منور رانا کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

منور رانا کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Manzar Rana ki shairi ka tanqeedi jaiza

نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat

منور رانا کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

منور رانا جدیدیت کے بعد کے دور میں محمد علوی کے معاصرین میں سے اہم نام ہیں ۔ وہ اپنے مختلف اور منفرد لہجے کی وجہ سے آزادی کے بعد کی اردو شاعری میں بہت مقبول ہوئے۔ انہوں نے اردو غزل کو بھی عصری لہجے اور اسلوب سے ہم آہنگ کیا اور روزمرہ کی زندگی کی تصویر کشی اور عام انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے تجربات کو عام فہم اور سہل زبان میں غزلوں میں پیش کر دیا۔ انہوں نے ایسے کئی اشعار اردو کو دیئے جو آج زبان زد خاص و عام ہیں:

سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

یہ سوچ کر کہ تیرا انتظار لازم ہے

تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی

منور رانا کی شاعری کی یہی تازگی اور بیبا کی انہیں دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ انسانی رشتوں کی نا پائیداری، میاں بیوی کے رشتے کی پیچیدگیوں اور انسانی اقدار کی شکست و ریخت کو زیادہ تر اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ روزہ مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کا خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ اس لئے ابراہیم ہوش نے ابتداء ہی میں ان کی شاعری کے متعلق بڑی شاعری کے امکانات کو دیکھ لیا تھا وہ لکھتے ہیں:

وہ اپنی شاعری میں فلسفہ نہیں بگھارتا، بلکہ جو کچھ کہتا ہے وہ سیدھے سادے اور فنکارانہ انداز میں کہتا ہے۔ وہ اپنے خیالات کو حالات و مشاہدات کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ اس کی شاعری کا لباس گرچہ کلاسیکی ہے لیکن وہ اپنا سفر اس طرح طے کر رہا ہے کہ روایت کا بھرم بھی قائم رہے اور

نئے لہجے اور محاورے کا حق بھی ادا ہو جائے ۔“

( منور رانا آج کا شاعر ابراہیم ہوش مشمولہ ماہنانہ بیل گیا، تمبر 1984 ، شماره 19، ص: 0

منور رانا نے زندگی میں سادگی اور خلوص کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ ایک شاعر کے سماجی منصب اور شاعری کے نصب العین سے اچھی طرح واقف ہیں وہ انسانوں کے اندر ریا کاری، مکاری، مکر وفریب، بغض و عناد وغیرہ جیسی برائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور ہمیشہ حق گوئی اور انصاف پسندی کا دامن تھامے رہتے ہیں۔

خوشامد چاپلوسی اور مکاری نہیں لاتے

ہم اپنے شعر میں الفاظ درباری نہیں لاتے

منور رانا کلاسیکی شعری روایات کا پاس رکھتے ہوئے محمد علومی کی طرح جدید لب ولہجہ اپناتے ہیں مگر ابہام اور بعید از فہم علامتوں کے استعمال سے شعر کو بو جھل نہیں بناتے ۔ وہ محمد علوی کی طرح ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتے ہیں اور ہندوستانی تہذیب کے مختلف گوشوں اور خصوصیات سے اپنی غزلیہ شاعری کو سجاتے ہے ہیں۔

ملک زادہ منظور احمد منور رانا کی شاعری کی انفرادی خصوصیات کے متعلق رقم طراز ہیں:

منور رانا کی کامیابی کا راز ان کے اچھوتے موضوعات کے علاوہ ان کے فنی رویے میں بھی مستور ہے۔ لوگ پرانی شراب کو نئے جاموں میں پیش کرتے ہیں ۔ اگر مجھے محاورہ الٹنے کی اجازت مل جائے تو میں یہ کہوں گا کہ منور رانا نے نئی شراب کو پرانے جام میں پیش کیا ہے۔ اول تو انہوں نے اپنی نئی بات کہنے کے لئے پرانے اسالیب کو نظر انداز نہیں کیا ۔ دوئم یہ کہ انہوں نے روایت سے اپنا رشتہ استوار رکھا ہے۔ ان کا فنی جھکاؤ بنیادی طور پر سہل ممتنع کی طرف ہے لیکن جہاں جہاں انہوں نے عصری مسائل کے اظہار کے لئے پرانی تلمیحات، اساطیری اور دیو مالا کا استعمال کیا ہے ، وہاں وہاں انہوں نے

روایتی رموز و علائم میں نئی معنویت بھر دی ہے ۔“

(غزل گاؤں کا شاعر : منور رانا ، از : ملک زادہ منظور احمد مشمولہ شہود کلکتہ مارچ، اپریل مئی 1987 ، ص : 40-39)

وہ میلا سا بوسیدہ سا آنچل نہیں دیکھا

پرسوں ہوئے ہم نے کوئی پیپل نہیں دیکھا

منور رانا کی شاعری میں گاؤں خصوصیت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ گاؤں کو ان کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور انسانی اقدار کی رفعت و عظمت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جہاں کی زندگی میں سادگی ، جہاں کے لوگوں میں انسانیت ، خلوص، رشتوں کی پاسداری اور معاملات میں دیانتداری ہوتی ہے۔ منور رانا خود گاؤں کی زندگی سے مانوس اور واقف ہیں۔ اس لئے گاؤں سے متعلق تجربات کو خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں ان کی غزلوں میں گاؤں سے متعلق اشعار خاص تعداد میں ملتے ہیں :

ہم گاؤں میں جب تک رہتے تھے یہ سب منظر مل جاتے تھے چو چار کنویں مل جاتے تھے اس میں شجر مل جاتے تھے

لو اب اس گاؤں سے رشتہ ہمارا ختم ہوتا ہے
پھر آنکھیں کھول لی جائیں کہ سپنا ختم ہوتا ہے

کچی سڑکوں سے لپٹ کر بیل گاڑی رو پڑی غالبا پردیس کو کچھ گاؤں والے جائیں گے

بڑے شہروں میں رہ کر بھی برابر یاد کرتا تھا وہ ایک چھوٹے سے اسٹیشن کا منظر یاد کرتا تھا

لہذا مظفر حنفی منور رانا کی شاعری میں گاؤں کی زندگی اور اس کے مناظر کی پیش کش پر یوں اپنے خیال کا

اظہار کرتے ہیں:

رانا کا بچپن گاؤں میں گزرا جہاں کا اسٹیشن ، پیپل کا پیر ، کنویں ، کچی سڑکیں، بیل گاڑیاں، تالاب، ماں کا میلا آنچل ، گھونسلے سے چرائے ہوئے پرندوں کے انڈے بچے ، چھتوں پر پھینکے ہوئے کبوتر شاعر کو بار بار یاد آتے ہیں اور یہ باتیں اشعار میں جگہ پا کر منور رانا کی انفرادیت کا تعین کرتی ہیں ۔“

تنقیدی ابعاد، مظفر حنفی 1987 ، صف : 84)

منور رانا کی شاعری میں انسانی معاشرے کے اجتماعی کرب کے ساتھ ساتھ شاعر کا ذاتی درد و کرب کا بیان

بھی ملتا ہے۔ وہ انسانوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل کی ترجمانی بخوبی کرتے ہیں۔ وہ سماج کے محنت کش طبقے اور محروم اور مظلوم عوام کا دکھ درد کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان دکھوں کو اشعار کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں:

اب اس ہوگی کچھ مرہم نوازی ہمارا زخم دھویا جا رہا ہے

نہ جانے جرم کیا ہم سے ہوا ہے ہمیں قسطوں میں لوٹا جا رہا ہے

ہمیں مزدوروں کی محنت کشوں کی یاد آتی ہے عمارت دیکھ کر کاریگروں کی یاد آتی ہے
ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھولوں سے بدن والے

میں کہ فرہاد نہیں باپ ہوں ایک بیٹے کا صرف روزی کے لئے کوہ کی آ جائے

میرے گھر کے در و دیوار کی حالت نہیں دیکھی برستے بادلو تم نے بھی میری چھت نہیں دیکھی

ہمیشہ اپنی ہی شرطوں پر ہجرتیں کی ہیں مسافروں نے قلی کی طرف نہیں دیکھا

مندرجہ بالا اشعار سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ منور رانا کی نگاہ عوام کے روزہ مرہ کے مسائل پر کتنی گہری ہے اور وہ عام انسانوں کے جذبات و احساسات کو کتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہیں کتنی فنکاری سے اپنے اشعار میں سمو دیتے ہیں۔

منور رانا کی شاعری کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلی بار ماں کو غزلوں میں ایک بلند مقام عطا کیا۔ اس کی قربانیوں ، اس کی نفسیات اور اس کی باطنی خوبیوں کو اپنی غزلوں میں اتنی باریک بینی اور جذبے کی شدت کے ساتھ پیش کیا کہ اردو شاعری میں ماں وفا اور ایثار کی پیکر کی صورت بن کر زندہ جاوید ہوگئی:

وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

بحیثیت مجموعی منور رانا کی غزل ہمعصر غزل کی ایک منفرد آواز ہے۔ اس میں نئی غزل کے تمام اوصاف اعتدال و توازن کے ساتھ موجود ہیں

پی ڈی ایف سے تحریر: محمد احمد رضا سیالوی

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں