مثنوی اور ماہیا کی اصطلاحات

ماہیا

ماہیا کے لفظی معنی

"ماہیا ” کا لفظی مطلب محبوب ہے۔ یہ پنجابی لوک شاعری کی ایک مقبول صنف ہے۔ اصل لفظ ” ماہی ہے جس کے معنی محبوب ہیں۔ ماہیا لفظ مخاطب ہے یعنی ” اسے ماہی (اے محبوب!) ، ما ہیا۔

یہ بھی پڑھیں: مطالعہ مثنوی اسرار خودی ڈاکٹر تسکینہ فاضل | PDF

پنجابی سے اردو میں وارد ہوا ہے ۔

ماہیا ئیت اور وزن

ماہیا کی ہیئت اور وزن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہیں یہ ڈیڑھ مصرعے کا ہوتا ہے اور کہیں تین مصرعوں کا۔
تین مصرعوں کے ماہیے میں پہلا اور تیسرا مصرع برابر اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ماہیوں میں ہر مصرع کا وزن مفعول مفاعیلین ہوتا ہے ۔

وہ ماہیے جن کا دوسرا مصرع چھوٹا ہوتا ہے ان کا وزن یوں ہوتا ہے۔ پہلا مصرع :

فعلن فعلن فعلن، دوسرا مصرع : فعلن فعلن فع، تیسرا مصرع : ” فعلن فعلن فعلن ۔

ماہیا ان کے علاوہ دیگر اوزان میں بھی لکھا جاتا ہے۔
ماہیا کا موجد :
پنجابی میں ماہیے کا موجد نارووال کے رہائشی ہمت رائے شرما جی (پ: ۱۹۱۹ء) کو بتایا جاتا ہے۔
حیدر قریشی کے بقول :

ہمت رائے شرما جی نے درست وزن کے اردو ماہیے سب سے پہلے ۱۹۳۶ء میں کہے تھے اس لیے انھیں ابھی تک ماہیے کے بانی قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی پر اولیت حاصل ہے۔ اسی طرح میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ تحقیقی اور تاریخی لحاظ سے انھیں چراغ حسن حسرت کے ثلاثی گیت پر بھی اولیت حاصل ہے ۔ [۵]

یہ بھی پڑھیں: اردو مثنوی میں تہذیبی عناصر | PDF

پنجابی ماہیوں میں پہلا مصرع عموما ایک سر ، ایک ماحول پیدا کرنے اور آخری مصرعے کو قافیے کی بنیاد مہیا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ پہلا مصرع دوسرے مصرعے کے ساتھ مل کر ایک آہنگ پیدا کرتا ہے جو خوش گوار صوتی تاثر کا باعث بنتا ہے۔ تیسرے مصرعے سے ساری بات کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ مثال :

دو پتر ا تاراں دے

ساڈے دکھ سن سن کے

روندے پتھر پہاڑاں دے

اردو میں ماہیا

اردو میں سب سے پہلے چراغ حسن حسرت اور اختر شیرانی نے ماہیے کہے۔ اردو ماہیا بھی پنجابی ماہیے کی روایت پر ہے

لیکن اردو کے اکثر ماہیوں کے تینوں مصرعوں میں کہیں کہیں معنوی رابطہ بھی ملتا ہے۔

مثنوی کی تعریف

تعریف :- نظم کی ایک ایسی قسم ہے جس میں ایک مسلسل مضمون یا کہانی بیان کی جاتی ہے۔
"مثنوی عربی لفظ سے ثنی مشتق ہے جس کے معنی دو کے ہیں۔

مثنوی کی ہیئت

اس کے ہر شعر کے دونوں مصر سے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر شعر کے مختلف قوافی ہوتے ہیں۔
اشعار کی تعداد :-
اس میں اشعار کی تعداد کی کوئی قید نہیں۔

مثنوی کا آغاز

مثنوی کی ابتدا فارسی میں ہوئی۔ فارسی شاعر رودکی کی "کلیلہ و دمنہ” سب سے پہلی مثنوی ہے ۔ یہ نصر بن احمد سامانی کی فرمایش پہ لکھی گئی تھی۔
فارسی میں رزمیہ، بزمیہ، مذہبی اور اخلاقی نوعیت کی مثنویاں لکھی گئی ہیں۔

اردو میں بھی بڑی حد تک اس روایت کی تقلید کی گئی ہے۔ اردو میں زیادہ تر عشقیہ مثنویاں لکھی گئی ہیں۔
اردو میں سب سے پہلے مشہور فارسی مثنویوں کے ترجمے کیے گئے ۔

اردو کی پہلی مثنوی

ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق فخر الدین نظامی کی مثنوی ” کدم را و پدم راؤ اردو کی پہلی مثنوی ہے ۔
دکن میں متعدد مثنویاں لکھی گئیں ۔
مثال:

وجہی کی قطب مشتری”
غواصی کی طوطی نامہ”
نصرتی کی علی نامہ” ،
ابن نشاطی کی ” پھول بن
سراج اورنگ آبادی کی ” بوستان خیال اور
رستمی کی "خاور نامہ۔

شمالی ہند میں میر تقی میر ، مرزا شوق میر حسن، دیا شنکر نیم کی مثنویاں بہت مشہور ہوئیں۔

مثنوی کی زبان

مثنوی کی زبان سادہ ہوتی ہے اور یا ایک ہی مضمون کی حامل ہوتی ہے۔

موجودہ دور کے شعرا کا مثنوی کی طرف بہت کم رجحان ہے۔ مثنوی کے اجزاء:-
مثنوی کے پانچ اجزا ہوتے ہیں :
۱۔ توحید و مناجات ،
۲۔ مدح حاکم ،
۳۔ تعریف شعر و سخن
۴۰ ۔ سبب تالیف
۵۰- اصل قصہ ۔

قدیم مثنویاں منظوم داستانیں ہوا کرتی تھیں اس لیے ان میں قصہ گوئی کے تمام اجزا شامل ہوتے تھے
مثلا: پلاٹ، کردار نگاری، جذبات نگاری، مکالمہ نگاری محاکات نگاری، منظر نگاری اور جزئیات نگاری۔

پروف ریڈر: نائمہ خان

حواشی

موضوع ۔۔۔{ماہیہ اور مثنوی}،کتاب کا نام ۔۔۔{ادبی اصطلاحات}،کوڈ نمبر ۔۔۔{9015}،مرتب کردہ۔{عارفہ راز}

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں