کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو شاعری 1
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5607
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ مثنوی کی اہمیت اور مختصر تاریخ
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 200 تا 201
مرتب کردہ ۔۔۔۔ hafiza Maryam
مثنوی کی اہمیت اور مختصر تاریخ۔۔
مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں مثنوی کو بڑا درجہ دیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مثنوی میں مربوط اور مسلسل مضامین بیان کرنے کی بڑی گنجائش ہوتی ہے، کیونکہ مثنوی کی ہیئت محدود نہیں، بلکہ کشادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر شعر ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتا ہے۔ بالعموم دیگر اصناف میں قافیے اور ردیف کی پابندی کی وجہ سے ایک تنگ دائر و نظر آتا ہے، جبکہ مثنوی کی صنف میں وسعت نظر آتی ہے، کیونکہ ایک قافیے کو دور تک نہیں لے جانا پڑتا ۔ شاید اسی وجہ سے مولانا حالی نے اس صنف کو اندوز ہونے کے لیے اس صنف کے ید صنف قرار دیا۔ البتہ ان کا خیال ہے کہ مثنوی سے لطف ر اس کی مخصوص شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ہر صنف کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے اور اس کے تقاضے ہوتے ہیں ۔ اگر ہم غزل کے تقاضوں کے تحت مثنوی لکھیں یا پڑھیں ، تو شاید ہم اس صنف کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے ۔ مولانا حالی نے اس سلسلے میں ایک دلچسپ مثال دی ہے کہ بعض باور چی باورچی پیتل کی دیکھی میں کھانا اچھا پکاتے ہیں اور بعض دیگ میں ے تقاضے الگ الگ ہیں ۔ حالی کے بقول مثنوی مربوط مضامین اور طویل قصوں کے لیے اسنے سراغ نہیں ملتا ، کیونکہ عرب ہی طور – ور پر فارسی ادب سے مخصوص ہے ۔ قدیم عربی ادب میں اس کا زیادہ مائل تھے ۔ مولانا حالی کے خیال میں اس وجہ سے عربی ادب میں لمبی اور مربوط صنف موجود نہیں ہے، جیسا کہ فارسی ادب میں ہے ۔ فارسی مثنویوں میں بڑے بڑے اخلاقی پہلو بھی موجود ہیں ۔ وہ تصوف سے متعلق بھی ہیں اور عشقیہ قصوں پر بھی مشتمل ہیں۔ ان کے اندر تاریخ کا بیان بھی ہے۔ یوں زندگی کے مختلف شعبوں سے ان کا تعلق بنتا ہے۔
فارسی میں مثنوی نگاری کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط نظر آتی ہے۔ اس میں بزمیہ، نشاطیہ اور المیہ مثنویاں موجود ہیں ۔ فردوسی کا شاہ نامہ بھی مثنوی کی ہیئت میں ہے، جس میں قدیم ایران کے قصے ہیں ۔ فرید الدین عطار کی مثنویاں اپنی مثال آپ ہیں ۔ نظامی گنجوی کو فارسی مثنوی نگاری میں استاد کامل کا درجہ حاصل ہے۔ مولانا روم کی مثنویاں تصوف کے موضوع پر کمال فن کا نمونہ ہیں ۔ بالخصوص ان کی ” مثنوی معنوی، تصوف ، حکمت اور اخلاق کے حوالے سے اپنے اندر جو بہاؤ رکھتی ہے، اس کی دوسری مثال ملنا محال ہے۔ مولانا جامی کی مثنویاں بہت مشہور ہیں ۔ برصغیر کے فارسی گو شعراء نے بھی بہت کی مثنویاں لکھیں مثلاً : امیر خسرو کی مثنویاں جو عشقیہ موضوعات سے لے کر حکمت اور تاریخ تک کے موضوع کو محیط ہیں ، مثنوی نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بعد کے دور میں بیدل مشہور مثنوی نگار تھے ، جن کی اہمیت کو ایران میں تو کم تعلیم کیا گیا، لیکن برصغیر کے فارسی گو شعراء پر ان کا گہرا اثر ہوا۔اردو میں مثنوی کا آغاز تو دکنی دور ہی سے ہو چکا تھا اور دکنی ادب میں بہت اہم مثنویاں نظر آتی ہیں ۔ وجہی ، نصرتی ، رسمی ، نشاطی اور سراج اورنگ آبادی کے علاوہ بھی بے شمار شعراء نے اہم مثنویاں تخلیق کیں، لیکن چونکہ ان کا لہجہ اور زبان دکنی ہے۔ چنانچہ وہ ایک خاص دائرے سے باہر مقبولیت حاصل نہ کر سکے ۔ شمالی ہند میں مثنوی نگاری کے سلسلے میں ایک اہم نام میر تقی میر کا ہے۔ میر تقی میر کی عشقیہ ، ہجویہ، واقعاتی اور مدحیہ مثنویاں کہ جن کی تعداد کم و پیش (37) ہے، اپنی اہمیت کے اعتبار سے اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں ۔ میر حسن نے شمالی ہند میں مثنوی کی ہیئت کو نہایت وسیع پیمانے پر ایک مربوط اور لمبا قصہ بیان کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آخری دور میں مرزا غالب نے اہم مثنویاں لکھیں ۔ غالب بھی امیر خسرو اور بیدل کے بعد برصغیر میں فارسی میں مثنوی لکھنے والوں میں اہمیت رکھتے ہیں۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے اس صنف کو ایک نئی شان اور قوت سے استعمال کیا ۔ ” اسرار خودی” اور ” رموز بے خودی” ان کی مشہور مثنویاں ہیں۔
دلی کے دبستان شاعری کی نمائندگی کرنے والی میر حسن کی شہرہ آفاق مثنوی سحر البیان ہے اور لکھنو کے
دبستان شاعری کی نمائندہ دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم“ ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں