خود نوشت تمنا بے تاب کا تجزیہ

خود نوشت تمنا بے تاب کا تجزیہ | Khud Nawisht Tamanna Behtaab ka tajziya

نوٹ: یہ تحریر جس مقالے سے کی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Urdu Mein Khud Nawisht 1980 kebad Researcher: Saleeta Jan

خود نوشت تمنا بے تاب کا تجزیہ

تمنا بے تاب

رشید امجد اردو ادب میں بحیثیت افسانہ نگار، نقاد اور محقق مشہور ہیں۔

پاکستانی ادب کے منظر نامے کے حوالے سے انھوں نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔

ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی سے نوازا گیا ہے۔

"تمنا بے تاب ” رشید امجد کی خود نوشت ہے جو 2001 ء میں حروف اکادمی راولپنڈی کے زیر اہتمام منظر عام پر آئی ۔

2003ء میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ یہ کتاب 352 صفحات پر مشتمل ہے اس میں مصنف نے زندگی کے نشیب و فراز کو پیش کیا ہے۔

خود نوشت کے عنوان اور موضوعات کے حوالے سے خود مصنف لکھتے ہیں:

"معروف معنوں میں یہ خودنوشت نہیں بلکہ یادیں، خیالات، تجزیے اور مختلف اشیاء کے بارے میں میرے نقطہ ہائے نظر ہیں

جن میں میری نجی زندگی اور میرا عہد دونوں شامل ہیں۔ میں نے جو کچھ دیکھا ، سنا اور محسوس کیا اسے بغیر کسی تعصب کے بیان کر دیا ہے۔

اس میں زمانی ترتیب نہیں جس طرح کوئی ذکر آیا اور بات سے بات بھی ہے۔ میں نے اسی طرح بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود میری زندگی ایک تمنا بے تاب ہے۔

یہ بھی پڑھیں : رشید امجد کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ مقالہ pdf

عاشقی کے لیے جو صبر طلبی چاہے وہ مجھ میں نہیں ۔”

تمنا بے تاب بظاہر خود نوشت کا عنوان ہے لیکن اصل میں یہ رشید امجد کے دل میں بسنے والی ان تمناؤں کا غماز ہے

جو وہ اصلاح معاشرہ کے ضمن میں رکھتے ہیں۔ یہی تمنا میں تعبیر کو ڈھونڈتے ہوئے خوابوں کی صورت میں ان کی آنکھوں میں جلوہ گر رہتی ہیں۔

یہ عنوان مصنف نے غالب کے کلام سے اخذ کیا ہے جو اس طرح ہے۔

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

خود نوشت کی شروعات رشید امجد نے اپنے آبائی شہر سرینگر سے کیا ہے۔

اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں بھی آغاز میں ہی لکھا ہے۔ ان کے پردادا ڈوگرہ حکومت کے دوران ظلم ستم سے تنگ آکر سرینگر سے امرتسر ہجرت کر گئے تھے

لیکن ان کے والد ایک عرصہ بعد دوبارہ سرینگر واپس آئے اور یہاں سکونت اختیار کی ۔

ان کے والد کا نام غلام محی الدین تھا وہ قالینوں کے ڈیزائنر تھے اور اپنی ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی چلاتے تھے ۔

درویش صفت ہونے کے باعث پہلی بیوی سے نباہ نہ ہو سکا۔ دوسری شادی کے لیے امرتسر گئے ۔

جہاں خورشید بیگم ( رشید امجد کی والدہ) سے نکاح ہوا اور انہیں لے کر واپس سرینگر آگئے ۔

شادی کے بعد بہت عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے مگر والدہ کشمیر کی ہر درگاہ پر جا کر منت کرتیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعائیں مانگتیں۔

آخر کار ان کی دعا قبول ہوگئی ۔ اس حوالے سے رشید امجد لکھتے ہیں :

"وہ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں تجھے بڑی منتوں سے پایا ہے۔ ایک خواب بھی سنایا کرتی تھیں کہ انھوں نے دیکھا کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھی ہیں اور ایک پھول ہستا آرہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رشید امجد کے افسانوں میں مزاحمتی عناصر | PDF

قریب پہنچا تو انھوں نے اُچک کر اسے اٹھالیا اور گود میں رکھ لیا”

رشید امجد نے اس کتاب کو "علیا چا چا ” استاد غلام رسول طارق اور حلقہ ارباب ذوق کے نام منسوب کیا ہے۔

بنیادی طور پر ان ہی تینوں مدارج کے اردگر و مصنف کی شخصیت گھومتی ہے۔

” علیا چا چا” رشید امجد کی زندگی کا ایسا کردار ہے جسے وہ گھر کے دیگر افراد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

علیا چاچا ان کے گھر میں گھریلو ملازم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے فرد بن گئے۔ مصنف کے والد نے انہیں بھی قالین نویسی کا فن سکھایا۔

بچپن میں عام طور پر بچے اپنے والدین سے مانوس ہوتے ہیں اور بالخصوص ماں کی آغوش کو اپنے لیے محفوظ پناوہگا سمجھتے ہیں۔

لیکن رشید امجد ہمیشہ علیا چاچا کے خلوص اور بے پناہ محبت کی وجہ سے ہمیشہ ان کے آس پاس رہتے۔

کتاب میں رشید امجد اپنی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے لکھا ہے ۔

انہیں پانچ سال کی عمر میں برن بال اسکول میں ہی دن میں داخل کرایا گیا۔ اسکول آنے جانے کے لیے تانگہ خریدا گیا جو اسکول کے وقت کے دوران باہر کھڑا رہتا ۔

کتاب میں رشید امجد نے برن یال اسکول کی عمارت ، ہاسٹل اور ہاسٹل میں ملنے والے کھانے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔

اپنے فطرتی شرمیلے پن کی وجہ سے اسکول کے دور میں پیش آنے والی مشکلات کا تذکرہ بھی وضاحت سے کیا ہے۔

مصنف کے والد گھریلو ذمہ داریوں اور بچوں کے تئیں زیادہ فعال نہ تھے جس کی وجہ ان کا درویشانہ مزاج تھا۔

اپنی بیوی (یعنی رشید امجد کی والدہ) کے ساتھ ان کا رویہ کوئی مثالی نہ تھا لہذا وہ ابتداء ہی سے بے نیاز انہ انداز میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔

دوسری طرف مصنف کی والدہ بھیسخت گیر ہونے کے باعث جبری صحبت کی قائل تھیں۔

انہیں ساری عمر رشید امجد کے حوالے سے ایک شدید احساس ملکیت رہا جس کا وہ بر ملا اظہار بھی کرتی تھی۔

والد کی عدم توجہی اور والدہ کے اس بند باقی رویے نے ان کی شخصیت میں عدم تحفظ ، احساس محرومی اور خوف جیسے مسائل پیدا کر دیے۔

اس خوف سے نجات پانے کے لیے وہ ہمیشہ علیا چا چا کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔

بچپن کے خوف کے حوالے سے رشید امجد لکھتے ہیں۔

"رات کو جونہی میری آنکھ کھلتی میں خاموشی سے بستر سے نکل کر سیڑھیوں میں اکر بیٹا ہوا، خوف مجھے دبوچھ لیتا۔

میں آہستہ سے آوازیں دیتا علیا چا چا علیا چاچا، چچا بھی شاید میری آواز کے منتظر ہوتے، ایک لمحہ میں وہ سیٹرھیاں
پلانگتے ہوئے میرے پاس آئی جاتے اور ہونٹوں میں انگلی رکھ خاموش رہنے کا اشارہ کرتے۔

گود میں اٹھا کر چپ چاپ اپنے ساتھ لے جاتے ۔ مجھے فوراً نیند
آجاتی ۔ صبح ہی انہیں امی ڈانڈتیں تم کیوں لے کر گئے اسے اور مجھے بھی سیڑیوں میں جرمن منتو ہے، اب گئے تو پکڑ لے گا”

جر من متو جنگ عظیم دوم کے زمانے میں جرمنی کی اصطلاح تھی۔

اس زمانے میں انگریز دشمنی کی وجہ سے ہندوستان بھر میں ہٹلر کو پسند کیا جاتا تھا

اور لوگ جرمن ریڈیو پر جنگ کی ہولناک خبریں سننے کے بےحد خواہش مند رہتے تھے۔

چونکہ جنگ عظیم دوم کی تباہی کے واقعات نے لوگوں کے دل و دماغ پر خوف کے گہرے اثرات چھوڑے تھے۔

لہزا جرمن متو، خوف کی ایک علامت بن گیا تھا۔

تمنا بے تاب میں رشید امجد نے اس دور کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا ہے۔

اس وقت کے سیاست دانوں میں شیخ عبداللہ، گاندی،نہرو، قائد اعظم وغیرہ کے نام گھر میں بچپن ہی سے سنتے آرہے تھے۔

1947ء میں جب فسادات کی شدت میں اضافہ ہوا تو لوگ بےحد پریشان ہو گئے ۔

مصنف اس وقت دوسری جماعت کے طالب علم تھے۔ فسادات کے حوالے سے کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں:

"سلطنت برطانیہ میں جہاں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔

سورج اب ڈو بیٹے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ بر صغیر کی تاریخ کے ہولناک فساد شروع ہو چکے تھے۔

نہ معلوم کس کی فتح ہوئی تھی اور کون ہارا تھا لیکن دھرتی کا رنگ سرخ ہو گیا تھا۔

اس زمانے میں ریڈ یو کسی کسی کے گھر میں ہوتا تھا۔ ہمارے گھر میں بڑا سا ریڈیو تھا جس کے ساتھ گراموفون مشین بھی تھی

جس پر توے نما ر میکارڈ چلتا تھا۔ والد کو سہگل بہت پسند تھا اور اکثر حقہ کے کشن لگاتے ہوئے دیر تک سہگل سنا کرتے تھے۔

ریڈیو تو خبروں کے لیے تھا۔ خبروں کا وقت ہوتا تو محلہ کا محلہ ہمارے گھر امنڈ آتا ۔

معلوم نہیں ان خبروں میں کیا تھا کہ آنے والوں کے چھرے
اتر جائے۔”

فسادات کے دوران کشمیر کے بہت سے لوگوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا جن میں سے ایک خاندان رشید امجد کا بھی تھا۔

حالانکہ یہ فیصلہ خود مصنف کے لیے نا قابل قبول تھا کیونکہ علیا چا چا سے دور ہونا ان کو منظور نہیں تھا۔

سرینگر سے راولپنڈی کا سفر رشید امجد کے لیے کٹھن تھا۔

راولپنڈی پہنچ کر جب اسکول میں داخل کرانے کا مرحلہ آیا تو شرط یہ تھی کہ بچے کو اردو آتی ہو۔

رشید امجد کے والد نے دیواروں پر لگے اشتہاروں کے لفظ سکھائے ۔ گھر میں اردو بولی جانے لگی اور اس طرح تیسری جماعت میں ان کا داخلہ پاکستان گرلز ہائی اسکول میں ہوا۔

آٹھویں جماعت کا امتحان اس اسکول سے پاس کیا۔ پھر انہیں ڈر نیز ہائی اسکول میں داخلہ مل گیا ۔

یہ وہ دور تھا جب رشید امجد کے گھر یلو حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تھے۔

معاشی نا آسودگی سے تنگ آکر رشید امجد پڑھائی سے راہ فرار اختیار کرنے لگے اور ایک دفعہ گھر سے بھاگنے کی کوشش بھی کی۔

گھر کے برتن چرا کر بیچنے کی عادت پڑگئی۔ 1955 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، اور گورنمنٹ کالج اصغر یال چلے گئے ۔

یہاں ان کی ملاقات استاد غلام رسول سے ہوئی۔ ان کی صحبت میں رہ کر مصنف نے بہت کچھ سیکھا ان کے ساتھ مل کر ادیب فاضل ، ایف اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔

کتاب میں رشید امجد نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اپنی رنگین مزاجی کا ذکر کیا ہے ۔

ابتدائی عمر سے انہیں اپنے سے بڑی خواتین کو خط لکھنے کی عادت پڑ گئی تھی۔

مصنف اپنی استانیوں کو خط لکھتے رہتے تھے۔ ان کے دل میں محبت کا یہ جذ بہ عجیب و غریب انداز میں جلوہ گر ہوتا تھا۔

خود نوشت میں انھوں نے کئی ایسے واقعات کا ذکر صاف گوئی سے کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

"حلقہ میں ایک خاتون با قاعدگی سے آئی تھیں۔ بنیادی طور پر وہ موسیقی سے مسلک تھیں۔

شعر بھی کہتی مگر اتنا ہی کہ مصرعہ وزن میں ہوتا۔ ستار بہت اچھا بجاتی تھیں۔ مجھے اس کی شخصیت سے نہیں ستار سے بڑا لگاؤ تھا۔

شروع شروع میں میں اور شبنم متاوری اس کے گھر جاتے اور دیر تک سنتے رہتے۔

پھر میں اکیلا جانا شروع ہو گیا۔ وہ ستار بجاتی اور میں گم ہو جاتا۔

اس کے ماں باپ بوڑھے تھے۔ بہین بھائی ملک سے باہر جا چکے تھے۔

اور وہ اکیلی ان کے ساتھ رہ رہی تھی ۔ وہ ایک عجیب طرح کی نفسیاتی مریض تھی۔

پل میں اھر دوسرے میں میں اُدھر۔ مجھے ایسے لوگوں سے تعلقات میں مزا آتا ہے۔

آہستہ آہستہ ہمارے تعلقات ہوتے گئے اور میں اکثر اسے لے کر سلور گرل چلا جاتا۔

وہاں گھنٹوں چائے پیتے موسیقی اور شعر پر گفتگو ہوتی رہتی ۔ وہ سگریٹ بہت پیتی تھی۔

میں تو نہیں پیتا تھا لیکن اس کے لیے مہنگے سگریٹ خریدتا اسے پیش کرتا سکگا کر دیتا۔

اس زمانے میں غیر ملکی مگر یہی منگوانا۔ مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ میرا اس کا تعلق کسی نوعیت کا تھا۔

اس ایک تیز ہوا تھی کہ ہمیں اڑائے لے جارہی تھی ۔”

رشید امجد نے کتاب میں ایسے عجیب و غریب معاشقوں کے بارے میں کئی واقعات رقم کیے ہیں

مگر اپنی از دواجی زندگی کا تذکرہ ز یادہ تفصیل سے نہیں کیا ہے۔

اپنی شریک حیات رخسانہ کا خود نوشت میں ذکر کرتے ہوئے اس طرح رقمطراز ہیں:

"ہماری محبت میں عشق کا سر پھرا پن ہے۔ ہم ایک دوسرے سے لڑتے بھی ہیں لیکن ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔

رخسانہ کی محبت اور توبہ میری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔

ایک حوالے سے ہم دونوں آئیڈیل میاں بیوی ہیں اور اتنے بے تکلف کہ دل کی ہر بات ہر راز ایک دوسرے سے کہہ دیتے ہیں ۔

نہ کبھی میں نے اس سے کچھ چھپایا اور نہ کبھی اس نے مجھ سے۔

ایسی ایسی باتیں، جدبے جو آدمی اپنے آپ سے بھی کہتے ڈرتا ہے، میں اس سے کہہ دیتا ہوں او ریہی سچائی ہمارے خلوص کی علامت بھی ہے۔ "

رشید امجد نے اس کتاب میں اپنے عہد کے ادبی منظر نامے پر خاصی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

انھوں نے مختلف ادوار کی ادبی تحریکوں کا ذکر بھی کیا ہے۔

طالب علمی کے زمانے سے ہی جن ادبی شخصیات کے ساتھ ان کا واسطہ رہا ان سے تعلقات کی پوری روداد خود نوشت کے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت عطا کرتی ہے۔

کتاب میں انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کی ادبی خدمات کا خاصی طور پر ذکر کیا ہے۔

حلقے کے مختلف اجلاسوں کی روداد پیش کرتے ہوئے واقعات کو نہایت تفصیل کے ساتھ رقم کیا ہے۔

جن اشخاص کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سعادت حسن منٹو، پریم چند، ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شباب ، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ جمیل جالبی ، وحید قریشی ، ضیا جالندھری ، ڈاکٹر انور سدید،

جمیل یوسف، کشور تا بید، پروین شاکر، اعجاز رانی جمیل آزر ، حسن عباس رضاء احسان اکبر، یوسف حسن، مرزا حامد بیگ، احمد جاوید اور اکبری حمیدی اہم ہیں۔

رشید امجد نے ادب کی ترویج و فروغ میں مختلف ادبی جرائد کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔

اوراق اور شب خون ان کی ادبی پہچان بنانے میں کافی مفید ثابت ہوئے ۔

اوراق کے حوالے سے ان کا ماننا ہے کہ اس کے اداریوں نے جدیدیت کے وہ رہنما اصول وضع کیے جس نے کئی انتہا پسندوں کو اعتدال کی راہ دکھائی ۔

اور ان کے حوالے سے مصنف نے ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کی معاصرانہ چشمک میں وہ وزیر آغا کا ساتھ دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں احمد ندیم اور وزیر آغا کے درمیان پائی جانے والی اس تلخی کا خاتمہ ممکن ہے

لیکن بعض مفاد پرست ادیب اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ "فنون” سے وابستہ اہل قلم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں

جن کے باعث صلح کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

کتاب میں مصنف نے اپنے شعبہ کے تدریس کے ساتھ وابستہ رہنے کا ذکر بڑے فخر کے ساتھ کیا ہے۔

اور اس شعبہ سے وابستگی کو اپنی خوش بختی قرار دیتے ہوئے اس کی خوبیوں سے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔

اپنے مختلف تعلیمی مراحل بالخصوص ڈاکٹریٹ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے وزیر آغا کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

مقالہ لکھنے کے دوران ان کو مختلف لائبریریوں کا رخ کرنا پڑا ۔ کتاب میں ان لائبریریوں کے احوال بھی رقم کیے ہیں۔

تمنا بے تاب میں رشید امجد نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو اپنے منفرد اور مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کیا ہے۔

سیاست میں ذوا والفقار علی بھٹو سے خاصے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔

ملک میں بار بار لگانے والے مارشل لاء کو ملک کی ترقی اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے نہایت خطرناک شعور تصور کرتے ہیں۔

خاص طور پر انھوں نے اس کتاب میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس کے علاوہ اس دور میں ادیبوں اور شاعروں پر لگائی جائے والی پابندیوں پر اپنے بھرپور احتجاج کی تفصیلات لکھی ہیں۔

رشید امجد نے غیر جانب داری سے بنا کسی ڈر اور ہیکچاہٹ سے پاکستانی حکمرانوں اور بڑے بڑے افسران کے دھاندلیوں کی جھلک اس کتاب میں دکھائی ہیں ۔

رشید امجد لکھتے ہیں:

"گزشتہ دنوں میں ذکرا یو نیورسٹی ملتان میں گیا تو ایک شام ملک ظفر نے ایک حیرت انگیز بلکہ نا قابل یقین واقعہ سنایا۔

انھوں نے بتایا کہ پنجاب کے ایک گورنر صاحبان عالیشان میں سے تھا، بہاول پور کے علاقے میں مربعے الاٹ ہوئے۔

ایک دن گورنر نے کمشنر بھاول پور سے فون پر پوچھا کہ ان مربعوں کی مالیت کیا ہوگی کمشنر نے یونہی نمبر بنا کے کہہ دیا

سر تقریبا ایک کروڈ گورنر نے کہا تو ایک ہفتہ میں مربعے بیچ کر کروڑ روپے انہیں بھجوادیے جائیں۔

کمشنر کو مصیبت پڑگئی رات کو بینک پر ڈاکا پڑا اور دو کروڑ لوٹے گئے۔

ایک کروڑ تو گورنر کو بھیج دیئے گئے اور ایک کروڑ متعلقہ انتظامیہ میں بٹ گئے۔

صبح چوری کا پرچہ درج ہو گیا۔ کچھ عرصہ ذکر اذکار ہوا پھر داخل دفتر”

اس خود نوشت میں جہاں مصنف نے اس دور میں ہوئی بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ جیسے واقعات سے پردہ اٹھایا ہے وہیں ایک دانش مندانہ فکر انگیز اقتباس کتاب میں تحریر کر کے مسائل کے حل نکلنے کی کوشش بھی کی ہے۔

کتاب کے اختتام پر رشید امجد اس طرح رقمطراز ہیں:

"ہم اپنی قومی تاریخ کی غلطیوں اور ناکامیوں کا ذکر تو بڑے زور وشور سے کرتے ہیں

لیکن ہم نے کبھی سجیدگی سے ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی

جو ان ناکامیوں کی بڑی وجہ ہیں۔ نظام کی خرابی کا رونا بہت رویا جاتا ہے۔

لیکن یہ خرابی ہے کیا ؟ میرے نزدیک بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہم ابھی تک نو آبادیاتی نظام میں رہے ہیں۔

نو آبادیاتی انتظام سامراج نے اپنی سہولتوں کے لیے وضع کیا تھا۔ ب

پچاس سال گزرنے کے بعد بھی ہم نے اس پر غور نہیں کیا ۔ اگر کوئی تبدیلی ہوئی بھی تو وہ وقتی تھی ۔

یوں ہم نے وقت گزارنے کی پالیسی کو اپنا کر اس نظام کے تسلسل کو برقرار رکھا۔

میں اس نظام کا شکار ہوں اور میں نے اپنے حوالے سے اس پر کچھ سوچ بچار بھی کی ہے۔ میرے نزدیک تین شعبے جن میں بنیادی تبد یلی لائے بغیر ہماری تعمیر تو نہیں ہوسکتی، تعلیم، پولیس اور عدلیہ ہیں "

تمنا ہے تاب ” اردو ادب کی خود نوشت میں اپنے انداز اسلوب کے ساتھ ساتھ اپنی پیش کش میں بھی منفرد ہے۔

ڈاکٹر رشید امجد نے معروف خود نوشتوں کی طرح اس میں نہ تو ابواب بنائے اور نہ ہی سرخیاں اور ذیلی سرخیاں ، خالص ادبی انداز میں تمہید کے ساتھ اپنی پیدائش سے بات شروع کرتے ہیں۔

ایک طویل مضمون کی صورت میں اپنی زندگی کی داستان بیان کرتے ہوئے وہ اس سے جڑے واقعات ، خیالات اور تجزیے پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔

کہیں رکتے نہیں اور نہ مڑ کر پیچھے دیکھتے ہیں، بس آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

وہ ایک راوی کی حیثیت سے کہانی بیان کرتے ہیں، جس میں رنگ رنگ کے منظر اور کئی طرح کے الجھے موڑ آتے ہیں،

مگر دو ایک ستھرے اور نکھرے ہوئے اسلوب بیان میں ان سے گزر جاتے ہیں۔ اسی طرح قاری بھی اس میں کھو کر پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

یہ خود نوشت اپنے دور کی سیاسی ، ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں پر مبنی ہے۔

جس میں مصنف نے دیانت داری سے ہر چیز کی وضاحت کی ہے اس کتاب میں قاری تلخ سچائیوں سے واقف ہو جاتا ہے۔

یہ کتاب اردو ادب میں اہمیت کی حال ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں