مجروح سلطانپوری کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Majrooh Sultanpuri ki shairi ka tanqeedi jaiza
نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat
مجروح سلطانپوری بیسویں صدی کے اہم شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خاں تھا۔ مجروح تخلص کرتے تھے۔ اور سلطانپور میں ان کی ولادت ہوئی۔ اپنے آبائی وطن قصبہ کجھڑی ضلع سلطانپور کے ایک مکتب میں ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ جہاں انھوں نے عربی، فارسی اور اردو سیکھی ۔ مجروح سلطانپوری کے والد تحریک خلافت سے جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے انگریزوں اور انگریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اپنی اسی پسند کے مطابق انھوں نے مجروح کو انگریزی تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی اور ان کو مدرسے میں پڑھایا۔لیکن مجروح درس نظامی کو درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے اور لکھنو کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ آگے چل کر مجروح سلطانپوری ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے۔مگر اس کے باوجود انھوں نے بڑی حد تک اپنی شاعری کوترقی پسند تحریک کے اثرات سے محفوظ رکھا۔
مجروح کے ادبی سفر کو دیکھتے ہوئے ان کے سرمائے کو بہت کم کہا جا سکتا ہے۔لیکن اس کمیت کے باوجود مجروح ادبی منظر نامے پر ہمیشہ قائم رہے۔ ان کی غزلیں گرچہ کم ہیں لیکن معیار کے اعتبار سے کلاسکیکی شان کا درجہ رکھتی ہیں ۔ اسی لیے انھوں نے جتنی بھی غزلیں کہیں ان کا رچا ہوا ادبی شعور موجود ہے ۔ انصاری رقم طراز ہیں :
"خال خال مثال ملے گی ایسے صاحب قلم کی جسے ( مقدار میں ) اتنے
تھوڑے سے کام پر اتنی کم مدت میں اتنی زبردست مقبولیت ملی ہو۔
1944-45 سے وہ 1952 تک پوری ایک دہائی بھی نہیں اور گرہ میں مال
صرف تین چار نظمیں ، تیرہ چودہ غزلیں ، پچپیں تمہیں شعر اور دیکھتے دیکھتے ضرب المثل بن گئے۔ مجروح کو یہ خدا داد قبول خاطر نصیب ہوا اتنی سی عمر میں جب ان کے بالوں میں سفید لکیر بھی نہیں پڑی تھی۔ مگر تنقید کا قلم گنگ تھا یا مزید کا منتظر رہا کہ مجروح پر کوئی قابل ذکر یا قابل قدر تنقیدی مضمون حوالے میں یا ذکر میں آجاتا تھا”۔ (۱۷)
(صفحہ 60 مکممل )
معین احسن جذبی کے بقول :
"مجروح اپنی کم مائیگی اور اپنی چھوٹی سی پونچھی کے باوجود زندہ رہیں گے۔ انھیں ابتدا ہی میں جو شہرت نصیب ہوئی وہ دراصل ضرورت سے زیادہ تھی۔ وہ غالبا اس شہرت سے مطمئن ہو گئے لیکن خدا کرے میرا یہ خیال غلط ہو اور مجھے انتہائی خوشی ہو گی اگر مجروح اسے اپنا تازہ بہ تازہ اور نو بہ نو اشعار کی تخلیق سے غلط ثابت کر دیں” ۔ (۱۸)
مجروح سلطانپوری اپنے کم شعری سرمائے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ شعری روایات کی پاسداری کے باوجود انھوں نے اپنی شاعری کے لیے نئی راہیں تلاش کیں۔نیا انداز اختیار کیا اور لکیر کے فقیر نہ بنے۔ ان کی اس خوبی کا اعتراف غیروں نے بھی کیا ہے اور اپنوں نے بھی ۔ خود مجروح کوبھی اس کا احساس تھا۔ وہ کہتے ہیں:
ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروح
سب کی اور سب سے جدا اپنی ڈگر ہے
کہ نہیں مجروح کا غزلیہ کلام خود اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے وہی مقبولیت ملنی چاہئے جو ملی ۔ ان کی غزلوں کے اشعار عوام و خواص سب کو اپیل کرتے ہیں اور دوبارہ، سہ بارہ سامعین یا قارئین کو گنگنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس زمانے میں وہ شاعری کر رہے تھے۔اس زمانے میں شاعری کو بہتر طور پر سمجھنے والے تھے اور قدر کرنے والے بھی۔ اس لیے انھوں نے مجروح کی شاعری کے حجم کو نہ دیکھا بلکہ ان کی شاعری کے معیار پر غور کیا۔ آج جب کہ اردو شاعری کے سمجھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور اردو جاننے اور سمجھنے والے بھی اس معیار کے نہ رہے مگر اس کے باوجود جب مجروح کے اشعار آج بھی پڑھے جاتے ہیں تو سامعین جھوم اٹھتے ہیں۔ مجروح کی غزلوں کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کر کے مجروح کی شاعری کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے: (صفحہ 61 مکمل)
"شب انتظار کی کشمکش یہ نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی
اسے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجروح کی غزلوں میں بھر پور تغزل پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ اشعار سے ظاہر ہے لیکن وہ صرف محبوب کی زلفوں کے اسیر نہیں رہے۔آگے بڑھے اور مختلف مسائل اور موضوعات کو اپنی غزلوں میں اٹھایا۔ مجروح کی شاعری میں حو صلے کی چمک دکھائی دیتی ہے اور حالات سے ٹکرانے کا جذبہ بھی۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے :
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں میں
جے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
(صفحہ 62 مکمل )
تقسیم ہند کے واقعے نے اس دور کے تقریباً تمام اہم شاعروں کو متاثر کیا ۔ سب نے اس دردناک سانحے پر اپنے کرب کا اظہار کیا ہے۔ مجروح بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ اپنے انداز میں سانحہ تقسیم پر ماتم کرتے ہیں۔ اس نوع کے چند اشعار دیکھیں:
مجروح قافلے کی مرے داستاں ہے یہ رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
چاہے وہ کسی کا ہو لہو دامن گل پر
صیاد یہ کل رات کی شبنم تو نہیں ہے
مجروح سلطانپوری کا ایک شعری مجموعہ مختلف ناموں سے شائع ہوا۔ پہلے یہ مجموعہ غزل کے نام سے چھپتا رہا لیکن 1991 میں یہ مجموعہ مشعل جان کے نام سے منظر عام پر آیا۔ مشعل جاں میں کچھ غزلوں کا اضافہ کیا گیا گویا پہلے مجموعے سے یہ مجموعہ اس اعتبار سے قدرے جدا ہےکہ اس میں کچھ کلام زیادہ ہے۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ اور اضافے کے بارے میں مجروح نے لکھا ہے:
” میرا مجموعہ کلام نئی غزلوں کے ساتھ شائع ہوا تو اسے 1956 ہی کا
شائع شدہ ایڈیشن سمجھا گیا کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے مجموعے کا نام غزل رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر نئے ایڈیشن کو پڑھنے والے وہی سنہ 1956 کاپرانا ایڈیشن سمجھتے رہے لہذا ضروری ہوا کہ اس بار مجموعے کا نام غزل کے بجائے کوئی اور مثلاً مشعل جان رکھ دیا ہے” ۔ (۱۹)
اس موقع پر ان کے ان فلمی نغموں پر نگاہ ڈالنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جن میں ادب کی بھر پور چاشنی ہے اور جن کے گنگنانے کے دوران بہترین غزلوں کا گمان ہوتا ہے اور بہترین شاعری محسوس ہوتی ہے۔ چند گیتوں کے(صفحہ 63 مکمل )
کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
تمنا ہے کہ ہو روشن تری دنیا تری محفل
اجالا مل سکے تجھ کو تو اپنا گھر جلا دوں گا۔ (فلم جنتا حوالدار)
کہیں بے خیال ہو کر یوں ہی چھولیا کسی نے
کئی خواب دیکھ ڈالے یہاں میری بے خودی نے (تین دیویاں)
پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا
بڑی بھول ہوئی ارے ہم نے یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا
(پتھر کے صنم)
ٹکڑے ہیں مرے دل کے اے یار ترے آنسو
دیکھے نہیں جاتے ہیں دلدار ترے آنسو
(میرے صنم)
اس طرح بہت سے نغمے ہیں جو ہیئت کے اعتبار سے بھلے ہی غزل کے زمرے میں نہ آتے ہوں مگر ان میں روح غزل موجود ہے۔ مجروح نے ان نغموں میں غزل کی روح پھونکی ہے ۔ غزل کی عروضی ہیئت سے آزاد ہو کر گیت کی شکل دینا ان کی فلمی مجبوری رہی۔ اگر یہ مجبوری ان کے پیش نظر نہ ہوتی تو وہ یقینا ان نغموں کو غزل کی ہیئت میں لکھتے اور اس طرح ان کے پاس غزل کا بڑا ذخیرہ ہوتا۔ پھر وہ غزلیہ ذخیرے کے اعتبار سے بھی اپنے کسی ہمعصر سے پیچھے نہ ہوتے ۔ بہر کیف اس نوع کے ان کے فلمی گیتوں کو اردو کا بہترین شعری و ادبی سرمایہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
(64 صفحہ مکمل)
پی ڈی ایف سے تحریر: (اقصیٰ طارق)
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں