مقبول عام افسانہ نگار | Maqbool Aam Afsana Nigar
مقبول عام افسانہ نگار
عام طور پر افسانہ پڑھنے والا اسے ذہنی تفریح کا ذریعہ سمجھ کر اسے پڑھتا ہے۔ وہ تکنیک اور رجحان سے یکسر بے خبر فرصت کے لمحات اس میں گزارتا ہے۔ عام اردو داں طبقہ اسی زمرے میں آتا ہے ۔ ہند اور پاک سے نکلنے والے بے شمار رسالے ایسے ہیں جو اس طرح کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ ادبی افسانے جس دینی یکسوئی اور سنجیدگی کا مطالبہ اپنے قاری سے کرتے ہیں وہ مطالبہ عام قاری پورا نہیں کر سکتا، اس لئے اردو کے یہ ڈائجسٹ اور رسالے اور ان میں لکھنے والے افسانہ نگار اس مخصوص طبقے میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اکثر ادب میں اپنا مقام بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ افسانے ایک خاص طبقے کو مد نظر رکھ کر ایک فارمولے کے تحت لکھے جاتے ہیں۔
رومان حقیقت کی ضد ہے، ان افسانوں میں رومانی کہانیاں گھر یلو پس منظر میں لکھی جاتی ہیں ۔ جس میں بنیادی اہمیت پیار و محبت کو حاصل ہوتی ہے ۔ اور پوری کہانی اسی ایک نقطہ کے ارد گرد گھومتی ہے ان افسانوں میں واقعات کے بیان یا پھر فضا سازی کی تخلیق ہر جگہ رومانیت کا غلبہ ہوتا ہے۔ کہانی میں عام طور سے محبت کا روایتی مثلث ہوتا ہے ایک ہیروئن اور اس کے چاہنے والے دو ہیر و یا پھر ہیرو ہیروئن کا تصادم ایک مرد ( رقیب ) خاندان اور سماج سے ہوتا ہے ۔ یہ کہانیاں اکثر اسی آزمودہ نسخے کے تحت لکھی جاتی ہیں۔ جس میں امیر کبیر ہیروئن قیمتی لباس اور زیورات میں ملبوس ہوتی ہے۔ اور ماحول و فضاء قارئین کے لئے ایک fantasy کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اور ان کے نا آسودہ جذبات اور نا مطمئن آرزوؤں کی ایک طرح سے تکمیل ہوتی ہے۔ اور کچھ کل لئے قاری اس سحر میں ڈوب جاتا ہے۔
خواتین افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اس فن میں ماہر ہے اور قارئین کو باندھنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ اس میں کچھ وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے ادبی یا پھر سنجیدہ کہانیاں لکھ کر اپنی فن کو وقار بخشا و ہیں تفریحی کہانیاں لکھ کر عوام کی دلچسپی کا سامان بھی مہیا کرتی رہی ہیں۔ افسانہ نگاری کے آغاز میں یہ فرق کرنادشوار تھا مگر آزادی اور تقسیم ملک تک آتے آتے قلم کار واضح طور پر دو خانوں میں تقسیم ہو گئے ۔ ادبی کہانیاں لکھنے والوں میں وہ فنکار شامل تھے جن میں فنی اور فکری گہرائی موجود تھی ۔ اور دوسری طرف وہ مقبول عام افسانہ نگار تھیں جو خالص تفریحی فکشن لکھ کر شہرت حاصل کر رہی تھیں ۔
رضیہ بٹ ، عفت موہانی، مسرور جہاں ، عطیہ پروین وغیرہ ایسی ہی ادیبائیں ہیں جنہوں نے گھریلو خواتین کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اور انکی پسند و نا پسند کا خیال رکھتے ہوئے وہ مواد فراہم کیا جو انہیں خوش کر سکے ، اس طرح کے ادب کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس میں فنکار اپنے قاری کو خود سے قریب لانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ وہ خود ہی اپنے قاری کے قریب پہونچ جاتا ہے۔ یہ افسانے سماجی تقاضوں کو بنیاد بنا کر لکھے جاتے ہیں اور عوامی دلچسپی اور تفریح کے لوازمات کے ساتھ ساتھ اس میں سماجی اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری بھی ضروری ہوتی ہے۔ جدید دور کی مقبول عام افسانہ نگار خواتین میں یہ تبدیلی نظر آتی ہے کہ ان کے یہاں ہیروئن شرمیلی اور صرف اندروخانہ میں دلچسپی رکھنے کے بجائے اپنی زندگی کا فیصلہ لینے کی مجاز ہے وہ پڑھی لکھی اور اکثر نوکری پیشہ ہوتی ہے اور حالات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ خواتین افسانہ نگار اپنے معاشرے کی پر اثر اور بے باک ترجمانی کرتی ہیں لیکن دوسری طرف ان کا فن اس لئے متاثر ہو جاتا ہے کہ وہ صرف مسلم معاشرے کی عکاسی تک ہی محدود رہ گئیں اور ایک ہی قسم کے تھیم کو بار بار دہراتی رہیں اور زندگی کے دوسرے تجربات کو اپنی تخلیقات میں شامل نہیں کر سکیں جس کے باعث ان کے کرداروں اور ان کے پیش کرنے کے انداز میں یکسانیت آگئی۔ وہ افسانے صرف ذہنی مسرت کا ذریعہ بن کر رہ گئے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں