کلام غالب میں روایت کی پاسداری

کتاب کا نام…میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کورڈ نمبر….5612
صفحہ نمبر … 80تا 81
موضوع….کلام غالب میں روایت کی پاسداری اور اجتہادی رویہ
مرتب کردہ…..حسنٰی

کلام غالب میں روایت کی پاسداری اور اجتہادی رویہ

غالب کے کلام میں اجتہاد کے پہلو بہ پہلو روایت کی پاس داری سے جو شغف ہے وہ عشقیہ شاعری میں بھی قائم نظر آتا ہے۔ غزل کے روایتی عاشق، مجنوں سے لے کر پروانے تک اور روایتی معشوق لیلٰی سے لے کر شمع محفل تک بھی یہاں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غالب کی مکتوب نگاری | PDF

ان اشعار کا پس منظر مغلیہ دور کی وہی معاشرت ہے جو غالب کے معاصرین کے کلام میں بھی جھلکتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ غالب کے بیان میں اسے زیادہ وسعت، شدت اور وضاحت میسر ہوئی ہے۔

لیکن یہ درجے کا فرق ہے، کیفیت کا نہیں، اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ معاشرتی پس منظر کے لحاظ سے غالب اور اس کے ہم عصر شعراء میں ایک بنیادی اشتراک ہے۔ اس مشترک کیفیت کے ہوتے ہوئے بھی غالب کی شاعری میں حسن وعشق کا ایک الگ مقام ہے۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ شاعر کی اپنی شخصیت اور شخصیت کی یکتائی نے اس حصہ کلام کو بھی ایک بالکل دوسری سطح پر پہنچا دیا ہے۔

حسن و عشق کو ہم یہاں بہ طور ایک ملی جلی حقیقت کے دیکھ رہے ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی ذہنی کیفیت کے دو بظاہر مختلف ظہور میں عشق وہیں ہوتا ہے جہاں حسن نظر آئے اور جہاں عشق ہو وہاں حسن ضرور نظر آتا ہے :

شوفي حسن و عشق ہے آئینہ دار ہم دگر

خار کو بے نیام جان، ہم کو برہنہ پا سمجھ

اس یکا نگت کے باوجود ہم حسن و عشق کے درمیان عام گفتگو میں فرق ضرور کرتے ہیں۔ حسن کو ہم ایک بیرونی حقیقت قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک ایسی چیز جو ہمارے ذہن سے علیحدہ ایک مستقل وجود رکھتی ہے اور عشق اس بیرونی حقیقت سے ہمارادہ ذہنی تعلق ہے جو بالعموم خواہش کے رنگ میں پیدا ہوتا ہے۔

غالب کی شاعری میں حسن و عشق

اس سے ظاہر ہے کہ اگر حسن میں نہیں تو عشق میں یقیناً ہماری اپنی شخصیت منعکس ہوتی ہے۔ جیسے ہم خود ہیں ویسا ہی ہمارا عشق ہے لیکن ذرا سا غور کیجیے تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہمارا حسن کا تصور بھی ہماری اپنی شخصیت میں محصور ہے۔ حسن کی کون سی ادا کو آپ خاطر میں لاتے ہیں اور کسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، یہ خود آپ کی افتاد طبع کا کرشمہ ہے۔

انسان کی شخصیت کے الگ الگ ٹکڑے نہیں کیے جاسکتے ، ہمارے عمل اور خیال کی ہر سرگرمی، ہماری خود فروشی و خودداری، ہماری محبت و نفرت ، ایک ہی نا قابل تقسیم شخصیت کے مختلف مظاہر ہیں۔ غالب کا تصور حسن و عشق کیا تھا، یہ دراصل غالب کی شخصیت کا مسئلہ ہے۔ شدید و عمیق احساس کی حالت میں انسانی فطرت اپنے چہرے سے ہر نقاب الٹ دیتی ہے اور عشق تو زندگی کے سب سے گہرے اور سب سے تیز جذبات میں سے ہے۔

اس لیے یہ سوال کہ غالب کس حسن سے کس قسم کا عشق کرتا تھا، اگر چہ بجائے خود بھی دلچسپ ہے لیکن نقاد کے لیے اس میں ایک
خاص کشش یہ ہے کہ اس کی بنا پر غالب کی ذہنی حدود متعین کرنے میں مددملتی ہے۔

غالب نے حسن کی تفصیلی تصویر کشی کہیں نہیں کی، نہ کہیں اس قسم کا سراپا باندھا ہے جو مثلاً میر حسن، یا جرأت یا ذوق یا بعض انگریزی شاعروں کے کلام میں مل سکتا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہی کم ہے جن میں شاعر نے :

زلف سیاه رخ پر پریشان کیے ہوئے

کی حد تک صراحت سے کام لیا ہے، اور یوں بھی بیشتر اشعار حسن کے بجائے عشق کے موضوع پر ہیں ۔
بحیثیت مجموعی دیوان میں حسن کی مصوری رمی تشبیہ کی حد سے آگے نہیں بڑھی۔ حسن کا جلوہ ” صورت مہر نیم روز ہے، اور ” حسن مہ بہ ہنگام کمال سے بڑھ کر ہے” حوران خلد میں بھی وہ صورت نہیں ملتی ، اس کی جھلک یوں ہے جیسے آنکھوں کے آگے ایک بجلی کو ند گئی قد یار کا عالم فتنہ محشر کی یاد دلاتا ہے۔ اس کی کمر موہوم ہے اور وہن نا معلوم ۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں