گلزار نسیم ایک نظر میں
مثنوی تعریف و مفہوم
موضوعات کی فہرست
مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے جو "مثنی” سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ہی٫٫ دو تہوں ولاا ”۔ اس صنف میں ہر دو مصرعے میں ہم قافیہ ہوتا ہے اور ہر دو مصرعوں کے بعد قافیہ بدل جاتا ہے، اس لیے اسے مثنوی سے منسوب کیا گیا ہے۔
اردو میں مثنوی کی اہمیت
اردو میں دو مثنوی کافی اہمیت کی حامل ہیں: سحر البیان میر حسن کی اور گلزار نسیم دیا شنکر نسیم کی۔
گلزار نسیم کا فنی وفکری جائزہ
گلزار نسیم دیا شنکر کی شاہکار مثنوی ہے جو 1654 ء لکھی گئی۔ یہ مثنوی لکھنوی دبستان کی عاشقانہ مثنوی ہے۔ فن کے لحاظ اور تخیل کے اعتبار سے مثنوی اپنا لاثانی نہیں رکھتی۔ اس کے کلام میں پختگی ہے۔ سلاست اور روانی ان کے کلام کا خاص حصہ ہے۔
مثنوی کی خصوصیات
مثنوی کی اہم خصوصیات ربط و تسلسل ہیں۔ مثنوی بھی ایک مسلسل داستان ہوتی ہے، اس لیے واقعات کی کڑیاں مربوط ہونی چاہیئں۔ ہر شعر دوسرے پیوست ہوتا جائے۔ گلزار نسیم سحر البیان کے مقابلے میں طویل اور پیچیدہ ہے۔ اس کے باوجود اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ مرصع کاری اس مثنوی کی اہم خصوصیات میں سے ہے: یہ مثنوی شروع سے آخر تک مرصع نگاری کا شاہکار ہے۔
اشعار کی مثال
مثنوی کا شعر ہے:
"ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
تشبیہ جاگی مرخ سحر کے
گل سے اٹھی نگہت سی
فرش گل سے گڑیاں
لب حوض اک پری تھی
فوارے کی طرح رو رہی تھی”
گلزار نسیم نام اور شناخت
نام پنڈت دیا شنکر کول تھا، تخلص نسیم، والد کا نام گنگا پر شاد کول تھا۔ نسیم کا خاندان کشمیر سے آکر لکھنؤ میں آباد ہوا تھا۔ نسیم لکھنؤ میں 1811ء میں پیدا ہوئے تھے۔
گلزار نسیم زندگی اور شاعری
دیا شنکر نسیم نے امجد علی شاہ کے عہد میں ہوش سنبھالا۔ نسیم نے بیس سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور خواجہ حیدر علی آتش کی شاگردی اختیار کی۔ نسیم کی غزلوں میں استاد کا رنگ جھلکتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور خود داری نسیم کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ زبان کا لطف، محاورے کی صحت کا خیال، صنا ئع کے استعمال کا شوق، نسیم کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ نسیم کا تعلق دبستان لکھنو سے ہے۔
گلزار نسیم کی ادبی اہمیت
"گلزار نسیم” کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ مولوی محمد حسین آزاد نے اس کتاب کے ذریعے اردو نثر کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی زبان میں سادگی اور روانی ہے، جسے پڑھتے وقت قاری آسانی سے کہانی میں کھو جاتا ہے۔ آزاد نے نہ صرف داستان کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے بلکہ اس میں چھپے فلسفے، انسانی نفسیات، اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
گلزار نسیم میں فکر اور تنقید
فکری جہت: آزاد نے کہانی میں موجود موضوعات، جیسے محبت، وفاداری، تقدیر، اور انسانی فطرت کے پیچیدہ پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہانی کو صرف ایک تفریحی تحریر کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ اسے ایک فکری تجربہ سمجھتے ہیں جس میں قاری کو زندگی کے بڑے سوالات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔
تنقیدی جائزہ:
مولوی آزاد کہانی میں شامل اساطیری اور روایتی عناصر کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ قصے کی روایتی ساخت اور اس میں موجود کرداروں کی نمائندگی پر تنقید کرتے ہیں، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کس طرح کہانی کے کردار مختلف انسانی رویوں اور اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔
تنقیدی اہمیت
"گلزار نسیم” صرف ایک داستان نہیں بلکہ اردو ادب میں ایک تنقیدی اور فکری شاہکار بھی ہے۔ مولوی محمد حسین آزاد کی یہ کتاب اس وقت کے ادبی ماحول میں ایک اہم اضافہ تھی، اور اس کا اثر بعد کے اردو نقادوں اور ادیبوں پر بھی نمایاں رہا۔
گلزار نسیم میں ادبی فن
آزاد نے اس داستان میں لفظوں کا ایسا انتخاب کیا ہے جو قاری کے دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کی زبان کی شیرینی اور نثر کی خوبصورتی اردو نثر کے ارتقاء میں ایک اہم قدم ثابت ہوئی۔ وہ داستان سنانے کا ایک نیا اسلوب لے کر آئے جو داستانوی ادب کے لیے ایک معیار بن گیا۔
مثنوی کی خصوصیات
مثنوی عربی لفظ ہونے کے باوجود عربی ادب میں اس قسم کی کوئی صنف رائج نہیں۔ فارسی میں مثنوی کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، مثلاً شاہنامہ فردوسی، مثنوی معنوی، بوستان سعدی وغیرہ۔
دیاشنکر نسیم اور گلزار نسیم
نام پنڈت دیا شنکر کول تھا تخلص نسیم والد کا نام گنگا پر شاد کول تھا- نسیم کا خاندان کشمیر سے آکر لکھنؤ میں آباد ہوا تھا-نسیم لکھنؤ میں 1811ءمیں پیدا ہوئے تھے ۔دیا شنکر نسیم نے امجد علی شاہ کے عہد میں ہوش سنبھالا تھا ۔نسیم نے بیس سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور خواجہ حیدر علی آتش کی شاگردی اختیار کی ۔نسیم کی غزلوں میں استاد کا رنگ جھلکتا ہے ۔دنیا کی بے ثباتی اور خود داری نسیم کے پسندیدہ موضوعات ہیں ۔زبان کا لطف ،محاورےکی صحت کا خیال ،صنا ئع کے استعمال کا شوق نسیم کے کلام کا نمایاں خصوصیات ہیں ۔نسیم کا تعلق دبستان لکھنو سے ہے ۔
لالے اس بت کا التجا کر کے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے”
گلزار نسیم” کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ مولوی محمد حسین آزاد نے اس کتاب کے ذریعے اردو نثر کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی زبان میں سادگی اور روانی ہے، جسے پڑھتے وقت قاری آسانی سے کہانی میں کھو جاتا ہے۔
آزاد نے نہ صرف داستان کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے بلکہ اس میں چھپے فلسفے، انسانی نفسیات، اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب ایک تنقیدی لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ آزاد نے کہانی کی تہوں کو کھولتے ہوئے اس کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کیا ہے۔ ان کا انداز یہ تھا کہ وہ قاری کو کہانی کے مختلف زاویے دکھا سکیں
اور انہیں سوچنے پر مجبور کریں کہ کہانی میں پیش کی گئی مشکلات اور کرداروں کی جدوجہد حقیقی زندگی سے کس طرح تعلق رکھتی ہیں۔فکر اور تنقید:فکری جہت: آزاد نے کہانی میں موجود موضوعات، جیسے محبت، وفاداری، تقدیر اور انسانی فطرت کے پیچیدہ پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہانی کو صرف ایک تفریحی تحریر کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ اسے ایک فکری تجربہ سمجھتے ہیں جس میں قاری کو زندگی کے بڑے سوالات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔تنقیدی جائزہ:
مولوی آزاد کہانی میں شامل اساطیری اور روایتی عناصر کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ قصے کی روایتی ساخت اور اس میں موجود کرداروں کی نمائندگی پر تنقید کرتے ہیں، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کس طرح کہانی کے کردار مختلف انسانی رویوں اور اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔تنقیدی اہمیت:”گلزار نسیم” صرف ایک داستان نہیں بلکہ اردو ادب میں ایک تنقیدی اور فکری شاہکار بھی ہے۔
مولوی محمد حسین آزاد کی یہ کتاب اس وقت کے ادبی ماحول میں ایک اہم اضافہ تھی، اور اس کا اثر بعد کے اردو نقادوں اور ادیبوں پر بھی نمایاں رہا۔ادبی فن: آزاد نے اس داستان میں لفظوں کا ایسا انتخاب کیا ہے جو قاری کے دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کی زبان کی شیرینی اور نثر کی خوبصورتی اردو نثر کے ارتقاء میں ایک اہم قدم ثابت ہوئی۔ وہ داستان سنانے کا ایک نیا اسلوب لے کر آئے جو داستانوی ادب کے لیے ایک معیار بن گیا۔
*مثنوی* مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جس کے معنی دو دو کیے گئے ایک مسلسل نظم ہے ہر شعر کا ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ہر شعر کا قافیہ دوسرے کے قافیے سے الگ الگ ہوتا ہے ۔ شروع سے آخر تک ایک ہیں ہی بحر میں لکھی جاتی ہے ۔ربط و تسلسل اس کا اہم اُصول ہے ۔ ۔ طویل قصوں .
داستانوں اور جنگی حالات کو منظوم صورت میں بیان کرنے کے کام آتی ہےنثر میں جو کام ناول اور داستان سے لیا جاتا ہے وہی کام مثنوی جاتا ہے۔ منظم خیالات، احساسات ، کیفیات اور تاثرات واقعات کو پیش کرنے کی سب سے زیادہ گنجائش اس میں ہے ۔لفظ مثنوی – عربی لفظ ہو نے کےباوجود عربی ادب میں اس قسم کی کوئی صنف رائج نہیں ۔فارسی میں مثنوی کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی مثلاً شاہنامہ فردوسی ، مثنوی معنوی، بوستان سعدی وغیرہ.
Contributors:
یہ مضمون "پروفیسر اردو” واٹس ایپ گروپ کے زیرِ اثر لکھا گیا ہے، جہاں مشترکہ طور پر ہینا، نادیہ خاٹک اور دیگر اراکین نے اس موضوع میں اپنی قیمتی آراء اور معلومات فراہم کیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں