مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

معاشرے میں عورت کا مقام: مذہب، روایات اور جدید دور کی حقیقت

معاشرے میں عورت کا مقام


آج 2025 میں، دنیا مصنوعی ذہانت سے لے کر مریخ پر انسانی بستیاں بسانے تک، روشنی کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن اس بے مثال ترقی کے باوجود، آج بھی ایک طبقہ ایسا ہے جسے اپنے بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے۔

وہ طبقہ عورت کا ہے۔ آخر معاشرے کو عورت سے مسئلہ کیا ہے؟ تاریخی طور پر عورتوں کو ان کے حقوق کیوں نہیں دیے گئے؟ اور کس طرح خواتین کو ان کے حقوق دے کر ہمارا معاشرہ ترقی کر سکتا ہے؟

اس مضمون میں، ہم معاشرے میں عورت کے مقام کا گہرائی سے تجزیہ کریں گے، ان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی روایات کو کھنگالیں گے جنہوں نے عورت کو صدیوں تک قید رکھا ہے۔

تاریخی جڑیں: آدم و حوا کی کہانی

عورتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو سمجھنے کے لیے ہمیں آدم اور حوا کی کہانی کی طرف دیکھنا ہوگا، ایک ایسی روایت جو اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں میں مشترک ہے۔ کہانی کے مطابق، خدا نے آدم و حوا کو جنت میں رکھا لیکن ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع کیا۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر، پہلے حوا نے اور پھر آدم نے وہ پھل کھا لیا، جس کے نتیجے میں انہیں جنت سے نکال دیا گیا۔

گناہ کی ذمہ داری کس پر؟

اگرچہ اس کہانی کی مختلف تشریحات ہیں، لیکن بہت سی مذہبی روایات نے اس واقعے کی بنیاد پر عورت کو ہی گناہگار ٹھہرایا۔

  • یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ حوا نے نہ صرف خود نافرمانی کی بلکہ آدم کو بھی اس گناہ پر مجبور کیا۔
  • آدم کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے تو حوا کی محبت میں یہ پھل کھایا، لہٰذا اصل قصوروار عورت ہی ہے۔
  • اسی سوچ نے حوا کو ایک کمزور، چالاک اور اخلاقی طور پر کمتر مخلوق کا سمبل بنا دیا، جس نے ہزاروں سال تک معاشرے میں عورت کے مقام کو بری طرح متاثر کیا۔

یہی وہ نفسیاتی بنیاد ہے جس کی وجہ سے آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے جملے عام ہیں: "شادی کے بعد بیوی نے اسے گمراہ کر دیا” یا "وہ تو اپنی بیوی کے کہنے پر چلتا ہے۔”

"پسلی کی پیداوار” کا افسانہ

ایک اور متھ جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق کے طور پر پیش کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ تصور عورت کو ایک "بائے پروڈکٹ” کے طور پر دیکھتا ہے۔

بائبل میں استعمال ہونے والا لفظ براہ راست "پسلی” کا ذکر نہیں کرتا، لیکن اس کی تشریح اسی طرح کی گئی ہے۔ کچھ سکالرز کا ماننا ہے کہ یہ ایک استعارہ ہے جو مرد اور عورت کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے، نہ کہ ایک حیاتیاتی حقیقت۔

سائنس بمقابلہ روایات

اسلامی روایات کے برعکس اگر ہم سائنس کی نظر سے دیکھیں تو یہ تمام چیزویں سائنس کی نظر میں بے بنیاد نظر آتے ہیں۔

  • تھیوری آف ایولوشن: ڈارون کے مطابق، انسان لاکھوں سال کے ارتقائی عمل سے گزرا ہے، نہ کہ کسی ایک جوڑے سے پیدا ہوا ہے۔
  • جینیات: جینیاتی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ انسانی آبادی کبھی بھی صرف دو افراد تک محدود نہیں تھی۔
  • حیاتیات: مرد اور عورت دونوں ایک ہی فرٹیلائزڈ ایگ سے بنتے ہیں، فرق صرف کروموسومز (XX یا XY) کا ہوتا ہے۔ کوئی بھی حیاتیاتی طور پر برتر نہیں۔

پاکستانی معاشرہ اور عورت پر ظلم

بدقسمتی سے، ان فرسودہ روایات کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی معاشرے پر نظر آتا ہے، جہاں معاشرے میں عورت کا مقام آج بھی متنازعہ ہے۔

ونی: ایک غیر انسانی رسم

ونی ایک ایسی رسم ہے جس میں کسی مرد کے جرم (مثلاً قتل) کے بدلے میں اس کی بیٹی یا بہن کو متاثرہ خاندان کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جہاں اس کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہوتا ہے۔ یہ عورت کو ایک چیز سمجھنے کی بدترین مثال ہے۔

شادی اور مرضی کا سوال

ہمارے معاشرے میں یہ سوچ عام ہے کہ بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کی ہر جنسی خواہش کو پورا کرے، چاہے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔ 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق، زیادہ تر پاکستانی عورتیں سماجی اور مذہبی دباؤ کی وجہ سے ناخوشی کے باوجود شوہر کے ساتھ تعلق قائم کرتی ہیں۔

پاکستان میں "میریٹل ریپ” کا کوئی تصور نہیں، جس کا مطلب ہے کہ شادی کے بعد عورت کی اپنی جسمانی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے۔

جائیداد کے حقوق اور "حق بخشوانا”

اسلامی وراثت کے قانون میں عورت کا حصہ مرد سے آدھا رکھا گیا ہے، جس کی دلیل مرد پر عائد مالی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں عورت کو یہ آدھا حصہ بھی نہیں دیا جاتا۔

"حق بخشوانا” ایک عام رواج ہے، جس میں بہنوں سے زبردستی یا جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے ان کا وراثتی حق معاف کروا لیا جاتا ہے۔

تاریخ میں عورت کا کردار: ایک بھولی ہوئی حقیقت

تاریخ ہمیشہ مردوں نے لکھی ہے، جس میں عورت کے کردار کو جان بوجھ کر مٹایا گیا ہے۔ لیکن اگر ہم اسلام میں عورت کے مقام کو دیکھیں تو ہمیں روشن مثالیں ملتی ہیں:

  • حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا: ایک کامیاب بزنس وومن اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تجارتی پارٹنر تھیں۔
  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: اپنے وقت کی سب سے بڑی فقیہہ اور محدثہ تھیں، جن سے ہزاروں حدیثیں روایت ہیں۔
  • شفاء بنت عبداللہ: مدینہ میں تعلیم اور عوامی انتظامیہ میں اہم کردار ادا کیا۔

ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو فعال اور بااختیار کردار دیا تھا، جسے بعد کی روایات نے مسخ کر دیا۔

نتیجہ: ترقی کا واحد راستہ

یہ ایک لکھی ہوئی حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی نصف آبادی کو پیچھے چھوڑ کر ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت تک نہیں اٹھ سکتی جب تک ہم عورتوں کو معیشت میں برابر کی شرکت کا موقع نہیں دیتے۔ مسئلہ مذہبی متن میں نہیں، بلکہ اس سماجی سوچ میں ہے جو عورت کو دیکھ کر عدم برداشت کا شکار ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ ڈاکٹر جیمز ایگری نے کہا تھا:

"اگر آپ ایک مرد کو تعلیم دیتے ہیں، تو آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک عورت کو تعلیم دیتے ہیں، تو آپ ایک پوری قوم کو تعلیم دیتے ہیں۔”

عورت کو اس کے حقوق دینا کوئی احسان نہیں، بلکہ معاشرتی بقا اور ترقی کی لازمی شرط ہے۔


اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں