مرثیے کی تعریف

کتاب کا نام اُردو شاعری 2
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5608
صفحہ نمبر 51….54


مرتب کردہ ……… AlyanaKaLimمرثیے کی تعریف

مرثیے کی تعریف

مرثیہ عربی لفظ ” رثاء سے مشتق ہے۔ جس کے لغوی معنی ” ” مرنے والے پر رونے آہ وزاری کرنے اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں۔ شعری اصلاح میں مرثیہ اس صنف شعر کو کہتے ہیں جس میں کسی مرنے والے کی تعریف و توصیف کی جائے اور اس کی موت پر اظہار غم کیا جائے ۔ بالخصوص مرھیے کا اطلاق اس صنف پر ہوتا ہے جس میں حضرت امام حسین کی شہادت یا اس سے متعلق کوئی واقعہ غم انگیز پیرائے میں بیان کیا جائے ۔ اردو میں صنف مرثیہ بطور خاص واقعات کربلا سے وابستہ ہو گئی اور اسی مفہوم میں رائج ہوئی ۔ اسی نسبت سے بعض ناقدین نے مرثیہ کو خالص ہندوستانی صنف قرار دیا ہے۔ اردو میں ایسے مرحلے بھی لکھے گئے جو مختلف لوگوں کی موت پر اظہار غم میں انہیں شخصی مرثیہ کہا جاتا ہے۔

مرثیہ کے اجزائے ترکیبی میں تمہید، چہرہ سرا پا رخصت آمد شہادت رجز، بین اور دعا شامل ہیں ۔ تاہم مرثیہ کے ان اجزاء کا تعین ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ یہ ارتقائی طور پر رائج ہوئے ۔ مرثیہ میں ان اجزائے ترکیبی کی پابندی ضروری نہیں ۔ اردو کے نامور مرثیہ نگاروں کے یہاں بھی پورے طور پر ان کا التزام نہیں ملتا۔

جہاں تک مرثیہ کی ہیئت کا تعلق ہے تو اٹھارہویں صدی تک اسے مختلف ہیتوں میں لکھا جاتا رہا۔ مرزا محمد رفیع سودا نے مرثیہ کے لیے مسدس کی ہیئت کو موزوں ترین قرار دیا ۔ چنانچہ ان کے بعد مرثیہ مسدس کی ہیئت سے ہی مخصوص ہو گیا ، جس میں آج تک تبدیلی نہیں ہوئی ۔ "

2 اردو مرثیہ کا آغاز و ارتقاء

مرثیہ اردو کی اہم ترین زندہ اور متحرک صنف سخن ہے اور اپنے مزاج اور ہیئت کے اعتبار سے خالص سرز مین پاک و ہند کی پیداوار ہے۔ اس میں ماحول تہذیب اور زمانے کو اپنے اندر سمو لینے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک فرد یا ایک قوم کی شاعری نہیں بلکہ پوری تہذیب پوری قوم اور پورے معاشرے کی آواز ہے۔ اس نے اول روز ہی سے اپنی بنیادیں ایک ایسے انقلابی تصور پر استوار کیں جس میں خیر و شر کی آویزش، حق و باطل کی کشمکش اور انسانی زندگی کے معاشرتی پہلوؤں کے علاوہ اعلیٰ ترین اخلاقیات کو قدر اول کا درجہ حاصل ہے۔ صبر و رضا ایثار اور قربانی کے مظاہر مل جل کر مرثیہ کے احساساتی آہنگ کو توانائی بخشتے ہیں ۔ مرثیہ وہ صنف سخن ہے جس میں اردو کی تمام شعری اصناف کا جو ہر سمٹ آیا ہے ۔ ذیل میں ہندوستان کے مختلف خطوں میں مریےکے ارتقاء کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

(1) اردو مرثیہ دکن میں :

اردو مرثیہ کا با قاعدہ آغاز کب ہوا اس کا حتمی تعین ممکن نہیں۔ محققین نے اگر چہ قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا مرثیہ نگار لکھا ہے لیکن اس سے پہلے یمنی دور میں بھی بعض مرثیہ نگاروں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ دکنی مرثیہ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں سادگی اور اختصار کے ساتھ ان تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے جو واقعہ کربلا کے حوالے سے ایک عقیدت مند کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مرھے تقریبا تمام بیٹوں میں کہے گئے ہیں تاہم زیادہ تر غزل کی ہیئت کو استعمال کیا گیا ۔ ان مرمیوں میں موضوعات کو بھی ایک خاص انداز میں ڈھال کر ان سے اصلاح نفس، پند و موعظت اور اخلاق آموزی کا کام لیا گیا ہے ۔ دکنی شعراء مرثیہ میں سوز و گداز اثر آفرینی طبیعی مناسبت اور عقیدت مندی ضروری خیال کرتے تھے۔ مرثیہ کا بنیادی مقصد گریہ و بکا تھا، شعری محاسن کے اظہار یا استادانہ کمالات کے مظاہر سے غرض نہ تھی ۔ دکنی مرمیوں میں تہذیبی میلانات اور ثقافتی رویوں کے اشارے بھی ملتے ہیں ۔ یہ مرثیہ نگاروں میں گولکنڈہ کے قلی قطب شاہ ملا وجہی، شیخ احمد شریف گجراتی ، غواصی، عبدا الله قطب شاہ قطبی عابد فائز محب لطیف اور بیجا پور کے علی عادل شاہ مرزا بیجا پوری مقیمی ، ملک خشنود نصرتی مرزا شاہ ملک قادر اور ہاشمی شامل ہیں ۔

(ii) اردو مرثیہ شمالی ہند میں :

شمالی ہند میں مرثیہ گوئی کا آغاز اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں ہوا محققین نے فضل علی فضلی کی کربل کتھا کو شمالی ہند میں اردو مرثیہ گوئی کا پہلا نمونہ قیاس کیا ہے ۔ دہلی میں مرثیہ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی لیکن انہوں نے مرثیہ کا کوئی بلند معیار قائم نہیں کیا ۔ سودا نے البتہ مرثیہ کی ساخت میں تنوع پیدا کیا اور اس کے مضامین کو وسعت دے کر اسے ادبی مقام پر فائز کیا ۔ انہوں نے مرثیہ میں مقامی ماحول اور معاشرت کو شامل کر کے اس سے کینوس کو وسیع تر کر دیا ۔

(iii) اردو مرثیہ لکھنو میں :

اٹھارہویں صدی ہی میں لکھنو میں مربے کی روایت میر ضمیر میر خلیق، میاں دلگیر اور مرزا فصیح کی کوششوںسے مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سودا کے بعد اگر اردو مرثیہ کسی انقلاب سے روشناس ہوا تو وہ انہی شعراء کے ہاتھوں ہوا۔ خاص طور پر میر ضمیر نے مرھیے کو نئے عنوانات اور موضوعات سے آراستہ کر کے اس کی پوری فضا کو یہ تبدیل کر دیا ۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ انیس ودبیر کے زمانے میں مرثیہ گوئی کا پس منظر جس رنگ و آہنگ سے تعمیر ہوا ہے اس میں میر ضمیر کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے وہ مرثیہ گوئی میں پہلے صاحب طرز شاعر ہیں جن کے یہاں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو بعد میں انیس دبیر اور ان کے جانشینوں میں ملتی ہیں۔

(iv) اردو مرثیہ انیس و دبیر کے عہد میں :

انیسویں صدی میں میرا نہیں اور مرزا دبیر کے عہد کو اردو مرثیہ کا دور عروج کہا جاتا ہے۔ اس دور میں مرثیہ کی صنف نے اردو شاعری میں اپنا اصل مقام حاصل کیا ۔ انیس و دبیر نے شاعری کے تمام محاسن کو اپنے مرثیوں میں سمیٹ لیا ہے۔ ان دونوں نامور مرثیہ نگاروں نے مرثیہ کو رونے رلانے کے حدود سے نکال کر ہیرو کی پر وقار زندگی کا آئینہ بنا دیا ۔ انہوں نے مرثیہ میں صداقت شعری کے ساتھ ساتھ جذبات انسانی کا بھی خیال رکھا اور مذہبی معتقدات کی پابندی کے باوجود مرحمیوں کی شعریت کو ایک بلند پایہ وصف شعری عطا کیا ۔ انکے مرثیوں میں کہیں رزم ہے، کہیں بزم صبح کا سماں کہیں شام غریباں کا منظر ۔ ہر میدان میں اچھوتا مضمون نظر آتا ہے اور لطف کی بات یہ کہ کسی منظر میں اپنی تہذیب اور معاشرت کے جلوؤں سے کنارہ کشی نہیں ملتی ۔ انیس و دبیر کے دور میں اور ان کے بعد بہت بڑی تعداد میں مریعے کہے گئے ۔ انیس کے ساتھ ان کے معاصرین شاگردوں اور مقلدین کا ایک بہت بڑا گروہ تھا جس نے مرثیہ کے خدو خال سنوار نے اور اس میں وسعت اور تنوع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

(۷) کلاسیکی اردو مرثیہ کا زوال :

انیس و دبیر نے اردو مرثیہ کوفن کے جس نقطہ عروج پر پہنچا دیا وہاں سے مزید بلندی یا عروج کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں چنانچہ بعد کے مرثیہ نگاروں کے لیے انیس و دبیر کے انداز سے انحراف کر کے کوئی نی نے چھیڑنا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ بعد کے مرثیہ نگار انیس و دبیر کے بنائے ہوئے سانچوں اور خاکوں میں رنگ بھرتے رہے۔ اس اعتبار سے انیس و دبیر کے بعد کا دور جو بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے سے جاملتا ہے کلاسیکی مرثیہ کے زوال کا دور ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ صرف مرثیہ ہی کا نہیں اس عظیم الشان تہذیب و معاشرت اور سیاست کا بھی زوال تھا جو سرز مین لکھنو پر پونے دو سو برس تک اپنی جولانیاںدکھانے کے بعد انیس و دبیر کے زمانہ عروج میں اپنی بساط لپیٹنے پر مجبور ہوگئی ۔ افراتفری در بدری بے عملی دل عرفی حرماں نصیبی اور مایوسی نے پورے معاشرے میں اپنے قدم جما لئے تھے جس سے مرھیے کی فضا بھی متاثر ہوئی ۔ مرثیوں میں نا قدری سخن کا گلہ ہونے لگا ۔ سوز و گداز بڑھ گیا اور رزمیہ عناصر ہلکے پڑ گئے ۔ انگریزوں کی غلامی کے باعث سپا ہیا نہ جذبات سرد ہو گئے اور رزمیہ رنگ شاعری مفقود ہوتا گیا ۔ تا ہم مرثیہ میں بہار یہ ” اور ساقی نامہ کا اضافہ بھی ہوا ۔

(vi) جدید اردو مرثیہ

بیسویں صدی میں اردو مرثیہ ایک نئی صورت حال میں سامنے آتا ہے ۔ اس دور میں شاد عظیم آبادی اوج لکھنوی، حجم آفندی نسیم امروہوی، جوش ملیح آبادی، آل رضا شاہد نقوی، قیصر بارہوی صفدر حسین، جمیل مظہری اور سید وحید الحسن ہاشمی نے اردو مر ھے کو عصری زندگی کے مسائل سے مربوط کرنے کی شعوری کوشش کی ۔ کلاسیکی مرثیہ کر بلا کے خونچکاں واقعے کی یاد کو عقیدت مندانہ انداز میں تازہ رکھنے تک محدود تھا ۔ جدید مرثیوں نے ایک جدید فضا تعمیر کی جس میں سانحہ کربلا کے اسباب و نتائج اسلامی تاریخ کے واقعات عہد حاضر کے مسائل حیات اصلاحی اور اخلاقی رنگ جدید عہد میں انسانی ذہن کو متاثر کرنے والی اقدار کا منطقی اور استدلالی بیان اور پورے مربے میں کسی ۔ ایک موضوع پر تسلسل کے ساتھ روشنی ڈالنے کا رجحان نمایاں ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں