ناصر کاظمی کی حیات اور شخصیت

ناصر کاظمی کی حیات اور شخصیت

موضوعات کی فہرست

1. تقسیم ہند کے اثرات

برصغیر کی تاریخ میں تقسیم ہند ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کو نہ کبھی ہمارے آبا واجداد فراموش کر سکے، نہ ہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری نسلیں کر سکیں گی۔ یہ تقسیم کیوں ہوئی؟ کون لوگ اس کے ذمے دار تھے؟ یہ بحث نہ ہمارا موضوع ہے نہ نشا۔ اس تقسیم نے ہماری زندگیوں پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ تقسیم ہند نے جہاں ایک طرف سیاسی اور سماجی حالات کو بری طرح متاثر کیا، وہیں ادبی حالات بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ پورا ملک بدامنی اور انتشار کا شکار ہو گیا اور قتل و غارت گری عام ہوگئی۔

2. اردو ادب پر اثرات

ادبی منظر نامہ بھی تقسیم کے اثرات سے خالی نہیں رہا۔ ادباء اور شعراء نے تمام مناظر بہ چشم خود دیکھے۔ ہندوستان سے بہت سی ایسی نا قابل فراموش اور مایہ ناز ہستیاں بھی چھن گئیں جن کی نگارشات اردو ادب کی زیب وزینت ہیں۔ تقسیم کی وجہ سے اقبال جیسا مفکر اور فلسفی اور فیض جیسا حقیقت اور رومان کی امتزاجی شاعری کا خالق بھی پاکستان کا ہو کر رہ گیا۔

3. ناصر کاظمی کی زندگی

ایسے افراد کے ساتھ بہت سے ادباء اور شعراء نے بھی پاکستان کا رخ کیا اور اس طرح ایک کثیر آبادی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلی گئی۔ تقسیم کے دوران ہجرت کرنے والے ادباء اور شعراء کی ایک طویل فہرست ہے، انہی شعراء میں ایک اہم نام ہے جدید غزل کے نمائندہ شاعر ناصر کاظمی کا۔ ناصر بھی دوران تقسیم انبالہ سے ہجرت کر کے لاہور پہنچے۔ لاہور میں ناصر کو خاطر خواہ اہمیت ملی، اور ناصر نے بہت جلد اپنا ایک منفرد مقام حاصل کر لیا۔

4. ناصر کاظمی کی شاعری

ناصر کاظمی کی شاعری پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ان کے حالات زندگی کا مفصل طور پر جائزہ لیا جائے، جن کے زیر اثر ان کی شاعری کی تخلیق ہوئی۔ شاعر کا کوئی وطن ہوتا ہے نہ شاعری کا۔ شاعر تو پہلے شاعر ہوتا ہے اور بعد میں ہندوستانی یا پاکستانی۔

5. ناصر کی پیدائش اور خاندانی پس منظر

ناکامی اور کامیابی، دونوں کا دائرہ زندگی کی خوبصورتی میں جھلکتا ہے۔ ناصر کی پیدائش 8 دسمبر 1925 ء کو انبالہ شہر میں ہوئی۔ ناصر کے والد کا نام سید محمد سلطان بن شریف الحسن تھا اور والدہ محمدی کنیرہ۔ ناصر کے دو بھائی اور ایک بہن بھی تھیں۔

6. ناصر کی تعلیم

ناصر نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ اُن کی والدہ نے نہ صرف اُنہیں شاعری پڑھنے کا مشورہ دیا، بلکہ وہ اکثر ناصر کو قدیم شعراء کا کلام بھی سناتی تھیں۔ انہوں نے پانچویں جماعت تک مشن گرلز اسکول میں اور باقی والدہ مرحومہ کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔

7. ناصر کے تعلقات

ناصر کی شریک حیات محترمہ شفیقہ تسکین ناصر کی خالہ زاد بہن تھیں۔ ان کی والدین کے انتقال کے بعد ناصر اپنے چھوٹے بھائی عنصر رضا کے ساتھ ایک دوسرے کا سہارا بن گئے۔

8. ناصر کی ڈائیری

ناصر کے حالات زندگی اور ان کی شخصیت کے بارے میں جاننے کے لیے سب سے زیادہ باوثوق ذریعہ ان کی ذاتی ڈائریاں ہیں جنھیں یکجا کر کے ناصر کے چھوٹے بیٹے حسن سلطان کاظمی نے شائع کیا۔### 1. ناصر کاظمی کی زندگی اور شخصیت

ناصر کاظمی شیعہ تھے، لیکن ان کے شجرہ نسب کے مطابق پہلی کئی پشتوں تک ان کے اجداد شیعہ نہ تھے، بلکہ انھوں نے ایران پہنچنے پر شیعہ مذہب اختیار کیا۔ ناصر کے یہاں مذہبی یا مسلکی کٹرپن کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

2. مذہب اور عقائد

ناصر نے اپنے عقائد کے تعلق سے لکھا:
"مذہب میرا شاعری اور قبیلہ میرا ہاشمی ہے۔ دین میرا اسلام ہے اور کتاب قرآن پاک ہے۔” ناصر کی شاعری میں شیعہ، حب آل محمد اور شہدائے کربلا کی یاد شامل رہی۔

3. ناصر کی خیالات و نظریات

معتدل عقیدہ
ناصر ایک معتدل عقیدے کے حامل تھے۔ انھوں نے خود کو کبھی کٹر مذہبی شخص کے طور پر نہیں پیش کیا اور اکثر اپنے عقیدے پر پختگی کے ساتھ قائم رہے۔

4. بچپن اور نوجوانی

بچپن کی یادیں
ناصر نے اپنے بچپن کے دلفریب مناظر اور دلچسپ واقعات کا بیان خوبصورتی سے کیا ہے۔ وہ اپنے شہر انبالہ کی بستی کا ذکر کرتے ہیں، جہاں وہ جنم لیا۔

تعلیمی سفر
ناصر نے اردو اور فارسی کی بنیادی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔ بعد میں، انہوں نے نیشنل ہائی اسکول پشاور اور مسلم ہائی اسکول انبالہ سے تعلیم حاصل کی۔

5. خاندانی زندگی

ناصر اپنے والدین کے لاڈلے بچے تھے اور اپنے والد کے ساتھ شکار اور سیر کا شوق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا بہت پیار اور محبت ناصر پر رہا۔

6. دلچسپ واقعات

ریل کا شوق
ناصر اپنی جوانی میں ریل کا شوق رکھتے تھے اور اکثر ریل کو دیکھنے کے انتظار میں رہتے تھے۔

کبوتر بازی
ناکامیوں کے باوجود، وہ کبوتر بازی کے شوقین تھے اور اکثر اسکول کے لیے لیٹ ہو جایا کرتے تھے۔

7. شاعری اور ادب سے وابستگی

ناصر کی والدہ نے شاعری کی تعلیم میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے وہ شاعری کے میدان میں داخل ہوئے۔ ان کی تخلیق میں اکثر محبت اور انسانی احساسات کی جھلک ملتی ہے۔

ناصر کاظمی کی زندگی اور شاعری

1. ذاتی اور خاندانی زندگی

ناصر کاظمی نہ صرف شاعر تھے بلکہ ایک شفیق والد اور استاد بھی تھے۔ ان کے بچے انہیں مختلف مشاعروں میں لے جاتے اور وہ ریڈیو پر بچوں کی نظمیں پڑھاتے تھے۔

2. حساسیت اور غم

ناصر ایک انتہائی حساس شخص تھے اور زندگی بھر مسائل کا سامنا کرتے رہے۔ ان کے غم و اندوہ کی شاعری میں گہرائی ہے، کیونکہ انہوں نے خود مختلف مشکلات میں وقت گزارا۔ ان کی نوجوانی میں ہی مہلک بیماری نے انہیں متاثر کیا۔

3. عدالتی معاملات

1957 میں پاکستانی حکومت کے محکمہ بحالیات نے ناصر اور ان کے بھائی کو ایک مکان الاٹ کیا، جو بعد میں نیلام کر دیا گیا۔ اس مسئلے کی وجہ سے انہیں پانچ سال تک عدالتی جنگ لڑنی پڑی۔ ناصر کی بیماری اس عرصے میں بوجھل ہونے لگی، اور ان کا ذہنی دباؤ بڑھنے لگا۔

4. بیماری کا اثر

ناصر کی صحت مسلسل بگڑ رہی تھی، اور وہ ہسپتال کے چکر بھی لگاتے رہتے تھے۔ ان کے طرز زندگی، جیسے کہ پان، سگریٹ اور غیر صحت مند خوراک نے ان کی صحت کو متاثر کیا۔

5. مشکل صورتحال

ناصر کے لیے یہ وقت بہت مشکل تھا جب ان کی علالت بڑھ گئی۔ مختلف طبی معائنوں اور ہسپتالوں کے دوروں کے باوجود وہ اپنی عدالتی لڑائی جاری رکھتے رہے۔

6. زندگی کی آخری ایام

ناصر کی زندگی کے آخری سال انتہائی مشکل گزارے۔ 1971 میں ان کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہو سکے۔ 1972 میں ان کی حالت نازک ہو گئی اور 2 مارچ کو وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ اپنے آخری لمحات میں بھی انہوں نے امید کا دامن چھوڑا نہیں۔

7. موت کا سامنا

ناصر نے دورانِ آپریشن اپنے جسم کی حالت کو دیکھا لیکن کبھی خوف زدہ نہیں ہوئے۔ وہ ہمیشہ موت کو چیلنج کرتے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ اب بچاؤ ممکن نہیں تو انہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔

8. خیالات کی جھلک

ان کی شاعری میں زندگی کے تجربات، غم، اور موت کا سامنا کرنے کی جستجو صاف نظر آتی ہے۔ ناصر نے اپنی زندگی کی مشکلات کو اپنے کلام میں سمویا، جو آج بھی اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔

1. ناصر کا شوقِ سینما

ناصر کو انگریزی فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر ہفتے میں دو یا تین دن اپنے دوستوں کے ساتھ تھیٹر جاتے تھے اور اس شوق کا ذکر انہوں نے اپنی ڈائری میں کثرت سے کیا۔ ناصر نے مختلف تھیٹروں میں مختلف فلمیں دیکھی، جیسے "Fast of پلازہ” اور "Bornes”۔

2. خوراک اور موسیقی کے شوق

ناصر خوراک کے معاملے میں کوئی پابندی نہیں رکھتے تھے اور انہیں اچھے کھانوں کا بہت شوق تھا۔ وہ موسیقی، بارش، اور فطرت کے حسین مظاہر کے شیدائی تھے۔ انھوں نے بارش کے موسم میں اپنے مشاغل کا خوب لطف اٹھایا اور ان کی شاعری میں یہ شغف واضح طور پر جھلکتا ہے۔

3. ناصر کی ابتدائی زندگی

ناصر اپنی جوانی میں سیاسی اور سماجی حالات پر گہری نظر رکھنے لگے تھے۔ تقسیم ہند کی صورت حال نے ان پر گہرا اثر ڈالا، جس کی پیشگوئی انہوں نے پہلے ہی کر لی تھی۔ لاہور میں تعلیم جاری رکھنے کے بعد 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت ناصر کے سامنے مشکلات کی نئی دُنیا کھلی۔

4. ہجرت اور اس کے اثرات

تقسیم ہند نے ناصر کے گھرانہ کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربات سے اس وقت کے دلخراش مناظر کو دیکھا، جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتے ہیں۔ ناصر نے احساسات اور تجربات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے سمویا۔

5. بے روزگاری اور مشکلات

پاکستان پہنچنے کے بعد ناصر کے سامنے بے روزگاری اور مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ ابتدائی طور پر انہیں والدہ کے زیورات بیچ کر گزارا کرنا پڑا۔ ان کی تعلیم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے مناسب ملازمت بھی نہیں مل رہی تھی، اور انھیں قرض لینے کی نوبت بھی آ گئی۔

6. ملازمت کی تلاش

ناصر نے ملازمت کی تلاش شروع کی لیکن ان کی ضد اور آہستہ روی نے انہیں مشکل میں ڈال دیا۔ انھیں ہر وقت قرض کی ادائیگی کا خوف رہتا تھا۔

7. اشاعت کا معاملہ

ناصر کا مجموعہ کلام شائع ہونے جا رہا تھا، اور وہ چاہتے تھے کہ انہیں غزلیں منتخب کرنے کا حق حاصل ہو، لیکن پبلشر کو یہ شرط منظور نہ تھی۔ انہیں آخر کار اپنی ضد چھوڑنی پڑی کیونکہ انہیں پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔

8. ناصر کی دوستی اور خیالات

ناصر نے اپنے دوستوں کی مدد سے زندگی کے مختلف مسائل کا سامنا کیا۔ وہ کئی معاصروں کی مدد سے مالی معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔

ناصر کاظمی: محبت، ازدواج اور والد ہونے کی حیثیت

1. شفیقہ بانو سے محبت

ناصر کاظمی نے اپنی زندگی میں شفیقہ بانو کے ساتھ ایک گہری محبت کا رشتہ قائم کیا۔ انہوں نے شفیقہ کو ہمیشہ "تسکین” کے نام سے یاد کیا۔ ناصر کا بچپن سے ہی شفیقہ کے ساتھ اچھا تعلق تھا، لیکن اُن کی شادی میں تاخیر بے روزگاری کی وجہ سے ہوئی تھی۔

2. شادی کا دن

ناصر کی شادی 6 جولائی 1952 کو ہوئی۔ اس دن ناصر کی بارات زیادہ دیر سے روانہ ہوئی، جس کی وجہ سے سسرال میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ناصر نے اس دن کو اپنی ڈائری میں تفصیل سے درج کیا ہے، جہاں انہوں نے اپنی شادی میں شامل مہمانوں کا ذکر بھی کیا۔

3. ازدواجی زندگی

ناصر کی ازدواجی زندگی کامیاب اور خوشگوار تھی۔ وہ اپنی بیگم کے حقوق کا خیال رکھتے تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ناصر نے اپنی بیگم کو اکثر ساتھ لے کر چلے جانے کی روایت قائم کی، مثلاً فلم دیکھنے کے لیے۔

4. بچوں کے ساتھ تعلق

ناصر کے دو بیٹے تھے: باصر اور حسن۔ انہیں اپنے بیٹوں کے لئے نہ صرف ایک محبت کرنے والے والد بلکہ ایک اچھے استاد ہونے کا بھی شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹوں کو تعلیم دیتے اور ان کے ساتھ وقت گزارتے تھے، کھیلتے اور شعر و ہیئت کی تعلیم دیتے تھے۔

5. والد کی حیثیت

ناصر بچوں کی تربیت میں بہت مخلص رہے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کا عقیقہ بھی کیا، اور ان کی پیدائش کی خوشی میں ناصر نے اپنی ڈائری میں کچھ خاص نوٹ بھی لکھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کے مستقبل کی فکر کی اور دعا کی کہ وہ ان کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوں۔

6. تربیت کا دلچسپ انداز

ناصر بچوں کی تعلیم میں جدید اور دلچسپ طریقوں سے شامل رہے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو دوروں میں کہانیاں سنائیں اور انہیں شاعروں کے کلام سے متعارف کرایا۔ ان کے بیٹوں کی شاعری میں دلچسپی بڑھنے لگی اور وہ ناصر کو اپنا استاد مانتے تھے۔

7. والد کے طور پر نفسیاتی پہلو

ناصر نے اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ ان کی نفسیات کو سمجھتے تھے اور والدین کے ساتھ دوستانہ رویہ برقرار رکھتے تھے۔ ناصر بچوں کی محفلوں میں بھی شامل ہوتے تھے اور ان کے ساتھ گپ شپ کیا کرتے تھے۔

8. مشاعروں میں شرکت

ایک دفعہ ناصر نے اپنے بیٹے کو مشاعرے میں بلانے پر یہ بات کہی کہ زندگی کبھی تیاری کا موقع نہیں دیتی۔ یہ ان کی تربیتی حکمت عملی کا حصہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اچانک حالات کا سامنا کرنے کی تیاری کراتے تھے۔

ناصر کاظمی: ایک عظیم شاعری کا سفر اور ان کی زندگی کا اختتام

1. آخری ایام

ناصر کاظمی جب البرٹ وکٹر اسپتال میں آخری بار زیر علاج تھے، تو ان کے قریبی دوست اور مشہور افسانہ نگار انتظار حسین نے ان کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں ناصر نے اپنے دوستوں کو سلام کہا، جو ان کے احساسات کا عکاس تھا۔ وہ جانتے تھے کہ موت قریب ہے، اور ان کے دوست صرف انسان نہیں تھے بلکہ درخت، پرندے اور قہوہ خانے بھی تھے۔

2. انتقال کی خبر

ناصر کے انتقال کی خبر پاکستان ٹیلی ویژن اور مختلف اخبارات میں شائع ہوئی۔ لاہور کے کالجز میں ان کے سوگ میں کلاسیں بند کردی گئیں۔ ناصر کی وفات پر جنازے میں موجود لوگوں کی تعداد اس بات کا اظہار کرتی تھی کہ وہ ایک مقبول اور محترم شاعر تھے۔ اُن کا جنازہ عوامی محبت کا ثبوت تھا۔

3. خراجِ عقیدت

ان کی وفات پر مختلف ریڈیو اور ٹیلی ویژن سٹیشنز پر خصوصی پروگرامز نشر کیے گئے، جہاں ادیبوں اور شاعروں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ناصر کی موت نے شہر لاہور میں ایک گہری اداسی چھا گئی، جیسے شہر نے اپنے ایک عزیز کو کھو دیا ہو۔

4. ناصر کی پیش گوئی

ناصر نے اپنی ڈائری میں کچھ سال قبل اپنی موت کے بارے میں ایک تحریر لکھی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جب وہ مر جائیں گے تو لوگ روئیں گے، اور وہ چاند کی دنیا میں سوجائیں گے۔ یہ الفاظ ان کی حساسیت اور شاعرانہ روح کی عکاسی کرتے ہیں۔

5. ناصر کی وراثت

آج بھی ناصر کی شاعری میں زندگی کی گہرائی اور سچائی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری لوگوں کے دلوں کو چھو لیتی ہے اور انہیں بیدار کرتی ہے۔ ایک سچے انسان کی حیثیت سے، وہ زندگی بھر اپنی قوم کو جگانے کی کوشش کرتے رہے۔

6. انتقال کے بعد کی زندگی

ان کی شریک حیات شفیقہ تسکین کا انتقال ناصر کے انتقال کے 26 برس بعد ہوا۔ ناصر کے بھائی عنصر رضا کاظمی 1994 میں ریٹائر ہوئے اور وہ ناصر کی یادگار کرشن نگر والے مکان میں مقیم ہیں۔

7. اولاد کی کامیابی

ناصر کے بڑے بیٹے باصر سلطان کاظمی معروف نقاد اور شاعر ہیں، جبکہ چھوٹے بیٹے حسن سلطان کاظمی معاشیات کے شعبے میں استاد ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ناصر کا نام روشن کیا بلکہ ایک اچھے بیٹے ہونے کا فریضہ بھی ادا کیا۔

1. ملازمت کا آغاز

1 اگست کو ناصر ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ٹاف آرٹسٹ منسلک ہوئے۔ اگرچہ ناصر کو اچھی ملازمتیں ملی تھیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ملازمت کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے حفیظ ہوشیار پوری کو دفتر کی گھٹن بھری زندگی کے درمیان گزارا ہوا دیکھا تھا، اور خود کو ایسی زندگی کے لیے تیار نہ کر سکے۔

2. ملازمت سے گریز

ناصر نے جتنی کوشش کی ملازمتوں سے بھاگنے کی، وہ بڑی دلچسپ تھی۔ ان کے قریبی دوستوں نے دو دل چسپ واقعات بیان کیے۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ ناصر تحصیل داری میں گئے، مگر اگلے دن بنا اطلاع کے غائب ہو گئے۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ جب ناصر کو "ہمایوں” کے لیے جوائنٹ ایڈیٹر کی ضرورت پڑی، تو ناصر نے وقت پر پہنچنے کے بجائے کافی پینے کی خواہش ظاہر کی، جس کی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر نہیں پہنچے۔

3. "ہمایوں” کی ادارت

نسار نے 1 اکتوبر 1952ء کو میاں بشیر کے رسالے "ہمایوں” میں جوائنٹ ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا۔ اس رسالے کا پہلا ایڈیشن 31 اکتوبر کو نکلا۔ لیکن یہ سفر صرف پانچ برس تک جاری رہا، اور جنوری 1957ء میں یہ رسالہ بند ہوگیا۔

4. دیگر ملازمتیں

"ہمایوں” کے بند ہونے کے بعد ناصر نے "خیال” نامی ایک پرچہ نکالا۔ بعد میں، 10 اپریل 1958ء کو ناصر حکومت پاکستان کے محکمہ سماجی بہبود میں بطور لائز ان آفسیر اور ایڈیٹر مقرر ہوئے، لیکن وہ یہ عہدہ 22 دسمبر 1958ء کو چھوڑ دیا۔ ناصر نے 1 جنوری 1959ء کو حکومت پاکستان کے ادارے میں اسٹنٹ آفیسر کے طور پر ملازمت اختیار کی۔

5. تعلیم کی کمی

ناصر کی ابتدائی تعلیم پر بات کی جائے تو ان کی تعلیم کا فقدان ایک اہم مسئلہ تھا۔ ناصر بی اے کر رہے تھے کہ پاکستان کا قیام ہوا، اور ہجرت کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ مزید یہ کہ ناصر موجودہ نظام تعلیم کے خلاف رہے۔ وہ استاد کی آمریت کے سبب تعلیم حاصل کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور بہر حال اپنی تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

6. شاعر کی زندگی

ناصر کی زندگی شاعر ہونے کی وجہ سے کافی پیچیدہ رہی۔ انھوں نے کئی ملازمتیں کیں، لیکن ان کی ادبی سرگرمیاں کبھی ختم نہ ہوئیں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو ناصر کی زندگی کی مصروفیات بڑھ گئیں۔ ان کی والدہ نے بچپن میں ناصر کی شادی اپنی رشتہ کی بہن شفیقہ بانو سے طے کر دی تھی۔

7. ہجرت کے اثرات

ہجرت اور بے سرو سامانی نے ناصر کو ناچار ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا، حالانکہ وہ ہمیشہ شاعری کی طرف مائل رہے۔ ان کی شاعری میں غم زمانہ اور غم روزگار کے آثار بخوبی نظر آتے ہیں۔

1. ناصر کی شاعری کا آغاز

ناصر کی شاعری کے آغاز کے تعلق سے کسی مصدقہ تاریخ کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناصر نے شاعری کا آغاز اپنے طالب علمی کے زمانے میں کیا۔ ناصر بچپن سے ہی کلاسیکی شعراء کا مطالعہ کرتے تھے اور میر اور اختر شیرانی کا کلام نہایت چاؤ سے پڑھتے تھے۔ ان شعراء کی شاعری سے ناصر بہت متاثر ہوئے اور ان کے انداز کی تقلید کرتے ہوئے شاعری شروع کی۔

2. والدہ کی حوصلہ افزائی

ناصر کی شاعری کے آغاز میں ان کی والدہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ حقیقتاً، ان کی والدہ نے ہی انھیں شاعری کی جانب مائل کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ناصر نے اپنے استاد کے طور پر اپنی والدہ کو تسلیم کیا اور آغاز میں کچھ احباب سے مشورے بھی لیتے رہے۔

3. غزل کے اثرات

ناصر کی شاعری میں احساس محرومی نمایاں ہے، جبکہ خوبصورت اور نادر استعارات ان کی شاعری کے حسن میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ ناصر اصلاً غزل کے شاعر ہیں، اور غزل ان کی زندگی کا مرکز ہے۔

4. عشق کی کار فرمائی

ناصر کی شاعری کے آغاز میں عشق کی کار فرمائی ہے۔ وہ کم عمر میں ہی عشق کی بیماری میں مبتلا ہوئے، جس کا اثر ان کی شاعری پر بھی رہا۔ 1937ء میں جب وہ 13 سال کے تھے تو پہلی بار ایک لڑکی حمیرا سے متاثر ہوئے۔

5. غزل کا دور

ناصر نے جس زمانے میں شاعری کا آغاز کیا، وہ غزل کے لیے سازگار نہ تھا۔ ترقی پسندی کا بول بالا تھا اور غزل کی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ ناصر نے غور و فکر کیا اور نئی باتیں کہہ کر غزل میں جدید لب و لہجے کو شامل کیا، جسے عوام و خواص نے پسند کیا۔

6. مشاعروں میں شرکت

ایک شاعر کے طور پر ناصر کی شہرت کا آغاز 1942ء میں اسلامیہ کالج کے ایک مشاعرہ سے ہوتا ہے۔ اس مشاعرے میں ناصر نے اپنی نرم و نازک غزل سے سب کو حیرت زدہ کر دیا اور مشاعرہ لوٹ لیا۔

7. فطرت سے لگاؤ

ناصر فطرت کے شیدائی تھے اور اپنی شاعری کے ذریعہ فطرت کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ وہ اکثر جنگلوں، دریاؤں کی سیر کرتے تھے اور فطرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

8. خوش خوراکی اور شوقین طبیعت

ناصر خوش خوراک شخص تھے اور اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانا کھاتے تھے۔ وہ سگریٹ اور پان کے بھی شوقین تھے۔

9. رات کی محفلیں

ناصر پوری رات سڑکوں پر گزار دیتے تھے، کئی مقامات پر ملنے والے ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ محفلیں جماتے تھے، اور صبح کو دفتر جانے کا خیال آتا تو محفل برخاست ہو جاتی۔

10. دوستی کے تعلقات

ناصر کے دوستوں کی تعداد کافی تھی، لیکن وہ کسی کو ایک دم دوست بنانے کے قائل نہ تھے۔ ان کے چند دوست، جیسے شیخ صلاح الدین، انتظار حسین، حنیف رائے، وغیرہ، زندگی بھر ان کے ساتھ رہے، مگر ناصر نے کسی سے تعلق منقطع نہیں کیا۔

11. موسیقی کا شوق

ناصر کو موسیقی سے خاص لگاؤ تھا۔ انہوں نے باقاعدہ فن موسیقی کو سیکھنے کی کوشش کی، لیکن بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے اتنے کم وقت میں اس میں مہارت حاصل نہ کر سکے۔

9.یوم وفات
29 مئی: آج ابا جی کو جدا ہوئے پورے 12 برس ہو گئے۔ (23)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں