مجید امجد کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

مجید امجد کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Majeed Amjad ki shayari ka tanqeedi jaiza

مجید امجد کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

مجید امجد غزل اور نظم دونوں اصناف میں ندرت فکر ، فکری تجربات اور فکری گہرائی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں مگر انہوں نے غزل میں بھی نئی لفظیات اور پیچیدہ خیالات اور احساسات کی ایک غیر مایوس دنیا بسائی ہے جسے پڑھنے اور سمجھنے کیلئے ایک بالیدہ ذہن اور تربیت یافتہ شعری شعور کی ضرورت ہوگی:

ہا گیں کھینچیں ، مسافتیں کڑکیں ، فرس رکے ماضی کے رتھ سے کس نے پلٹ کر نگاہ کی
افق افق پر زمانے کی دھند سے ابھرے طیور نغمے ، ندی ، تتلیاں ، گلاب کے پھول

انہوں نے غزل کی روایتی لفظیات سے انحراف کیا ہے۔ وہ لفظوں کے استعمال میں بہت مختاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ کسی لفظ کو بار بار اپنی غزلوں میں استعمال کرنے کے قائل نہیں ۔ اس طرح ان کا کوئی بندھا لگاؤ کشن نہیں۔ وہ غزل کی ہیئت میں بھی تجربے کرتے ہیں اور غزل کو نظم اور نظم کو غزل بنا دیتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی بغیر قافیہ کے غزل کہتے ہیں مثلا:

جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

دو رویہ ساحل دیوار اور پس دیوار
اک آئینوں کا سمندر ہے کون دیکھے گا

یہ بھی پڑھیں: مجید امجد جدید نظم کی منفرد آواز | pdf

ان کی ایک اور غزل ہے جس میں بھی انہوں نے ہیتی تجربہ کیا ہے؟

صبحوں کی وادیوں میں گلوں کے پڑاؤ تھے
دور ایک بانسری پہ یہ دھن کب آؤ گے

اک بات رہ گئی کہ جو دل میں نہ لب پہ تھی
اس اک سخن کے وقت کے سینے پر گھاؤ تھے

کیا روتھی جو نشیب افق سے میری طرف

تیری پلٹ پلٹ کے ندی کے بہاؤ سے
ان کی غزلوں کے اشعار میں کاٹ اشعار اکثر ملتے ہیں جس میں ایک عام موضوع کو تہہ دار بنادیتی ہے:

دلوں کی جھونپڑیوں میں بھی روشنی اترے

جو یوں نہیں تو یہ سب سیل نور اکارت ہے

مجید امجد غزل میں لفظوں کے استعمال کے متعلق اپنا ایک الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اگر غزل میں وہی گھٹے پنے الفاظ انہی موضوعات کو نظم کرنے کے لئے استعمال کئے جائیں تو غزل وہی اگلا ہوا نوالہ ہوگی ۔ اس لئے مجید امجد غزل میں ندرت فکر اور طرز بیان کی طرفگی کو اول مقام دیتے ہیں۔ اس کے لئے وہ لفظوں کو ٹھوک بجا کر اور موزونیت کے ساتھ
استعمال کرتے ہیں تا کہ شعر ایک انوکھا تجربہ بن سکے:

کس کی گھات میں گم صم ہو؟ خوابوں کے شکاری جا گو بھی اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چکا

اے شاطر ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قرغے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے

خوابوں کے شکاری، پورب کا چروایا بالکل نئے استعارے میں جو شعر کو تہ داری عطا کرتے ہیں دوسرے شعر میں شاطر ازل کی ترکیب نئی ہے جو خدا کے لئے وضع کی گئی ہے۔ قرعے میں دیوانہ پن پڑنا بھی انوکھا اور اچھوتا خیال ہے۔ دوسری بات یہ کہ پہلے شعر کی بہتی تشکیل ایسی ہے کہ اسے آزاد نظم کی بیت میں لکھنے پر وہ نظم کی حیثیت سے بھی قبول کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مجید امجد کے شعوری زاویے pdf

کسی گھات میں گم صم ہو

خوابوں کے شکاری جا گو بھی

اب آکاش سےیورپ کا چروایا

ریوڑ ہا تک چکا

مجید امجد اپنی کئی غزلوں کو بعد میں نظم کی بیت میں شائع کروا چکے ہیں۔ ان کی غزلوں کے چند اشعار پیشہیں جن میں انہوں نے نئی
لفظیات کی مدد سے نادر خیال پیش کیا ہے:

پھر کہیں دل کے برج پر کوئی عکس

فاصلوں کی فصیل اجرا

ہزار بھیں میں سیار موسموں کے سفیر

تمام عمر مری روح کے دیار میں تھے

پکار تی رہی جنسی ، بھٹک گئے ریوڑ

ئے گیاہ نئے چشمہ رواں کیلئے

ظل ہما کی اوٹ میں چلے پر تیر رکھ آسان نہیں نگاہ کے تخیر کا شک

سب ضمیروں کے ثمر میں پشیماں سچائیاں جانے تیرے ذہن میں کیا ہے ترے دل کیلئے

مجید امجد کی غزلوں میں لفظ کے اس رکھ رکھاؤ اور خلاقانہ استعمال کے متعلق نوازش علی لکھتے ہیں: "روایتی لفظوں میں یوں کہئے کہ تغزل کا بانکپن اس طرح برقرار رہتا ہے۔
اصل بات نئے الفاظ کے استعمال کی نہیں ہے۔ بہت سے جدید شعراء کے ہاں نئے الفاظ موجود ہیں۔ لیکن نئے الفاظوں کے تخلیقی تجربے کا حصہ نہیں بن سکے، کیونکہ نئے الفاظ ان شعراء کے خیالات کے بطن سے نہیں پھوٹے بلکہ نئے پن کے شوق کی وجہ سے استعمال ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جدید شعراء کے ہاں نئے الفاظ شاعرانہ سطح حاصل نہیں کر سکے۔ ان کی زبان موضوع کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو سکی۔ مجید امجد کے ہاں زبان اور موضوع اس طرح آپس میں گھل مل گئے ہیں کہ ان کی جدا گانہ سرحدوں کی تخصیص نا ممکن ہو جاتی ہے۔ ایسے خیالات جو غزل کے لئے ثمر ممنوعہ خیال کئے جاتے تھے۔ مجید امجد انہیں شاعرانہ آنچ میں اس طرح پکاتا ہے کہ ان میں وہ سوز وہ گھلاوٹ اور تھر تھراہٹ پیدا کر دیتا ہے۔ ان کو اپنے شاعرانہ تجربے کا اس طرح حصہ بنا لیتا ہے ان میں وہ تخلیقی اور غزلیہ صلاحیتیں پیدا کردیتا ہے کہ
ثمر ممنوع الفاظ اور تغز لا نہ رہنے پر فائز ہو جاتے ہیں "

(مجید امجد کی غزل بہیت اور اظہار کا تنوع ، از نوازش علی مشموله جدید اردو غزل ، خدا بخش لائبریری پٹنہ 1984 بس : 229))

مجید امجد کے مزید غزلیہ اشعار جن میں مجید امجد کا لہجہ بولتا ہے:

کول سا مسکراتا ہوا مشکبار پھول پرور دگار عشق کا یہ بے زبان رسول

بارہا سند ہوائیں چلیں طوفاں آئے لیکن اک پھول سے چھٹی ہوئی تتلی نہ گری

مجید امجد کی نظموں میں بھی وہی لفظوں کا خلاقانہ استعمال ہے اور موضوعات کے اظہار کا جداگانہ اسلوب ہے ۔ وہ فرد اور معاشرے کے مصائب اور مسائل کو اپنے انوکھے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں انسانیت کی ہے تو قیری ، فرد کی بے بضاعتی اور عدم تحفظ کے احساس نے تنہائی اور کرب کو جنم دیا۔ مجید امجد اس دور کی پیدوار ہیں جب معاشرتی قدروں کے انہدام سے پھیلنے والی بے چینی ، بے قراری، منافقت ، خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسان کو بالکل تنہا اور اکیلا کر دیا۔ مجید امجد کی نظمیں اپنے عہد کے فرد کی بے چینی ، بے بسی محرومی اور بے چارگی کاکولاژ ہے:

عشق پیتا ہے جہاں خوں نابہ دل کے ایاغ
آنسوؤں کے تیل سے جلتا ہے الفت کاچراغ

اسروں سے سب سے ہی ہے است ، ہاں

جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہیں مدا
م سیم و زر کے دیوتاؤں کے سیاہ قسمت غلام

جس جگہ جب وطن کے جذبے سے ہو کر تیاں
سولی کی رسی کو نہس کے چومتے ہیں نوجواں

جس جگہ انسان ہے وہ پیکر بے عقل و ہوش نوچ کر
کھاتے ہیں جس کی بوٹیاں مذہب فروش

جس جگہ یوں جمع ہیں تہذیب کے پروردگار
جس طرح سڑتے ہوئے مردار پر مردار خوار

(یہی دنیا )

مجید امجد کی نظموں کی ایک خاصیت کسی جاندار یا بے جان شے کو علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے مکمل وجود کے اظہار کے لئے محض کسی ایک جذبے یا احساس یا قدر کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے جس سے ان کی شاعری میں ایک فلسفیانہ گہرائی پیدا ہو گئی ہے۔ گدلے پانی، دروازے کے پھول، صاحب کا فروٹ فارم اور ان کی خارزاروں میں،
جیسی نظموں سے فرد کی بے کراں ذات کی تفہیم پوری طرح مترشح ہو جاتی ہے۔ ان کی ایک اور نظم دور کے پیڑ میں ان کی فکر کی جہتوں کا اندازہ ہوتا ہے:

آج آخر میں نے دل میں ٹھان لی آج جا پہنچا میں ، جا پہنچا وہاں

خستہ دل پیروں کی اک سوئی قطار خشک شاخیں کھڑ کھڑاتی ٹہنیاں

بے کفن لاشوں کی طرح آویختہ برگ و بر کی لاکھ پشتوں کے مزار

ان میں جھونکوں کی صدائے بازگشت جس طرح مردے کریں سر گوشیاں

عقیل احمد صدیقی مجید امجد کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں:

"ان کے یہاں موضوعات کی گہما گہمی نہیں ملتی ہے اور جو ہے وہ کسی نظریے کی جبریت سے آزاد ہے بلکہ صرف شاعرانہ سوچ ہے جس نے مختلف رنگوں اور شکلوں میں اظہار پایہ ہے بلکہ ابتدائی نظموں میں گمان گزرتا ہے کہ وہ سماجی مسائل سے اسی طرح وابستہ ہیں جس طرح کہ کوئی ترقی پسند شاعر، جب کہ بعد کی نظموں میں سماج ذات کے اظہار کے لئے ایک حوالے کے طور پر آیا ہے۔ بعد کی نظموں سے سماج تقریبا غائب ہو گیا ہے اور اس کی جگہ فطرت کے مظاہر نے لے لی ہیں ۔”

(جدید اردو نظم : نظریه عمل از عقیل احمد صدیقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ – 1995 میں (210))
مجید امجد کے یہاں کسی نظریے کا کوئی اثر نہیں دیکھا جاتا۔ وہ انسانی کرب اور معاشرے کے لئے ایک روشن
مستقبل کا خواب ضرور دیکھتے ہیں مگر اس خواب میں کسی ازم یا سیاسی نظام کا رنگ نہیں ہے۔ ان کے یہاں بھی اور بو رومان اور سرمایہ داری کی کشمکش ملتی ہے۔ مگر اس میں اشتراکیت کی بو نہیں ہے بلکہ ان کے ذاتی تجربات نے اسے ایک اجتماعی تجربے کی شکل دے دی ہے:

اور آج سوچتا ہوں کہ کیوں میرا سوز دل

تیرے محل کا جشن چراغاں نہ بن سکا

تیری وفا سے پردہ عمل نہ اٹھ سکا

میرا جنوں بھی چاک گریباں نہ بن سکا

ان کی نظموں کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مجید امجد کی شاعری میں زندگی بڑے بڑے مسائل نہیں ہیں بلکہ ان کا محور ان کی اپنی ذات ہے جس کے المیے کا بیان ان کی شاعری میں ہوا ہے ۔ مجموعی طور پر مجید امجد نے اردو شاعری کو ایک نئی فکری اور فنی کا ئنات سے روشناس کرایا۔

مرتب کردہ: حسنی

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں