مجید امجد کی نظم نگاری کا تنقیدی مطالعہ

مجید امجد کی نظم نگاری

اردو شاعری میں مجید امجد کا نام عروسِ شام کے رخِ لعل ناب کی مانند ہے جو خاموشی اور وقار کے ساتھ اپنے حسن و رعنائی کے جلوے بکھیرتا ہے اور پھر تازہ ستاروں کا پیامبر بن کر دل و دماغ کو خاص طرح کی سرشاری سے بھر دیتا ہے۔ بیسویں صدی میں، دھیمے سُروں میں، عظمتِ انسان کا گیت گانے والے شعراء میں مجید امجد کا نام منفرد ہے۔

ان کا ہر شعر آہستگی کے ساتھ دھیمے انداز میں دل کی وادیوں میں رقص کرتا ہوا داخل ہوتا ہے اور نئے پیغامات سناتا ہے۔ مجید امجد کی نظمیں موضوعات، ہیئت، زبان و بیاں اور سوز و گداز کے بیش بہا خزانے سے لبریز ہیں۔

مجید امجد نے اپنی دنیا اور کائنات کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور بیسویں صدی کے انسان کے تخلیقی جوہر کی گمشدگی پر نوحہ خوانی کی لیکن اس میں اپنا خاص بانکپن قائم رکھا۔ مجید امجد کو اپنے عہد کے انسان کے غیر حقیقی اور کھوکھلے پن کا شدید رنج تھا۔

وہ انسان جو "خلیفۃ اللّٰہ” اور "مسجودِ ملائک” جیسے القابات کے تاج اپنے سر پہ سجائے ہوئے تھا، آج اس قدر رزیل کیسے ہو گیا، اور ذلت کے اندھے کنویں میں کیسے گر گیا؛ ان سوالات کے جوابات وہ انسان ہی سے چاہتے ہیں۔ مجید امجد کی نظموں کا بڑا موضوع عظمتِ انسان ہے۔

انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ انسان اپنا عظیم مقام کھو چکا ہے مگر اس سے زیادہ انھیں دکھ اس بات کا تھا کہ متاعِ کارواں لٹ جانے کے بعد بھی کوئی طوفان برپا نہیں ہوا اور معاشرتی اس جامد و بے رونق زندگی پر مطمئن ہے اور اپنی عظمت کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر نازاں نظر آتا ہے۔ ایسے میں مجید امجد جو حساس اور مہربان دل رکھتے ہیں، کڑھتے ہیں اور اپنا غم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

اور یہ انسان……جو مٹی کا ایک ذرہ ہے…….جو مٹی سے بھی کم تر ہے،
اپنے لیے ڈھونڈے تو اس کے سارے شرف سچی تمکینوں میں ہیں،
لیکن کیا یہ تکریمیں ملتی ہیں،
زر کی چمک سے؟
تہذیبوں کی چھب سے؟
سلطنتوں کی دھج سے؟
نہیں!……نہیں تو……..!

پھر کیوں مٹی کے اس ذرے کو سجدہ کیا اِک اِک طاقت نے؟(1)

مجید امجد اپنے جھاگ ایسے نرم و نازک دل میں ہر انسان کا دکھ سموئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ دل جس کا کنول درد اور سوز کے آبِ حیات سے سینچا گیا ہو حقیقی معنوں میں حیات کے دل آویز نغموں سے معمور ہے۔

وہ ایسے دل کے حامل انسان کی قدر کرتے ہیں اور اس کی حیاتِ جاوداں کے لیے دعا گو ہیں۔ اپنی نظم "ان کو جینے کی مہلت……” میں اس طرح شاخِ خامہ سے گل افشانیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں:

ان کو جینے کی مہلت دے، جو تیرے بندوں کی خاطر جیتے ہیں،
ورنہ…….تو…….اس نگری کا اِک اِک نگ کھوٹا ہے،
…….کوئی نہیں جو ناتواں ذروں کا راکھی ہو،
کون ان کا راکھی ہے، صرف ان کی یہی دو آنکھیں، جن کی نگہداری میں زندہ ہیں
یہ ناتواں ذرے،(2)

مجید امجد حقیقی انسان کی مانند درر و سوز کو متاعِ بے بہا گردانتے ہیں اور اسے عزیز تر سمجھتے ہیں وہ آدمی کے فرشتہ بننے کی بجائے انسان بننے کی جانب مائل نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان وہی ہے جو دردِ دل سے لبریز ہو۔ اسی لیے کہتے ہیں:

ان آنکھوں میں جلنے والے مقدس ارمانوں کو روشن رکھ
میں ان آنکھوں کے ارمانوں کے دکھ میں جیتا ہوں،
یہ دکھ مجھ زندگی سے بھی عزیز ہے(3)

مجید امجد کے نزدیک وہ انسان قابلِ قدر ہے جو تخلیقی ہو، دروغ گوئی سے پاک ہو، جس کے قول و فعل میں رتی بھر بھی تضاد نہ ہو اور انسان سے ہمدردی رکھنے والے دل کا حامل ہو۔ ان کی نظموں میں جا بجا ایسے نڈر اور بے باک انسان کا تذکرہ ملتا ہے جو صاف گو ہو اور حق پر قائم رہنے والا ہو۔

وہ ایسے بندۂ خدا کی راہوں میں پلکیں بچھاتے ہیں جو جھوٹ کے قلعے کی ساری فصیلیں توڑ ڈالے اور زندگی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر دے۔ جہاں سارا معاشرہ بے ضمیر اور دروغ گو ہے وہاں ایک حق پسند انسان کے ظہور پر خود بھی حیران ہوتے ہیں اور معاشرے کو بھی حیران کرتے ہیں:

میں نے اس کو دیکھا ہے
اُجلی اُجلی سڑکوں پر گرد بھری حیرانی میں
پھلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں(4)

مجید امجد کا مطالعۂ حیات و کائنات نہایت گہرائیوں کا حامل ہے۔ انھوں نے زندگی کے ہر مظہر کی گہرائیوں کو جانچا، زندگی کی سچائیوں کو قریب سے دیکھا اور ہو بہو اپنی شاعری میں سمو دیا۔

ان کی نظموں میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کی زندگی یکساں یا یک رنگ نہیں ہے بلکہ اس کے کروڑوں رنگ ہیں اور ہر رنگ حیرت ناک اور دلنشین ہے۔ زندگی پھولوں کی سیج بھی ہے اور کانٹوں کا بستر بھی۔ گلشنِ ہستی میں جہاں کوئل کی خوش نوائیاں کانوں میں رس گھولتی ہیں وہیں بلبل کی آہ و زاریاں فضاؤں کو سوگواریت سے بھر دیتی ہیں۔ اس بوقلمونی کو ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

گلستان میں کہیں بھونرے نے چوسا
گلوں کا رس، شرابوں سا نشیلا
کہیں پر گھونٹ ایک کڑوا کسیلا
کسی سڑتے ہوئے جوہڑ کے اندر
پڑا ایک رینگتے کیڑے کو پینا
مگر مقصد وہی دو سانس جینا(5)

مجید امجد جہاں زندگی کی رنگارنگی کا تذکرہ کرتے ہیں وہاں انھیں اس بات کا شدید رنج ہے کہ زندگی میں، ان کے مقدر میں کڑوے کسیلے گھونٹ کی لکھے تھے۔ انھیں اپنی ناقدری کا شدید قلق رہا۔ جس کا ذکر ان کی بیشتر نظموں میں ملتا ہے۔ ایک تخلیقی انسان کی بے وقعتی ان کا دل اداس کر جاتی ہے۔ نظم "آٹوگراف” میں یہ اداسی اپنی حدوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:

میں پا بہ گل
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل! یہ لوحِ دم!
نہ اس پہ کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام!(6)

یہ ایک حقیقت ہے کہ مجید امجد کو ان کی زندگی میں ان کا جائز مقام حاصل نہ ہو سکا۔ وہ ایک حساس انسان تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی اس عظیم درد مند انسان کی قدر کرے، اس کی باتیں سنے، اس کی دستخط شدہ بیاض کو سینے سے لگائے رکھے۔ ان کے نزدیک ان کی تخلیقیت ایک عظیم سرمایہ ہے اور اس سرمائے کی وہ ایسی ہی قدردانی چاہتے تھے جو عظیم انسانوں کے آثارِ قدیمہ کو میسر ہے۔ ذیل کے اشعار میں یہ دبی دبی سے خواہش نمایاں نظر آتی ہے:

دس برس کے طویل عرصے کے بعد
آج وہ اپنے ساتھ کیا لائی؟
روح میں، دیس دیس کے موسم
بزمِ دوراں سے کیا ملا اس کو
سیپ کی چوڑیاں ملایا سے
کینچلی چین کے اِک اژدر کی
ٹھیکڑی ایک مہنجوداڑو کی
ایک نازک بیاض پر، مرا نام(7)

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مجید امجد اپنے نام کو سنبھالنے والے کے لیے صیغۂ مؤنث کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عورت کو جذبات و احساسات اور محبت و الفت کے حوالے سے سچا اور کھرا گردانتے ہیں۔

مجید امجد کی ایک نظم "عورت” میں عورت ایک دیوی کے روپ میں سامنے آئی ہے جو انتہائی پاکیزہ اور پاکباز ہے۔ وہ عورت کو وجہِ بزم آرائیانِ کون و مکاں سمجھتے ہیں۔ وہ "وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ” کی بجائے وجودِ زن کو تصویرِ کائنات کا سبب سمجھتے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں عورت کا تذکرہ نہایت پرکشش اور دلکش الفاظ میں کرتے ہیں:

تو پریم مندر کی پاک دیوی تو حسن کی مملکت کی رانی
حیاتِ انساں کی قسمتوں پر تری نگاہوں کی حکمرانی
جہانِ الفت تری قلم رو حریمِ دل تری راجدھانی
دماغِ پروردگار میں جو ازل کے دن سے مچل رہا تھا
زبان تخلیق دہر سے بھی نہ جس کا اظہار ہو سکا تھا
نمود تری اسی مقدس حسیں تخیل کی ترجمانی (8)

مجید امجد کی شاعری میں رومانیت کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ ان کی نظموں میں رومانی لہر کبھی دریائے تند و تیز بن جاتی ہے اور کبھی جوئے نغمہ خواں۔

اس رومانیت کی رو میں بہہ کر وہ باغی بن کر کہیں اپنے عہد کے بے ضمیر اور جابر افراد کو جھنجھوڑتے اور للکارتے ہیں کہیں مظاہرِ فطرت کی رعنائیوں اور دل ربائیوں میں کھو جاتے ہیں۔ یہ دونوں رویے ان کی نظموں میں خوبصورت رنگ بکھیرتے ہیں۔ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

تم نے فصیلِ قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں
ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن یہ جان لو
اے وارثان طرۂ طرف کلاہ کے
سیلِ زمانہ کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے(9)

مجید امجد کی نظموں میں رومانی قوسِ قزح کی رنگینیاں بھی خوب رعنائیاں بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایسے اشعار میں رومانیت، جگرِ لالہ میں ٹھنڈک کا سبب بنتی ہے اور فطرت کی حنا بندی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
نظم "بھادوں” اس کی خوبصورت اور عمدہ مثال ہے۔
گدلی گدلی جھیل ہوا کی جس کے خنک پاتال میں ہم
سانس روک کے ڈھونڈ رہے ہیں جیون کے انمول خزانے گھائل خوشیاں چنچل غم

سدا رہے یہ سماں سہانا رت یہ سلگتی سانسوں کی
پھیلتی اگنی میں بل کھاتی گیلی دھرتی، دھندلا امبر، کھلتی کونپل بھادوں کی (10)

اسی طرح "بن کی چڑیا” اور "ہم سفر” رومانیت کی عمدہ مثالیں ہیں۔

مجید امجد کی نظموں میں مابعدالطبیعیاتی رنگ بھی خوبصورتی کا حامل ہے۔ ان کی بیشتر نظموں میں تخیلات اور تفکّرات کی ایک الکھ نگری دکھائی دیتی ہے اور اس الکھ نگری کی مسندِ شاعری پر براجمان ہو کر وہ انمول اور لافانی اشعار تخلیق کرتے ہیں۔

مجید امجد کی نظموں میں واہموں اور ہیولوں کی عجیب و غریب دنیا آباد ہے۔ یہ ہیولے کبھی انہیں خوفزدہ کر تے اور کبھی تنہائی میں راحت کا سامان بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

کون آیا ہے؟ کون آتا ہے؟ کون آئے گا؟
انجانے من کی مورکھتا کو کیا کیا دھیان گزرتا ہے
دل ڈرتا ہے!(11)

"پھر کیا ہو” میں بھی یہی تصورات غالب ہیں:

کہیں وجود تک نہ رہے کہیں اک سانس تک نہ آتا ہو
یہ جہاں بھی نہ ہو خدا بھی نہ ہو کہیں اِک ذرہ تک نہ اڑتا ہو
سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں
یہاں کچھ بھی نہ ہو تو پھر کیا ہو؟(12)

نیم شب قافلے ستاروں کے
تیز ہرکارے ابرپاروں کے
کس نے نیندوں کو میری ٹوکا تھا؟
کوئی جھونکا تھا؟ کوئی دھوکا تھا؟(13)

مجید امجد کی نظموں کا پیرایۂ بیان، سادہ اور رنگین ہر دو طرح کے رنگوں کا حامل ہے۔ وہ اکثر دل موہ لینے والے الفاظ اپنی نظموں میں لاتے ہیں۔ وہ مدعائے دل دلآویز الفاظ میں سامنے لاتے ہیں۔

وہ حسبِ موقع نہایت عمدگی کے ساتھ ہندی لفظیات سے اپنی نظموں کی مرصع سازی کرتے ہیں:
رت آئے، رت جائے، مہاری عمر کٹے رو رو
گجرارے، متوارے نینان، کون دیس گیو(14)

صنعتِ تکرار ان کی شاعری میں اس طرح جادو جگاتی ہے:

ترا تبسم کلی کلی میں ترا ترنّم چمن چمن میں
رموزِ ہستی کے پیچ و خم تیرے گیسوؤں کی شکن شکن میں(15)

نسائی لب و لہجہ بھی ان کی شاعری کو جلا بخشتا ہے اور دلنشینی میں اضافہ کرتا ہے۔ نظم”چچی” کے درج ذیل اشعار اس کی بہترین مثال ہیں:

اس موئی پاپن نے تو مجھ کو جلا ڈالا بہن!
کوئی ہو اس بے حیا سے پوچھنے والا بہن
یہ نگوڑی کیوں گلی کے موڑ پر کل پچھلی رات
کررہی تھی جانے کیا سرگوشیاں اور اس کے سات(15)

مجید امجد نے اپنی نظموں کے لیے نئی نویلی ہیئتیں وضع کیں، ان کے کئی مصرعے انتہائی طویل اور کئی نہایت مختصر ہوتے ہیں۔یہ ان کی معریٰ نظموں کا اختصاص ہے۔ ان کی نظموں کی بحور بہترین اور عمدہ ہوتی ہیں۔

ان کی نظموں میں قافیوں کا ایک خوبصورت نظام ہے جو محض ان کی شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔ مجید امجد کی نظمیں اپنے موضوع، ہیئت اور لفظیات کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ہیں۔ ان کی نظمیں اردو شاعری کے بحرِ بے کراں میں ایسے گوہر ہائے آبدار کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کی چمک دمک سدا بہار ہے۔ اردو شاعری کے آسمان پر مجید امجد ایک ایسا آفتاب ہے جسے رہتی دنیا تک کبھی زوال نہیں آسکتا، نظم نگاری میں ان کا نام زندہ و جاوداں ہے۔

حوالہ جات

1ـ خواجہ محمد زکریا،مرتب، کلیات مجید امجد( نئی دہلی: فرید بک ڈپو،2011)،671
2- ایضاً، ص 695
3- ایضاً
4- ایضاً، ص 132
5- ایضاً، ص 76
6- ایضاً، ص 154
7- ایضاً، ص 326
8- ایضاً، ص 209
9- ایضاً، ص 129
10- ایضاً، ص 375
11- ایضاً، ص 108
12- ایضاً، ص 71
13- ایضاً، ص 70
14- ایضاً، ص 146
15- ایضاً، ص 245

مضمون نگار:حمیرا فاروق

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں