انسان کامل یا مرد مومن کے تصور کا اسلامی پس منظر

(موضوع)(3)- انسان کامل یا مرد مومن کے تصور کا اسلامی پس منظر،کتاب کا نام || علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ -I،کوڈ کورس : 5613،صفحہ نمبر 73 تا 75،مرتب کرده… مسکان محمد زمان۔

انسان کامل یا مرد مومن کے تصور کا اسلامی پس منظر

——–> روز گار فقیر“ کے مصنف فقیر سید وحید الدین کہتے ہیں کہ قرآن کا یہ ارشاد کہ خود تمہارے وجود کے اندر اس کی نشانیاں ہیں علامہ اقبال کو اول اول خودی کی اہمیت کے حوالے سے متاثر کر گیا تھا اسی طرح یہ روایات کہ من عرف نفسه فقد عرف ربه
ترجمہ
( جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے خدا کو پہچان لیا )

کنت کنز مخفيات. مخلقت الخلق
ترجمہ
( میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے سو میں نے مخلوق کو وجود بخش دیا) S.A Vahid کا یہ کہنا ہے کہ خود قرآن شریف کی یہ آیہ مبارکہ

ولا تزر وازرة وزر اخرى
ترجمہ
(کسی کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اٹھائے گا )

——–> عمل کے ناتے خودی ہی کی انفرادی ذمہ داری کی دلالت کرتا ہے خود یا ان کی انفرادی صورت ہی نہیں اللہ کی انائے کبیر کے ساتھ اس کا تعلق بھی اسلامی روایات سے مل جاتا ہے۔ آنحضور نے جب کفار کو کنکریاں ماریں تو اس حوالے سے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا و ما رميت اذر ميت ولكن الله رمى (القرآن) جب کنکر تو نے مارے تو وہ تو نے نہیں مارے بلکہ اللہ نے مارے۔

——–> اسی طرح بیعت رضوان کے وقت جب صحابہ نے آنحضور کے دست مبارک پر بیعت کی تو ارشا د فرمایا
وماوميت اذرميت ولكن الله رمى (القرآن)

ترجمہ

( جب کنکر تو نے مارے تو وہ تو نے نہیں مارے بلکہ اللہ نے مارے۔)

اسی طرح بیعت رضوان کے وقت جب صحابہ نے آنحضور کے دست مبارک پر بیعت کی تو ارشا د فرمایا:

یدالله فوق ايديهم
ترجمہ

( ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے )

نطشے کا فوق البشر

——-> نطشے کا فوق البشر قوت محض کا نمائندہ جذبہ اور جوش کی علامت اور مذہب و اخلاق سے بے نیاز توانائی ہے وہ خدا کا مشکر تھا عیسائیت کو اس نے عروج انسانی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ عیسائیت اور بدھ مت کو اس نے نفی حیات والے مذاہب کہا۔

اس کا خیال ہے کہ تاریخی طور پر عیسائیت کمزور محکوموں اور غلاموں کی اپنے فاتحوں اور طاقتور مالکوں کے خلاف سازش تھی کہ اس کے ذریعے انہوں نے اپنے ہاں موجود غلاموں والے اخلاق کو بلند اخلاقیات کرغزی کو نعمت عاجزی کو خدا کے ہاں پسند یہ صفت اور صبر و خوبی قرار دے لیا۔

——–> وہ کہتا ہے اسی ہتھیار سے کمزور یہودیوں نے طاقتو راہل روم کو شکست دی۔ وہ غلاموں کے اخلاق کو آقاؤں کے اخلاق سے جدا کر کے دیکھتا ہے وہ کہتا ہے حوصلہ جرات، عمل پسندی اور عمل کی سود و زیاں سے بلندی اور ماورائیت آقاؤں کے اخلاق ہیں اور عاجزی برداشت انتظار نرمی وغیرہ غلاموں کی اخلاقیات میں شامل ہیں ۔

———>> اخلاق کو تقسیم کرنے والا نطفے خیر اور شر کو منقسم اور الگ الگ نہیں جانتا۔ وہ کہتا ہے کہ اچھائی اور خیر شروع میں قوت کو کہا جاتا ہے اچھا آدمی طاقتور آدمی ہوا کرتا تھا، یہی ہونا چاہیے وہ اس چیز یا عصر کو شر کہتا ہے جو کمزوری کی طرف لے جائے ۔ کمزور کو بچانے کا عمل اس کی نگاہ میں عروج آدم کی دشمنی میں گنا جائے گا ۔

وہ کہتا ہے بعض رسم ورواج کی پابندی کو لوگوں نے نیکی کہنا شروع کر دیا اور لوگ اس لئے نیک ہوتے ہیں کہ اس میں سہولت رہتی ہے یا یہ ان کی عادت کی مجبوری ہوتی ہے۔ اور ثواب کو بھی اسی پیمانے سے جانچتا ہے وہ کہتا ہے کہ فوق البشر کے تسلسل میں آنے والے زمانے نیکی اور بدی کے بجائے حکمت کو معیار بنائیں گے۔

تہذیب ظلم سے پھوٹی اعلیٰ تہذیب اس کے تجزیے کے مطابق وہاں ابھری جہاں مجبور ا محنت کرنے والا طبقہ بھی تھا اور اپنے اختیار سے محنت کرنے والا بھی وہ جمہوریت اور اشتراکیت ہر دو کو رد کرتا ہے انسانی مساوات اسے کسی طرح برداشت نہیں ۔ وہ کہتا ہے ارتقاء میں صرف اعلیٰ افراد اٹھیں گئے سب نہیں ۔

زندگی اس کی نگاہ میں تنازع للبقا میں بقائے کا قائل ہے کہتا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کے لیے دوسروں سے تصادم اور مسلسل تصادم میں مصروف ہے۔ وہی نسلیں آج تک باقی رہیں جو ماحول، موسم آب و ہوا اور زمانہ کی سختیوں کے دباؤ کو سہ سکیں۔ زیادہ قومی فرد جو فوق البشر ہے وہی باقی بچے گا بلکہ اس کو باقی رہنا چاہیے اسے ان آزاد مردوں کا انتظار ہے جو توانائیوں نفع وضرر پر صداقت کو اہم سمجھیں ۔ خیر وشر کے چکر میں نہ آئیں جو صرف اسے قبول کریں جو حیات بخش ہو ۔

وہ فوق البشر کی عظمت کے آگے کسی تصور قدر معیار، شخصیت کو کچھ نہیں سمجھتا۔ برتر انسان کی تلاش نطفے رومی، عبدالکریم جبلی اور اقبال کے ہاں مشترک عصر ہے اگر چہ برتر انسان کا تصور مطلقے کا سب سے مختلف ہے۔ عقل کے مقابلے پر معرفت سکھانے والا جذ بہ یا عشق روی نطفے اقبال تینوں میں موجود ہے۔ نطقے اور رومی استدلال اور منطقیت کے بجائے موسیقی کو اہم کہتے ہیں۔

اقبال شاعری کو فلسفے سے بہتر قرار دیتے ہیں تینوں جدو جہد کو زندگی کہتے ہیں۔ خودی کا استقرار نطشے، رومی، اقبال تینوں کے ہاں موجود ہے۔ انسان کا عروج غیر محدود ہے۔۔ یہ عصر بھی تینوں کے ہاں موجود ہے۔ تاہم رومی اور اقبال کے اشتراکات بے شمار ہیں ۔ دونوں تقدیر کو غیر معین کہہ کر اسے آئین حیات کہتے ہیں۔ دونوں کا خیال ہے کہ موجودات ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف سفر کر رہے ہیں قرآن کے آدم کو دونوں عظیم کہتے ہیں ۔

فلسفے کی دنیا میں نطشے کا تصور فوق البشر ایک بڑے آدمی ( بلکہ ایک طاقتور آدمی ) کے تصور تک محدود رہتا ہے جسے وہ Superman کہتا ہے۔ اس شخصیت کے تین عناصر ترکیبی ہیں ,Resurrection Dionysus اور Superman یونان کی پرانی دیو مالا یا ضمیات میں جو دیوی دیوتاؤں کے قصے بتائے گئے ہیں

ان میں Dionysus تکاثر عشرت اور شراب کا دیوتا ہے۔ وحشت اور ظلم کی رسوم اس کی شخصیت کے ساتھ گندھی ہوئی ملتی ہیں۔ وہ عیش فراواں اور لامحدود طاقت کی علامت بنتا ہے۔ یہ لامحدود لا قانونیت اقبال کے تصورات ہی کے برعکس ہے۔

———> نطقے کے اس تصور فوق البشر کا دوسرا حوالہ Eternal Resurrection ہے جو تخلیقی سفر ہیں۔ نطشے کے بجائے دائرے کے اندر کی دائمی حرکت ہے۔ اقبال اس حرکت کو تقدیر پرستی کہتے ہوئے رد کرتے ؟ کے تصور کا تیسرا عصر خود فوق البشر کی ذات ہے۔ یہ تو انا شخص ہر Value (قدر) کے تصور سے بے خبر اور محروم ہے قوت اور اندھی قوت کی علامت ہے۔

وہ سخت کوش بھی ہے مسلسل حرکت میں بھی ہے مگر ہر اخلاقی حس ہر نے ہی قید سے ماورا ہے۔ اقبال اس تصور کو بھی قبول نہیں کر سکتے ان کا مرد مومن تو بہت سی ذمہ داریاں ساتھ لے کے چلتا اور سے بہت کی پابندیوں میں سفر کرتا ہوا اپنی شخصیت کو تہذیب دیتا ہے۔

رومی اور اقبال کا تصور مرد مومن

——–> اسلامی فکر وجود انسانی کا اثبات کرتی ہے۔ اسی باعث سید عبدالواحد نے اقبال کے تصور خود میں مولانا روم کے تصور خودی کے تین اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

-1: مرد مومن کا مقام

2 : مرد مومن کی عرفانیت اور روحانیت

-3: لاحدود خودی ( اللہ ) اور خودی (انسان) کا ربط

—-> اقبال نے خود کو مرید ہندی کہہ کر مرشد رومی کی رہنمائی قبول بھی کی ہے۔ رومی کے ہاں بڑے انسان کی آرزو بھی ملتی ہے اور اس کی ضرورت کا احساس بھی۔ رومی نے کہا تھا

دی شیخ با چراغ همی گشت گرد شہر
کز دام و دو ملولم و انسانم آرزوست

——–> کل شیخ ہاتھ میں دیا لئے شہر بھر میں گھومتا رہا یہ کہتے ہوئے کہ میں کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں جیسے انسانوں سے بیزار ہو گیا ہوں آدمی کو ڈھونڈتا ہوں ) اس ساری غزل میں رومی نے بڑی عمدگی سے مرد مومن کی رونمائی کی ہے۔ ویسے بھی رومی کی شعری فضا عشق کی جس مستی سے لبریز ہے۔

اس کے ڈانڈے بھی اقبال کے تصور عشق سے ملتے ہیں کہ رومی کے ہاں بھی عشق بھی جذب و عمل کی سرخوشی سے عبارت ہے ۔ شیخ اکبر محی الدین العربی کے بھی ذات مطلق کے ظہور کے مدارج کے ساتھ انسانی کردار کے ارتقاء کے تصورات ملتے ہیں اسی طرح فلسفی

———-> عبدالکریم جیلی کے ہاں بھی انسانی کردار کی ارتقائی صورت کی آرزو ملتی ہے۔ اقبال مرد مومن کی علامت کے طور پر لالہ کے پھول کو کوئی جگہ سامنے لاتے ہیں۔

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
اقبال چاہیے اس کو خون عرب سے

——–> لالہ کے پھول سینے میں داغ مرد مومن کے دل داغ داغ کی علامت ہے صاف ماحول میں کھلا ہو الالہ مرد مومن کے اہل صفا ہونے سے عبارت ہے۔

——–> تاہم شاہین کی علامت مرد مومن کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہے اور یہ علامت تکرار اور مباحث میں بھی بہت آئی ۔ شاہین کی صفات حیرت انگیز طور پر بلندی کردار کا ایک استعارہ بنتی ہیں وہ دور بین ہے بہت بڑے فاصلے سے شکار کو دیکھ سکتا ہے۔

اس کے باز و سب پرندوں سے زیادہ توانا ہوتے ہیں، وہ سیدھا نوے درجے کے عمودی زاویے پر بھی اڑان لے سکتا ہے اس کی ذہانت ایسی ہے کہ اپنے سے کئی درجہ بڑے جاندار کو چونچ مار کے اندھا اور اپنی مرضی کے مطابق چلا کر لے آتا ہے ۔ شاہین کے رعب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جس درخت پر آبیٹھے وہیں کوئی دوسرا پرندہ بیٹھنے کا تصور نہیں کر سکتا اور اگر وہاں بیٹھا ہو تو دہشت سے مر جاتا ہے۔

وہ حرام خوری اور مردار خوری سے بچتا ہے دوسرے کا چھوڑا ہوا نہیں کھاتا۔ خود شکار کرتا ہے دوسرے دن کیلئے چھپا بچا کر نہیں رکھتا وہ صاحب ترک دنیا بھی ہے کہ خود گھونسلہ نہیں بناتا کھلے موسموں میں جی لیتا ہے۔

فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جلترنگ

——-> زندگی کی بہار میں نرم دلی کی روش کئی بار سخت مقامات کے مقابل آنے پر مجبور ہے۔ جن دانشوروں نے ؟ شاہین کے جھپٹنے پلٹنے پر اعتراضات کئے انہوں نے عموماً غیر معمولی نازک مزاجی کی وکالت کی۔ جب کہ زندگی کا سوال یہ ہے کہ طاقت کو قانون اور قاعدہ کا پابند کیا جائے نہ یہ کہ طاقت حاصل کرنے سے بھی انکار کر دیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں