کتاب کا نام: اردو شاعری 2
کوڈ: 5608
مثنوی نگاری میں دیا شنکر نسیم کا مقام صفحہ نمبر 12 تا 14
مرتب کردہ:ارحم
مثنوی نگاری میں پنڈت دیا شنکر نسیم کا مقام
دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کا شمار اردو ادب کی چند بے نظیر مثنویوں میں ہوتا ہے اردو کے تقریباً تمام ناقدین اور محققین نے اسے سراہا ہے اور دیا شنکر نسیم کے کمال فن کا اعتراف کیا ہے کم و بیش تمام ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ گلزار نسیم اردو مثنوی نگارے کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اپنے اپنے انداز اور طریقے سے ناقدین نے گلزار نسیم کو سراہا ہے اور نسیم کے مقام و مرتبے کا تعین کیا ہے یہاں چند لاکھ دن کی ارا سے اپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ نصیب کی مسنوی گلزار نسیم کا کیا مقام و مرتبہ ہے رام بابو سکسینہ نے تاریخ ادب اردو میں لکھا ہے اس مثنوی کا اعجاز روانی سلاست مناسبت الفاظ برجستگی محاورات نادر تشبیہات تو استعارات یہ سب قابل تعریف ہیں ان کے الفاظ سے اور تخیل کے اعتبار سے یہ ایک معرکہ تل تصنیف ہے یہ مثنوی اس قدر مقبول اوری کے بہت سے اشعار بطور زلبل نسل ضربل المثل زبان پر چڑھ گئے ہیں شکست میں گلزار نسیم کی تدوین کرتے ہوئے اس پر ایک مفصل دیباچہ تحریر کیا ہے اس دیباچے میں وہ اس مثنوی کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں تناسب لفظی کے ساتھ اختصار پختگی کلام چستی بندش شوکت الفاظ پاکیزگی الفاظ اس مثنوی کے خاص جوار ہیں استرات اور تشبیہ ہوں سے میناکاری کی ہے اس نے اس مثنوی کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے کہ :
"نسیم نے ثنائی کا جو ثبوت دیا ہے اس کی نظیر اردو ادب میں موجود نہیں اردو ادب کے سخت گیر نقاد کلیم اللہ احمد نے بھی گلزار نسیم کو سراہا ہے اس مسئلے بھی کے فنی محظم کو خراج تحسین پیش کیا ہے”
عزیز طلبہ و طلبات ہم نے دیا شنکر کے مثنوی گلزار نسیم کا اجمالی تعارف مثنوی گلزار نسیم کا تنقید مطالعہ اور مثنوی نگاری میں دیا شنکر نسیم کی مثنوی گزار نسیم کے مقام و مرتبے کا اجمالی تعین کیا ہے آپ موجودہ لازمی کتب کی مدد سے ان کا مطالعہ سرائی کے ساتھ کر سکتے ہیں
چند اشعار کے تشریح عزیز طلبہ و طلبات ذیل میں ہم مثنوی گلزار نسیم کے چند اشعار کی تشریح پیش کر رہے ہیں اسے نمونہ بناتے ہوئے آپ مثنوی کے دوسرے اشعار کی تفہیم آسانی سے کر سکتے ہیں
شعر نمبر 1:
ایک تھی رخ جنوں کی کا کل
یا بابو سنی گل کو آیا سنبل
تشریح:
یہ شعر مثنوی کے قصیدے کے اسی حصے میں سے لیا گیا ہے جب بکاولی تاج الملوک کے فراق میں عالم جنون میں پایا زنجیر ہے اس شعر سے پہلے شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ بقاولی کے پیڑوں میں بیڑیاں ڈال دی گئی اس شہر میں شاعرانہ تعبیر یہ بتایا گیا ہے کہ بقاولی خود محبت کی زنجیر میں گرفتار تھی اس شہر میں کاکل کو زنجیر یعنی بیڑی سے تعبیر کیا گیا ہے گل بکاولی سے مراد محبوب کی زلفوں اور گیسوں سے تشبیہ دیتے ہیں سنبل پھیل کر پھول کے شاخوں سے لپٹ جاتا ہے گویا گل کے پاؤں چوم رہا ہے بکاؤلی کے پاؤں میں بھی بیڑیاں ایسے ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے اس کی قدم بوسی کے لیے آئی ہوں
شعر نمبر 2:
منہ دھونے جو انکھ ملتی آئی
پر اب وہ چشمے حوض پائی
دیکھا تو وہ گل ہوا ہوا ہے کچھ
اور ہی گل کھلا ہوا ہے
تشریح:
مثنوی گلزار نسیم کا یہ اشعار قصے کے اس مقام سے ہیں جب شہزادہ تاج الملوک گل بکاولی توڑ لیتا ہے بکاولی صبح اٹھتے ہی اس حوض پر آتی تھی جہاں پھول کھلا ہو ہوتا تھا مگر جب وہ انکھیں ملتی ہوئی منہ دھونے اور پہنچی تو حوض کی آنکھ بھی پھول کی محرومی سے نم تھی یہاں شہر میں کمال ہنر سے پانی کے حوض کو پرنم بتایا ہے کیوں کہ پہلے پھول کی جدائی میں مبتلا ہوا بکاؤلی نے جب غور کیا تو دیکھا کہ وہ پھول یعنی گل بکاؤلی اپنی شاخ پر نہیں ہے دوسرے مصرے میں شاعر نے گل کھلانا کا محاورہ استعمال کر کے میں نہیں آفرینی پیدا کی ہے گل کا ہونا گل کا غالب ہو جانا ہے گل کھلانا یعنی سانحہ کے رونما ہو جانے کے مترادف ہے تاج الملوک کا پھول چوری کر لینا نہ صرف پانی کے حوض کے لیے صدمے کا باعث ہے بلکہ گل بکاولی کے لیے بھی یہ منظر ناقابل برداشت ہے اس کے بعد اشعار میں شاعر نے اس واقعے کی منظر نگاری کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں