کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم
کوڈ : 9003
صفحہ: 201
موضوع: مرثیہ تاریخی حوالے سے
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
مرثیہ تاریخی حوالے سے
میر تقی میر نے نکات الشعرا میں ابتدائی مرثیہ خواں اور مرثیہ گو شعرا کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان میں میرامانی، میر عاصی، میر آل علی درخشان ، سکندر صبر ، ندیم ، قادر اور گمان وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ فضل اللہ فضلی کو شمالی ہند میں اردو کا پہلا مرثیہ گو شاعر مانا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سودا، میر، میر ضمیر ، میرضا حک ، میر حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں ظہور اسلام سے قبل بھی مریعے کہے جاتے تھے۔ ایران میں بھی اس کی قدیم روایت ملتی ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد عربی میں پہلا مرثیہ فر ذوق نامی اور فارسی میں شیخ سعدی شیرازی نامی شعرا نے لکھا۔ ایرانی بادشاہ طہماسپ صفوی کے عہد اقتدار میں محتشم کاشی کا نام بھی ملتا ہے ۔
عادل شاہی دور میں سب سے پہلے شیخ شجاع الدین نوری نے مریے کی ابتدا کی۔ نوری کے بعد ہاشم علی برہان پوری کا نام آتا ہے پھر فضل اللہ فضلی نے واقعہ کر بلا پر مرثیہ لکھا۔
شمالی ہند میں مریثے کا آغاز شہنشاہ ہمایوں کے عہد میں ہوا۔ اس وقت شعرا فارسی زبان میں مرجھے لکھتے تھے مگر دکنی مرثیوں کے زیر اثر شمالی ہند کے شعرا نے بھی اردو میں مریھے لکھے۔ چنانچہ محمد شاہی دور میں مسکین، جزین اور غمگین مشہور مرثیہ گو شعرا تھے۔ ان کے بعد محمد رفیع سودا نے رقت آمیز مریچے لکھے۔ مولانا شبلی نعمانی "مواز نہ انیس و دبیر میں مرثیے کی ابتدا کے بارے میں کہتے ہیں کہ اہل عرب کے ہاں شاعری کی ابتدا اظہار جذبات سے ہوئی تھی اس لیے سب سے پے پہلے شاعری کی ابتدا مرثیہ سے ہوئی جو سب سے قوی تر جذبے کا اثر ہے۔
اردو زبان وادب کی تاریخ سے وابستہ کسی بھی قسم کا موضوع یا صنف کیوں نہ ہو اس کے آغاز وارتقا کے ابتدائی نقوش تلاش کرنے میں دکنی ادبیات سے رجوع کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اہلِ دکن، شمالی ہند سے بہت پہلے اردو زبان وادب کی آبیاری میں مصروف تھے۔
دکن میں مرثیہ کے آغاز وارتقا کے کے حوالے سے ایک بنیادی بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دکن کے بعض بادشاہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے مثلاً عادل شاہی بادشاہ اور ایران سے تعلق خاص ہونے کی وجہ سے محرم اور اس سے وابستہ تمام رسومات جوش و خروش اور عقیدت سے منائی جاتی تھیں۔ جنوبی ہند کا یہ معاشرتی و تہذیبی ماحول مرثیہ جیسی صنف کو خوب راس آیا۔
عادل شاہی بادشاہوں کے علاوہ قطب شاہی اور نظام شاہی بادشاہ بھی اہل بیت کے احترام میں کسی سے کم نہ تھے حتیٰ کے جب اورنگ زیب نے ان سلطنتوں کو ختم کر دیا تو ان ریاستوں سے وابستہ شعرا نے بکھر کر ، کرناٹک، گجرات، برہان پور اور ملحقہ سلطنتوں میں بزم عزا کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ دکنی مرثیہ کے اسلوب اور ہیئت کے بارے میں ڈاکٹر سید صفدر حسین لکھتے ہیں:
تقریباً دو صدی میں جنوب میں مرثیہ نے وہ تمام مدارج طے کر لیے تھے جو دکنی نوحہ سے شروع ہو کر سودا کے ادبی مرثیہ تک پہنچتے ہیں یعنی شکل و ہیئت کے اعتبار سے بھی مرثیہ نے فرد، سلام،مثلث، مربع مخمس اور مسدس سب پہلو برت لیے تھے اور اس کی وسعت بھی آخیر وقت میں سودا کے مراثی تک پہنچ گئی تھی یعنی زبان ، مکالمہ کی قدرت ، رفعت تخیل میں بھی کافی ترقی ہو چکی تھی ۔
(رزم نگاران کر بلا ص ۔ 17)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں