہد کے محققین اور ناقدین نے اس پر خاصہ فرسائی کرتے ہوئے اس کے شعری محاسن اجاگر کیے ہیں مزید مطالعہ کے لیے یہ کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں
محمد احسان الحق میر حسن عہد اور فن لاہور سنگ میل پبلیکیشنز 1979
محمود فاروقی میر حسن اور خاندان کے دوسرے شعرا لاہور مکتبہ جدید 1956
ڈاکٹر وحید قریشی مثنویاں حسن جلد اول لاہور مجلس ترقی ادب 1966
ایضاً۔۔۔ مثنوی سحر البیان لاہور لاہور اکیڈمی 1966
ایضاً۔۔۔۔میر حسن اور ان کا زمانہ لاہور استقلال پریس 1959۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں