مخدوم محی الدین کی شاعری کا تنقیدی جائزہMakhdum Mohiuddin ki shairi ka| tanqeedi jaiza
نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat
مخدوم محی الدین کی شاعری
مخدوم محی الدین نے جدیدیت سے پہلے اپنے فکر وفن کی روشنی اردو شاعری میں چھیڑی۔
انہوں نے غزلوں اور نظموں کی اصناف میں اپنے خیالات، افکار اور نظریات کا اظہار کیا مگر وہ نظموں کی وجہ سے زیادہ مقبول ہوئے ۔
وہ ترقی پسند شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ ٹریڈ یونین تحریک سے بھی وابستہ رہے مگر ان کی شاعری میں غنائیت اور
یہ بھی پڑھیں: علی سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کی نظموں میں مزاحمتی اور احتجاجی | pdf
انہوں نے آزاد اور معری نظمیں کہیں ۔
ان میں بھی غنائیت اور گیتوں کی خصوصیت ہیں۔ ان کی غزلوں میں رومان کا رنگ بھی ہے اور پیکر تراشی کا عمل بھی
ہے۔
محمد حسن ان کی غزلوں کے متعلق لکھتے ہیں:
"مخدوم کی غزلوں میں سجاوٹ اور آرائش کا اہتمام کہیں زیادہ ہے۔
ان کی توجہ لفظوں کی موسیقی اور کھنگ، آوازوں کے ٹکروں کی مناسب ترتیب اور مختلف رنگوں اور تصویر یادوں کے مطابق اور مخالفت پر ہی نہیں رہتی بلکہ دوہے کی نرمی اور ٹھنڈک کا خصوصیت سے خیال رکھتے ہیں۔
نفس مضمون کے اعتبار سے مخدوم کی غزلیں تاب و مقاومت کے صحیفے ہیں۔
جو تیرگی میں تیشے کی چمک سے مشابہ ہے۔ مخدوم نے نئی غزل کو نظر کی صلاحیت اور عصری آگہی سے وابستگی کو لہجے کی نرمی اور ٹھنڈک میں ڈھالنا سکھایا۔
یہ بھی پڑھیں: علی سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کی نظموں میں مزاحمتی اور احتجاجی | pdf
اس محل میں ان کو نادرہ کار، استعاروں اور مترنم اور پر کیف امیجری کو خاص طور پر دخل ہے جو غزل کو دلہن کی طرح سجادیتی ہے
اور زندگی کی ٹوس اور ناخوشگوار حقیقتوں کوبھی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی اور رنگ گل کا بیان بنادیتی تھی۔
(کچھ جدید غزل کے بارے میں از محمد حسن مشمولہ جدید ارد و منزل، خدا بخش لا بر روی پینہ 1995 جس 19 )
کون جانے کہ ہو کیا رنگ سحر رنگ چمن
میکده رقص میں ہے پچھلے پہر سے پہلے
نام سے دور ہو گاتا رہا تھا کیا
سو گیا ساز پر سر رکھ کے سحر سے پہلے
رنگ چمن ، رنگ سحر، میکدی، رقص، گانا، ساز وغیرہ ان اشعار میں غالب استعارے اور علامتیں ہیں ۔
ان الفاظ سے مخدوم کا شعری اظہار بنتا ہے جو غنائیت اور رنگوں کا امتزاج ہے۔
یہی مخدوم کا اصل اوب شعر ہے جس کے متعلق محمد حسن نے کہا ہے کہ وہ لہجے کی نرمی اور ٹھنڈک کا خصوصی طور سے خیال رکھتے ہیں:
حال آیتہ ورا گردش جام آہستہ
جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ
چاند اترا که اتر آئے ستارے دل میں
خواب میں ہونٹوں پر آیا ترا نام آہستہ
مخدوم نے غزلوں میں اپنی انفرادیت قائم کی تو نظموں میں بھی اپنی منفر تخلیقی توانائی کا نقش چھوڑا۔
مخدوم جدید نظم کے بانیوں میں سے ایک اہم نام ہے۔ ان کی نظم ” اندھیرا” کامیاب ترین آزاد نظموں میں شمار کی جاتی ہے:
رات کے ہاتھ میں اک کاسہ در یوزہ گری
یہ چمکتے ہوئے تارے یہ دمکتا ہوں چاند
بھیک کے نور میں مانگے گئے اجالے میں مگن
یہی جو ملبوس عروسی ہے یہی ان کا کفن
اس اندھیرے میں وہمرتے ہوئے جسموں کی کراہ
وہ عزرائیل کے کتوں کی کمیں گاہ
وہ تہذیب کے زخم
خندقیں
باڑھ کے تار
باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوئے انسانوں کے جسم
اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
وہ سرختے ہوئے سر
مینیں ہاتھ گئی ، پاؤں کٹی
لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے اس پار تلک
سرد ہوا
نوحہ و نالہ و فریاد کناں
شب کے سناٹے میں رونے کی صدا
کبھی بچوں کی کبھی ماؤں کی
چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
دوسری جنگ عظیم نے ترقی پسند شاعروں کو دبلا کر رکھ دیا تھا اور انہوں نے اس جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو کر عمدہ نظمیں کہی تھیں۔
ساحر ، سردار جعفری وغیرہ نے اس موضوع کو اپنی نظموں میں اپنے نقطہ نظر سے پیش کیا۔
مخدوم نے بھی دوسری جنگ عظیم کو اس نظم میں موضوع بنایا مگر اس میں پاس و ناامیدی نہیں بلکہ امید و حوصلہ ہے۔
اس نظم میں اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ جو سرمایہ دار ممالک ہیں ۔ یہ چاند اور تارے میں جو دوسروں کی روشنی کی بھیک پر زندہ ہیں۔
یہ سورج کے طلوع ہوتے ہی اندھیرے میں گم ہو جائیں گے۔
ان کی نظم ” سرخ سویرا” بھی اشتراکی نظام کے طلوع ہونے کی امید کو ظاہر کرتی ہے
کیونکہ دیگر ترقی پسند شعراء کی طرح مخدوم بھی اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ اشتراکیت ہی انسانیت کی فلاح کی ضمانت دے سکتی ہے:
اے جان نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لئے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے
ہجوم شوق سر رهگذار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
مخدوم کی بہترین نظم ” چاند تاروں کا بن” ہے۔ ترقی پسند شعراء نے آزادی کو داغ داغ اجالا کہا اور اس کے حصول کے بعد وطن کی حالت اور تشد دو خوں خرابے کو دیکھ کر ایسی آزادی سے اپنی بے زاری کا اظہار کیا۔
فیض نے کہا کہ
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
مخدوم نے بھی چاند تاروں کا بن میں اس خیال کو پیش کیا مگر اس کا انتقام مخدوم نے اچانک دردو غم کے منظر کے ساتھ اور ایک منفی تاثرات قائم کیا:
موم کی طرح چلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لئے
منتظر مردوزن
صبح دم ایک دیوار غم بن گئے
خارزار الم بن گئے
مخدوم جس طرح غزلوں میں رومانی جذبات کا اظہار نرم اور شگفتہ لہجے میں کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ اپنی نظموں میں بھی رومانی موضوعات اسی نرمی اور خوبصورتی سے کرتے ہیں
ان کی نظم طور ایک خوبصورت رومانی نظم ہے:
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتداء میں نے
نہیں کی جرات اظہار حرف مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوے ناز و انداز و حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
دلوں میں اژدہام آرزو لب بند رہتے تھے
نظر سے گفتگو ہوتی تھی دم الفت کا بھرتے تھے
نہ ماتھے پر شکن ہوتی نہ جب تیور بدلتے تھے
خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
اگلی نظموں میں ہندوستان کی سماجی وثقافتی تصویریں بھی اپنے تمام رنگوں میں نظر آتی ہیں۔
ان کی نظم ” ساگر کنارے” اس سلسلے میں پیش کی جاسکتی ہے:
مندر میں پجاری لگے ناقوس بجانے
وہ ان کے بھجن پیارے وہ گیت سہانے
وہ چھاؤں میں تاروں کی وہ کھیتوں کے کنارے
دہقان بھی بھیروں کے لگاتان اڑانے
کچھ لڑکیاں آنچل کو سمیٹے ہوئے سر میں
گگری لئے سر پر چلیں ملنے کے بہانے
ان کی ایک اور نظم ” تلنگانہ” جس میں تلنگانے کی دوشیزہ کی پاکیزگی معصومیت اور حیاداری کو پیش کیا گیا ہے:
پھر نے والی کیفیت کی مینڈوں پہ بل کھاتی ہوئی
نرم و شیریں قہقہوں کے پھول برساتی ہوئی
کنگنوں سے کھیلتی اوروں سے شرماتی ہوئی
دختر پاکیزگی نا آشنائے سیم و زر
دشت کی خود رو کلی، تہذیب نو سے بے خبر
تیری حسن کی جھونپڑی پر جھک پڑے سب بام و در
اجنبی کو دیکھ کے خاموش مت ہو، گائے جا
ہاں تلنگن گائے باقی تلنگن گائے جا
انہوں نے تلنگانہ کے مسئلے کو سیاسی طور پر بھی زور و شور سے اٹھایا اور یہاں کے عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کے لئے تحریک چھیڑی ۔
انہوں نے بنگال کی غریبی افلاس اور معاشی ابتری پر بھی ایک نظم "چارہ گر”، لکھی جس میں انقلاب کا نغمہ اور عوام کو بیداری کا پیغام دیا!
وه درد هندوستان و سحر و نغمہ کا دیار
دیدنی ہے آج اس کی ناتوانی کی بہار
بھوک کا بیماریوں کا بم کے گولوں کا شکار
پیٹھ میں جاپان کا خنجر تو سر پر سود خوار
اس طرح مخدوم محی الدین نے اپنی نظموں میں نہ صرف عشق و محبت کے نغمے گائے بلکہ معاشرے کی زبوںحالی، غلامی کی لعنت ، سرمایہ داری کے جبر و استحصال اور برطانوی سامراج کے ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی
اور عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور انہیں انقلاب کی ضرورت کا احساس دلانے کے لئے اپنے قلم کو آلہ کار بنایا۔
مخدوم اپنے منفرد اسلوب اور نغنائی شاعری کے لئے اردو شاعری میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں