خواجہ میر درد کی غزلیات کا تنقیدی جائزہ

1کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو شاعری 1
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5607
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ میر درد کی غزلیات
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 62تا 80
مرتب کردہ ۔۔ کوثر بیگم خواجہ میر درد

خواجہ میر درد کی غزلیات

سید خواجہ میر نام اور درد تخلص تھا۔ 21-1720ء میں دلی میں پیدا ہوئے ۔ ان کا سلسلئہ نسب خواجہ بہاؤالدین سے ملتا ہے۔ ان کے والد خواجہ ناصر عندلیب بڑے پائے کے بزرگ اور فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے۔

خواجہ میر درد نے والد کی آغوش تربیت میں تمام علوم کی تکمیل کی۔ وہ قرآن حدیث فقہ اور تصوف میں دستگاہ رکھتے تھے۔ انہوں نے فوجی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ چنانچہ کچھ دنوں شاہی فوج میں ملازمت بھی کی تھی۔ جوانی میں دنیاوی معاملات میں حصہ لیتے رہے اور اپنی جاگیر کے کاموں کو بھی دیکھتے تھے۔

خواجہ صاحب نے اٹھائیس برس کی عمر میں دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور خانقاہ میں آبیٹھے۔ اور ایسے بیٹھے کہ دلی بڑے بڑے انقلابات ان کے پائے استقلال کو جنبش نہ دے سکے۔ انقلاب زمانہ نے میر سودا ضاحک میر حسن انشا اور مصحفی جیسے بڑے بڑے نامی شعراء کو ترک وطن کرنے پر مجبور کر دیا لیکن درد کا تو کل اسفنا اور رضائے الہی کا جذبہ اس پائے کا تھا کہ دہلی سے قدم باہر نہیں نکالا۔ اور یہیں 1785ء میں پیوند خاک ہوئے۔

درد کو تصنیف و تالیف کا شوق کمسنی سے تھا۔ تصوف کے موضوع پر فارسی میں کئی رسالے قلمبند گئے تھے۔ فارسی میں بھی دیوان ہے۔ اردو کا دیوان نہایت مختصر ہے لیکن منتخب ۔ اس میں رطب و پاس بالکل نہیں بقول میر حسن ” اس اعتبار سے خواجہ صاحب کا کلام حافظ شیرازی کے کلام کی یاد دلاتا ہے “۔ اسے اردو شاعری کا ہیرا سمجھنا چاہئیے۔

خواجہ میر درد کی تصنیفات حسب ذیل ہیں :

رساله اسرار الصلوة واردات درد معلم الکتاب ناله درد آو سر و در و دل ، شمع محفل ، واقعات درد

حرمت غنا دیوان فارسی دیوان اردو و غیرہ۔

خواجہ صاحب کے بہت سے شاگرد تھے۔ ان میں قائم چاند پوری ہدایت حکیم ثناء اللہ فراق اور سید محمد میر اثر اعلیٰ پائے کے شاعر شمار ہوتے ہیں۔ یہ سب صاحب دیوان تھے۔

خواجہ میر درد ایک باکمال صوفی اور بلند مرتبت شاعر تھے۔ ان کی شاعری کا لب ولہجہ صوفیانہ ہے۔

انہوں نے خانقاہی ماحول میں آنکھ کھولی اور تصوف کی گود میں پل کر جوان ہوئے اس لئے وہ صوفی پہلے تھے اور شاعر بعد میں ۔ شاعری ان کے لئے لطف سخن یا تفنن طبع کا آلہ کار نہ تھی بلکہ یہ ایک وسیلہ تھی شدت جذبات کے اظہار کا قلبی واردات کے بیان کا اور حقائق و معارف و سلوک کے ابلاغ کا۔ خواجہ میر درد کی شاعری میں وہ سکون ، ٹھر اؤ اور رکھ رکھاؤ موجود ہے جو کسی صوفی کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک صوفی کی حیثیت میں حادثات زمانہ سے نہ خود زیادہ متاثر ہوئے نہ کوئی ایسا تاثر ان کے کلام میں ملتا ہے۔ نہ

تصوف میں درد کو جو بلند مقام حاصل تھا اس کا اندازہ تذکرہ نگاروں کی تحریروں سے موٹی لگایا جاسکتا ہے۔ میر حسن جیسے بلند مرتبت شاعر نے ”تذکرۃ الشعراء “ میں درد کے دل آگاہ کو اسرار خدائی کا مخزن اور ان کے باطن کی صفائی کو کعبہ کبریائی کی محرم قرار دیا ہے۔ میر تقی میر نے اپنے تذکرے ”نکات الشعراء ” میں خواجہ میر درد کے پاک انفاس فیضان کا اعتراف کیا ہے اور انہیں قافلہ عرفان کا خضر بتایا ہے۔ درد کی عظمت و مقبولیت کو دیکھتے ہوئے احمد علی یکتا نے ”دستور الصاحت “ میں لکھا ہے کہ ” ہند کا ذرہ ذرہ انہیں مثل آفتاب جانتا ہے۔“

یہ حقیقت ہے کہ شاعری اور تصوف دونوں چیزیں انہیں میراث پدری کے طور پر ملی تھیں اور انہوں نے ان قیمتی ورثوں کو اپنے ریاض سے عظمت عطا کی۔ انہوں نے کسی بادشاہ یا امیر ریاست کی شان میں کبھی قصیدہ قلمبند نہیں کیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اپنے ہم عصر شعراء کی طرح موصوف نے بھی بھی بجو سے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کیا۔ وہ صاف ستھری شاعری کے قائل تھے اور تمام زندگی اپنے اصول پر قائم رہے

اپنی شاعری کے متعلق خواجہ صاحب خود رقمطراز ہیں۔

فقیر نے کبھی شعر آور د سے موزوں نہیں کیا کبھی
کسی کی مدح نہیں کی نہ ہجو لکھی اور نہ فرمائش سے شعر کہا "۔ ی صفات ایک صوفی باصفا کی ہوتی ہیں۔ انہی اوصاف کی بدولت درد کا کلام متصوفانہ ہے۔ ان کی
صوفیانہ شاعری کو اردو ادب میں جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔ ان کا متصوفانہ خلوص اور ان کی صداقت اشعار میں جلیاں بھر دیتی ہے۔ ان کے غزلیہ اشعار میں عشق حقیقی کی چاشنی اور مشاہدہ کی پختگی پڑھنے والے کو بے حد متاثر کرتی ہے اس کی تمام تروجہ یہ ہے کہ اردو کے اکثر شعراء نے تصوف کو نظری طور پر قبول کیا تھا جبکہ درد نے اسے عملی طور پر اختیار بھی کیا اور بر تا بھی۔ انہوں نے تمام عمر خانقاہ میں میں گزاری اور ایک با عمل صوفی کی طرح جادہ تصوف پر گامزن رہے۔ گو یادہ تصوف کی تمام منازل سے عملی طور پر گزرے تھے چنانچہ ان کی غزلوں میں صوفیانہ عناصر کی کامیاب پیشکش کا باعث ان کا یہی تجربہ ہے۔

خواجہ میر درد بلا شبہ ایک بڑے غزل گو تھے۔ لیکن اکثر نقادوں نے درد کو صرف صوفی شاعر کہہ کر آگے گزر جانے کی روش اپنا کر ان کی شاعری کا محض ایک رخ دیکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ درد کی شاعری میں تصوف اور تغزل کا ایک ایساد لفریب اور دلآویز امتزاج ہے کہ باید و شاید !

اس کلیے سے سر مو انحراف ممکن نہیں کہ درد نے تصوف کی خشکی کو تغزل کی چاشنی دے کر اس کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ اردو کے اعلیٰ غزل گو شاعروں میں ان کا مقام نمایاں اور واضح دکھائی دیتا ہے۔ اور اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ اعلیٰ پائے کے نقاد بھی اس رائے کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتے کہ درد کے تغزل میں مجازی عشق کو کہیں جگہ نہیں ملتی۔ افسوس ہے کہ تذکرہ نگاروں اور بعد کے نقادوں نے لکھ دیا کہ درد کی غزلوں میں سوائے تصوف اور داد کی مجلیوں کے اور کچھ نہیں ! اس طرح معرفین نے درد کی شاعری کا افق بے حد محدود کر دیا ہے۔ یہ کسی نے دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ ان کی شاعری میں دنیاوی عشق بھی جلوہ گر ہے۔ درد آخر انسان تھے اور انسانی جذبات رکھتے تھے ۔ ان کے یہ جذبات ان کی عشقیہ شاعری میں بلا شک و شبہ جھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی بلا تامل اس رائے کا اظہار کرتے ہیں

خواجہ میر درد کے کلام کو مروجہ تنقیدی بیانات سے الگ ہو کر بر اور است پڑھا جائے اور غورو خوض سے کام لیا جائے تو ان کے کلام کا بہت بڑا حصہ ایسا ملے گا جس کا تصوف و معرفت یا تو کل و فنا کے مسائل سے تعلق نہیں اور نہ ہی محبوب حقیقی یا مر شد کی محبت کا جلوہ ہے۔“

گویا درد کے کلام میں مجازی عشق کا تصور بھی نمایاں ہے اور دنیاوی محبوب کا جلوہ بھی جلوہ گر ہے۔

ثبوت میں یہ غزل دیکھیں ۔

تو ان کے گھر سے کل گیا تھا

اپنا بھی تو جی نکل گیا تھا.

آنسو جو جو مرے انہوں نے پونچھے کیا کل دیکھ رقیب جل گیا تھا

شب تک جو ہوا تھا وہ ملائم

اپنا بھی تو جی پکھل گیا تھا

صورتوں میں خوب ہونگی شیخ کو حور بهشت

پر کہاں یہ شوخیاں یہ طور یہ محبوبیاں

اردو غزل کو بنانے اور سنوارنے میں خواجہ میر درد کا حصہ میر تقی اور مرزا رفیع سودا سے کم نہیں۔ واضح رہے کہ سودا جو میر تقی کے کمالات شعری کے سامنے سرنگوں نہیں کرتے درد کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتی کہ حضرت کی شاعری کے ضمن میں یوں اپنی عقیدت کا اعتراف کیا تھا۔

سودا بدل کے قافیہ تو اس غزل کو لکھ اے بے ادب تو درد سے اس دو بدونہ ہو

خواجہ میر درد غزل گوئی میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے شعری اصناف میں صرف غزل کی صنف کو برتا۔ ان کے تغزل کا موضوع روائتی عشق نہیں بلکہ تصوف اور معرفت الہی ہے۔ وہ عشق حقیقی کے جلوؤں میں ہمیشہ مستغرق رہے۔ چنانچہ موصوف نے معاملات عشق کو حقائق سلوک سے اس عمدگی سے ہم آہنگ کیا ہے کہ ان سے قبل یہ چیز نہیں نظر نہیں آئی۔ بعد میں آنے والے شعراء نے میر دود کا تتبع لازم جانا اور اس منفرد اسلوب کو آب و تاب بخشی۔

درد کے غزلیہ ن کی بے تکلفی پائی جاتی ہے ۔ وہ نامانوس الفاظ اور روز از کار تشبیہات سےشہ اجتناباتندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے ک مرلے

کوئی بھی نقاد اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ درد کی شاعری ان کے خلوص اور حقیقی محسوسات کی آئینہ دار ہے ۔ ان کا کلام بے حد ہموار ہے۔ اس میں بے اختیاری اور سپردگی ہے۔ انہوں نے عشق حقیقی کے ذکر میں وہی گرمی اور لطف پیدا کیا ہے جسے لوگ عشق مجازی تک محدود سمجھتے تھے۔

درد کو موسیقی سے فطری لگاؤ تھا اسی لئے ان کے اسلوب غزل میں ایک خوشگوار موسیقیت روانی اور الفاظ کا بہترین انتخاب نظر آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی :

ل میں ملائم روز مرہ کے لفظوں سے یہ ایسا سادہ لیکن پر کار نقش کھینچ دیتے ہیں جو میر کی یاد دلاتا ہے۔“

سودا بدل کے قافیہ تو اس غزل کو لکھ اے بے ادب تو درد سے اس دو بدونہ ہو

خواجہ میر درد غزل گوئی میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے شعری اصناف میں صرف غزل کی صنف کو برتا۔ ان کے تغزل کا موضوع روائتی عشق نہیں بلکہ تصوف اور معرفت الہی ہے۔ وہ عشق حقیقی کے جلوؤں میں ہمیشہ مستغرق رہے۔ چنانچہ موصوف نے معاملات عشق کو حقائق سلوک سے اس عمدگی سے ہم آہنگ کیا ہے کہ ان سے قبل یہ چیز نہیں نظر نہیں آئی۔ بعد میں آنے والے شعراء نے میر دود کا تتبع لازم جانا اور اس منفرد اسلوب کو آب و تاب بخشی۔

درد کے غزلیہ اشعار میں زبان کی سلاست اور بیان کی بے تکلفی پائی جاتی ہے ۔ وہ نامانوس الفاظ اور روز از کار تشبیہات سے ہمیشہ اجتناب برتتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کی وبان عام بول چال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب درد کی وفات سے کوئی دو سو سال بعد اردو زبان میں ”زندگی یا طوفان ” کے نام سے فلم بینی تو نہ صرف اس کا نام ان کی غزل کے ایک شعر سے مشتق تھا بلکہ موصوف کی پوری غزل اس طرح موسیقی کی دھن میں پیش کی گئی کہ بر صغیر پاک و ہند کے چنتے چنے پر اس کا پرچم لہرانے لگا :

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کوئی بھی نقاد اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ درد کی شاعری ان کے خلوص اور حقیقی محسوسات کی آئینہ دار ہے ۔ ان کا کلام بے حد ہموار ہے۔ اس میں بے اختیاری اور سپردگی ہے۔ انہوں نے عشق حقیقی کے ذکر میں وہی گرمی اور لطف پیدا کیا ہے جسے لوگ عشق مجازی تک محدود سمجھتے تھے۔

سودا بدل کے قافیہ تو اس غزل کو لکھ اے بے ادب تو درد سے اس دو بدونہ ہو

خواجہ میر درد غزل گوئی میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے شعری اصناف میں صرف غزل کی صنف کو برتا۔ ان کے تغزل کا موضوع روائتی عشق نہیں بلکہ تصوف اور معرفت الہی ہے۔ وہ عشق حقیقی کے جلوؤں میں ہمیشہ مستغرق رہے۔ چنانچہ موصوف نے معاملات عشق کو حقائق سلوک سے اس عمدگی سے ہم آہنگ کیا ہے کہ ان سے قبل یہ چیز نہیں نظر نہیں آئی۔ بعد میں آنے والے شعراء نے میر دود کا تتبع لازم جانا اور اس منفرد اسلوب کو آب و تاب بخشی۔

درد کے غزلیہ اشعار میں زبان کی سلاست اور بیان کی بے تکلفی پائی جاتی ہے ۔ وہ نامانوس الفاظ اور روز از کار تشبیہات سے ہمیشہ اجتناب برتتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کی وبان عام بول چال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب درد کی وفات سے کوئی دو سو سال بعد اردو زبان میں ”زندگی یا طوفان ” کے نام سے فلم بینی تو نہ صرف اس کا نام ان کی غزل کے ایک شعر سے مشتق تھا بلکہ موصوف کی پوری غزل اس طرح موسیقی کی دھن میں پیش کی گئی کہ بر صغیر پاک و ہند کے چنتے چنے پر اس کا پرچم لہرانے لگا :

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کوئی بھی نقاد اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ درد کی شاعری ان کے خلوص اور حقیقی محسوسات کی آئینہ دار ہے ۔ ان کا کلام بے حد ہموار ہے۔ اس میں بے اختیاری اور سپردگی ہے۔ انہوں نے عشق حقیقی کے ذکر میں وہی گرمی اور لطف پیدا کیا ہے جسے لوگ عشق مجازی تک محدود سمجھتے تھے۔

درد کو موسیقی سے فطری لگاؤ تھا اسی لئے ان کے اسلوب غزل میں ایک خوشگوار موسیقیت روانی اور الفاظ کا بہترین انتخاب نظر آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی :

ل میں ملائم روز مرہ کے لفظوں سے یہ ایسا سادہ لیکن پر کار نقش کھینچ دیتے ہیں جو میر کی یاد دلاتا ہے۔“

خواجہ میر درد کو جن مضامین سے دلچسپی تھی ان کا تعلق عرفان نفس ، معرفت کردگار ، مقصد حیات اور قرب الہی سے ہے۔ ان موضوعات کے بیان میں خواجہ صاحب کا انداز فلسفیانہ ہے۔ ان کے اشعار حکمت و تصوف کے انمول موتیوں کا خزانہ قرار دیئے جا سکتے ہیں ۔

خواجہ میر درد کی زیادہ تر غزلیں چھوٹی بحروں میں لکھی گئی ہیں۔ ان معاملے میں وہ نا خدائے سخن میر تقی میر پیچھے نہیں رہے۔ کم سے کم الفاظ میں ایک بلند خیال کر ادا کر نا فن معراج ہے اور خواجہ میر درد ہمیں اس بلندی پر نظر آتے ہیں۔ غرض زبان بیان اور متن تینوں حیثیتوں سے درد کی شاعری اتنی بلند ہے کہ آتا اس کے بغیر اردو ادب کا مطالعہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ محمد حسین آزاد نے ” آب حیات میں خواجہ صاحب کی شاعری کا جو محاکمہ کیا ہے ہم یہاں اسے نقل کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

خواجہ میر درد صاحب کی غزل سات شعر نو شعر کی ہوتی ہے ، مگر انتخاب ہوتی ہے۔ خصوصاً چھوٹی چھوٹی بحروں میں جو اکثر غزلیں کہتے تھے گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دیتے تھے۔ خیالات ان کے سنجیدہ اور متن تھے۔ کسی کی ہجو سے زبان آلودہ نہیں ہوئی۔ تصوف جیسا انہوں نے کہا اردو میں آج تک کسی سے نہ ہوا

سمجھتے ہیں : آخر میں ہم کاشف الحقائق ” کے مصنف نواب امداد اثر کی مندرجہ ذیل رائے دہرادینا ضروری

درد اور کسک میں سوز و گداز میں درد کی غزلیں میر کی غزلوں کے دوش بدوش ہیں فرق یہ ہے کہ میر کے یہاں ایک مخستگی اور کھلی ہوئی سپردگی ہے اور درد اپنے کو لئے دیئے رہتے ہیں۔“

2.1 غزل نمبر 1

2- تشریحات

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا مرا نچہ دل ہے وہ دل گرفتہ د کہ جس کو کسی نے کبھو وانہ دیکھا اذیت مصیبت علامت بلائیں ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا ، نہ دیکھا حجاب رخ یار تھے آپ کی کھلی آنکھ جب کوئی پروا نہ دیکھا

تشریح

شعر نمبر 1

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

جلوہ فرما ظاہر ہوتا۔ نمودار ہوتا۔

درد اس شعر میں ذات بار الٹی سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس دنیا میں آنے کے بعد اور کا ئنات کے تمام جلوے دیکھے اور جملہ محاسن کا معائنہ کیا۔ مگر یہ سارا مشاہدہ بیچے۔ اگر میں نے ہاں تیری ذات والا صفات کا نظارہ نہ کیا۔ ایسی صورت میں دنیا کا دیکھنا نہ دیکھن دونوں میرے لئے برابر ہے۔ معرفت کا یہ شعر ظاہری سادگی اور معنوی گہرائی کی بدولت اہل صوفیا کے یہاں خاصی قدر و اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔

شعر نمبر 2

مره غنچہ دل ہے وہ دل گرفتہ کہ جس کو کسی نے کبھو وا نہ دیکھا

دل گرفته = رنجیده غمگین، مغموم

وات کھلا ہوا

کبھو ۔ کبھی

اس شعر میں شاعر اپنے دل کو ایک ایسی کلی سے تشبیہ دے رہا ہے جو وفور رنج و ملال سے اندر ہی و اندر گھٹتی رہی ہے اور اس کی قسمت میں کبھی کھلنا اور پھول بن کر لہلمانا نصیب نہیں ہوا۔ انسانی زندگی کی حرماں نصیبی اور دل گرفتگی کی جانب بلیغ اشارہ کیا گیا ہے۔ اس دنیا میں انسان کیا کیا خواہشیں اور تمنائیں نہیں رکھتا لیکن اسے ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شعر نمبر 3

اذیت ، مصیبت سلامت بلائیں ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

اذیت = تکلیف دکھ مصیبت

ملامت = سرزنش العن طعن بر ابھلا

شعار اس شعر میں محبوب سے مخاطب ہو کر اپنی حالت و کیفیات کا بر ملا اظہار کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے تجھ سے بے ریا محبت کی سچا عشق کیا اور بھی پر جان دیتارہا۔ اپنا سکون ، چین ‘ سب کچھ تجھ پر نچھاور کر دیا۔ مگر میری ساری قربانیوں کا یہی صلہ ملا کہ اذیت پر اذیت دی جاتی ہے، مصیبت کا سامنا ہے ، لعن طعن کیا جاتا ہے اور نت نئی بلائیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ بادی النظر میں درد عشق و محبت کے انجام کو نہایت فلسفیانہ انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ باور کرارہے ہیں کہ دنیا کی میں ریت ہے محبت کا کیسی انجام ہے۔

شعر نمبر 4

تفافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا

تغافل = بے توجہی کے التفاتی جان بوجھ کر غفلت کرنا

ا شاعر کہتا ہے کہ تیرے طرز تغافل اور بے رخی کی وجہ سے میری جان ضبیق میں آئی ہوئی ہے۔ زندگی دو بھر ہے۔ سکون واطمینان نا پید ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ تو نے لمحہ بھیر کو بھی آکر میری حالت زار کا مشاہدہ نہ کیا۔ تیری ہی بدولت میرا حال دگر گوں ہوا ہے لیکن تو ہی بے التفاتی برت رہا ہے۔ تجھے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ تیرے عشق میں مبتلا تیری محبت کا دم بھر نے والا کس کرب والم سے دو چار ہے۔

شعر نمبر 5

حجاب = پردا

حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم کھلی آنکھ جب کوئی پروا نہ دیکھا

معرفت کا یہ شعر نہایت فلسفیانہ مضمون کو پیش کر رہا ہے ۔ جب تک انسان کی آنکھ پر غفلت شعاری اور ہوس دنیا کا پردہ حائل ہوتا ہے وہ تجلیات الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ بقول درد انسان جلوہ محبوب کے سامنے خود ہی حجاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن جب غفلت کا پردہ ہٹ جاتا ہے، جب آنکھ حقیقی معنوں میں وا ہو جاتی ہے تو پھر محبوب و محبت کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں رہتا۔ اہل صوفیا کے نظریے کو نهایت سادگی اور پر اثر انداز میں پیش کر دیا گیا ہے۔

3.2 غزل نمبر 2

ہم نے کسی رات ناله سرنہ کیا

سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما

دیکھنے کو رہے ترستے ہم پر اسے آہ نے اثر نہ کیا نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا

اس طرف کو کبھو گذر نہ کیا-

کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ

خانه آباد تو نے گھر نہ کیا

تجھ سے ظالم کے سامنے آیا

جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا

تشریح

شعر نمبر 1

ہم نے کسی رات نالہ سر نہ کیا پر اسے آہ نے اثر نہ کیا

نالہ سر کرنا ۔ آہ کرنا۔ گریہ وزاری کرنا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے فراق میں ہر رات آہ وزاری میں بسر ہوتی ہے۔ کوئی ایسی شب نہیں گزرتی جب میرے رونے دھونے اور آہ و فغاں کرنے کا سلسلہ رکا ہو۔ مگر افسوس کہ میری گریہ زاری اور آہ و بکا نے اس ظالم پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اس کا دل میری حالت زار پر ذرہ بھر بھی نہیں پھیجا۔ درد کنایہ محبوب کے ظلم و تغافل کا شکوہ کر رہے ہیں اور بادی النظر میں انہوں نے عاشق کی بے بسی و حرماں نصیبی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔

سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا

شعر نمبر 2

کرم فرما = مہمان بننا تشریف لانا۔

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ تم ہر ایک کے گھر جاتے ہو اور مہمان بہلتے ہو۔ سکھوں کو اپنی تشریف آوری سے نوازتے ہو۔ لیکن ایک میراکل بہ اخزاں ہے جہاں تم بھی رونق افروز نہیں ہوئے۔ آخر میں بھی تو تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔ میں بھی تمہاری چاہت کا دعویدار ہوں۔ آخر یہ بے رخی کیوں ؟ میر گھرانے اور مجھ سے ملنے سے تم کیوں کتراتے ہو۔ میں کوئی غیر تو نہیں۔ تمہارا ہی عاشق اور تمہاری مالا

جینے والا ہوں۔

اشعر نمبر 3

دیکھنے کو رہے ترے ہم نہ کی رقم تو نے پر نہ کیا

پر نہ کیا ۔ لیکن / مگر نہ کیا۔

شاعر اس شعر میں محبوب سے مخاطب ہے اور اپنی اس کیفیت دل کا اظہار کر رہا ہے کہ تمہیں دیکھنے کو میں کب سے ترس رہا ہوں۔ روئے جاناں کے دیدار کی تمنا کتنے عرصے سے دل میں کروٹ لے رہی ہے۔ افسوس کہ تم نے اس عاشق کی کیفیت کا ذرا بھی ادراک نہیں کیا اور اپنے دیدار سے فیض یاب کر کے اسے مسرت و شادمانی عطا نہیں۔ میں تمہارے دیدار سے ہمیشہ محروم چلا آرہا ہوں اور یہ صورت حد درجہ دل گرفتہ ہے۔

شعر نمبر 4

کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ خانه آباد تو نے گھر نہ کیا

خانہ آباد = گھر بسانے والا ( یہاں مراد محبوب ہے )

حسن و جمال عشوہ و ادا سے گھائل ہو کر ہر ایک شخص نے اس سے محبت کی۔ گویا لفظ ” محبت ” ہی وہ اصل شے ا اس شعر میں لفظ "آہ کے استعمال بنے در حقیقت سارے حقائق بیان کر دیتے ہیں محبوب کے ہے جو انسان کے دل میں آباد ہو جاتی ہے۔ اور پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ اظہر من الشمس ہے یعنی اسی دل کی تباہی بربادی اور خاتمہ خرابی۔ درد نے لفظ ” آو” کے استعمال سے جو دنیائے معنی پیدا کر دی ہے وہ انہی کا ای

حصہ ہے۔

شعر نمبر 5

تجھ سے ظالم کے سامنے آیا جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا

تجھ سے = تیرے جیسا۔ تیری مانند

خطر نہ کیا۔ اندیشہ نہ کرنا۔

شاعر کہتا ہے کہ مجھے تیرے ظلم و ستم اندازہ تھا۔ یہ بھی علم تھا کہ تو اپنے عشوہ طرازی اور نازو ادا کے تیریر ساکر میرے دل کو کس کس طرح گھائل کر دے گا۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں نے تیرے سامنے آنے کی ہمت کی اور اپنی جان کا ذرا بھی اندیشہ نہیں کیا۔ دراصل وصال محبوب کی تمنا نے عاشق کو اس طرح بے چین و بے قرار کیا ہے کہ وہ ہر ظلم وجور اور جفا سنے کے لئے آمادہ ہو گیا اور محبوب کے سامنے بلا خوف خطر پیش ہو گیا۔ اگر بغور دیکھا جائے تو شاعر در پردہ محبوب کے ظلم و ستم کی کیفیت کو یہ انداز و گر اجاگر

کر رہا ہے۔

2.3 غزل نمبر 3

مدرسه یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثاب ہوا

حیف کہتے ہیں ہوا گلزار تاراج خزاں خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ہو گیا مہمان سرائے کثرت موہوم آو

ہم بھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا

آشنا اپنا بھی واں اک سبزہ بیگانہ تھا

وہ دل خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا

کر درد یہ مذکور کیا ہے ، آشنا تھا یا نہ تھا

بھول جا خوش رہ عبث ولے سابقے مت یاد

تشریح

شعر نمبر 1

مدرسه یا دیر تھا کعبہ یا بت خانہ تھا ہم بھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا

دیریت خانه سمت کده

مدرسہ بت کدہ اور کعبہ سے خواجہ میر درد کی مراد صرف یہی تین مقامات نہیں بلکہ پوری دنیا ہے۔ انہوں نے جزو سے کل مراد لیا ہے۔ بڑی معنویت اور گہرائی پیدا کر دی ہے۔

ہے – شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا کی ہر ہر منزل اور ہر ہر مقام پر خود کو دیکھتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہی اس دنیا کا مالک ہے اور اس کا قیام دائمی ہے لیکن جب یہاں سے کوچ کرنے کا وقت آتا ہے تب اسے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ یہ قیام تو عارضی تھا۔ اس کی حیثیت ایک مسافر کی تھی۔ یعنی اس دنیا سے انسان کا وہی تعلق ہے جو مسافر کا مہمان خانے سے ہوتا ہے۔ صاحب خانہ یا میزبان تو خدا کی ذات ہے جس نے دنیا کا یہ مہمان خانہ انسان کے لئے قائم کیا ہے۔ اس دنیا میں انسان کا قیام تو محض مسافرانہ ہے۔ اسے "کل من علیها فان“ کے مصداق یہاں سے روانہ ہو جاتا ہے۔

شعر نمبر 2

وائے افسوس

نادانی = نا سمجھی

وائے نادانی که وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

شاعر کہتا ہے کہ انسان کی سرشت میں یہ بات ہے کہ وہ اس جہاں کو حقیقی و دائمی سمجھنے لگتا ہے اور یہاں کی زندگی اور واقعات کو حقیقت قرار دے پھٹتا ہے۔ لیکن موت کے وقت یہ حقیقت اس کے سامنے آتی ہے کہ ساری عمیر اس نے دنیا میں جو کچھ دیکھا وہ خواب کا سا منظر تھا۔ اور خواب ہمیشہ خیالی ہوتا ہے۔ پھر اس نے دنیا میں جو باتیں سنیں وہ جھوٹے قصے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ گویا انسان اپنی زندگی کے دوران ان حقائق تک تو نہیں پہنچتا لیکن دنیا سے دائمی جدائی کے وقت اس حقیقت کا انکشاف اس پر ہوتا ہے۔ موت کے وقت اسے زندگی کے بارے میں نتیجہ معلوم ہوتا ہے مگر یہ شعور اور اک اس کے لئے لا حاصل ہوتا ہے۔

شعر نمبر 3

حیف = افسوس

حیف کہتے ہیں ہوا گلزار تاراج خزاں آشنا اپنا بھی واں اک سبزہ بیگانہ تھا

تاراج خزاں = خزاں کے ہاتھوں پر باد

سبزه بیگانه سبزه خود رو ( سبزہ کو اردو شاعری میں بے گا نہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین پر درختوں ، پودوں اور

پھولوں وغیرہ سے الگ ہوتا ہے۔)

شاعر کہتا ہے کہ لوگوں کو ہم نے یہ کہتے سنا ہے کہ خزاں کے ہاتھوں باغ لٹ گیا۔ ہمیں اس خبر سے انتہائی دکھ ہوا ہے کیونکہ باغ میں ایک ہمارا آشنا اور ملا قاتی تھا، یعنی سبز و یگانہ اس شعر کا لطیف پہلو یہ ہے کہ شاعر کو پھولوں اور درختوں کے لئے افسوس نہیں ہے بلکہ اس کا افسوس ہے کہ سبزہ بھی تاراج ہو گیا۔ اس افسوس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ سبزہ اور شاعر کی طبیعتوں میں ہم آہنگی ہے۔ دونوں اپنی اپنی محفلوں میں میگا نے سمجھے جاتے ہیں۔ دوسر ا سبب یہ ہے کہ سبز و نا حق بر باد ہوا۔

اس شعر کا ایک مطلب یہ تبھی ہے کہ باغ کے گل بوٹوں تک رسائی تو ہماری ہوئی نہیں تھی۔ مگر پیروں میں پڑے ہوئے سبزہ سے شناسائی تھی۔ افسوس کہ وہ بھی خزاں کی نذر ہو گیا۔

شعر نمبر 4

ہو گیا مہمان سرائے کثرت موہوم آه

وہ دل خالی که تیره خاص خلوت خانہ تھا

کثرت موہوم = دنیا کی مختلف چیز میں جو خیالی اور نا پائیدار ہیں۔ دنیا کے مختلف نقوش۔

شاعر کہتا ہے کہ کبھی ہمارے دل میں خدا کی تجلی اور جلوے کے علاوہ کوئی اور نقش موجود نہ تھا۔ ہمار ا دل ایک ایسی مقدس جگہ کی مانند تھا جسے خداوند قدوس کا خاص خلوت خانہ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اب اسی دل میں نا پائیدار دنیا کے اتنے نقش اور اتنے جلوے ہیں کہ وہ خاص ” تنہائی “ ان موہوم جلوؤں کی کثرت اور ہجوم سے ختم ہو کر رہ گئی ہے اور یہ دل ان بے ثبات نقوش اور عارضی جماہٹوں کا مرکز بن کر رہ گیا ہے۔ یہ صورت حال بے حد قابل افسوس ہے۔ بادی النظر میں شاعر یہ باور کر رہا ہے کہ انسان خدا کو بھول کر دنیاوی لہو و لعب میں پھنس گیا ہے اور اس نے نہاں خانہ دل کو ازلی جلوے کے بر عکس دنیاوی رنگینیوں سے

پر کر لیا ہے۔

شعر نمبر 5

بھول جا خوش رہ عبث وے سابقے مت یاد کر درد یہ مذکور کیا ہے ، آشنا تھا یا نہ تھا

وے وہ اب وہ کی جمع وے متروک ہے)

عبث = بے کار ۔

سابقے = پرانی جان پہچان۔ دوستی۔ واسطہ

مذکور = ذکر

شاعر کہتا ہے کہ کبھی عاشق کی زندگی میں مسرت ہی مسرت تھی۔ اپنے محبوب کے ساتھ اس کے شب و روز آرام و سکون کے ساتھ گزر ہے تھے ۔ لیکن وقت نے ایسی کروٹ لی کہ نہ تو وہ قربت رہی اور نہ دوست کا التفات بر قرار رہا۔ اب عاشق کو وہی ہیتے ہوئے دن بار بار یاد آتے ہیں اور اس پر ایک اداسی سی چھا جاتی ہے ایسی صورت حال میں وہ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ آخر یہ اداسی کیوں ؟ ۔ ماضی کو یاد کئے جانے سے کچھ حاصل نہیں۔ لہذا وہ دن بھول جا۔ اپنے آپ کو خوش رکھے ۔ گذشتہ قربت اور دوستی کو یاد نہ کر ۔ آخر اس ذکر سے کیا فائدہ کہ محبوب ہمارا دوست تھا۔ درد نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو کو بہت خوبصورت اور موثر انداز میں پیش کیا ہے۔

2.4 غزل نمبر 4

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں تر دامنی پر شیخ ہماری نہ جائیو !

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں . سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم

پر یہ کہاں مجال جو کچھ گفتگو کریں هر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول "

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہی اعتبار منہ پھیر نے وہ جس کے مجھے روبرو کریں کسی بات پر چمن ہوس رنگ و یو کریں

تشریح

شعر نمبر 1

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں

ہوس = خواہش۔ تمنا۔

شعر کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل ناکامیوں اور نا محرمیوں کے باعث میرا دل مجھ چکا ہے۔ اب اس میں پہلے جیسا حوصلہ اور ولولہ باقی نہیں رہا۔ چنانچہ کوئی نئی آرزو اور خواہش کی جستجو ملک سے کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس شعر میں دل کی پژمردگی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جب مسلسل ناکامی سے دل مجھ جاتا ہے تو نہ جینے کی دل مجھ تو امنگ رہتی ہے اور نہ کسی چیز کے حصول کی تمنا انگڑائی لیتی ہے انسانی زندگی کے المناک پہلو کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے۔

شعر نمبر 2

تر دامنی په شیخ نہ جائیو! دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

تر دامنی گناہ گاری۔ بد کاری بے عصمتی

شاعر شیخ سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ تم میری تر دامنی پر تہمت لگارہے ہو اور مجھے عاصی و گنگار قرار دے رہے ہو۔ لیکن سن لو کہ تمہاری نظر ظاہری باتوں پر ہے۔ تم باطن کو نہیں دیکھ سکتے ۔ اگر ہم اپنے اسی تر دامن کو چھوڑ دیں تو جوانی شیک و اتا پاکیزہ اور مقدس ہوگا کہ فرشتے اس سے وضو کریں گے۔ اس میں در اصل انسان کی عظمت کا اظہار ہوا ہے کہ گنہگار اور عاصی ہونے کے باوجود اس کا مقام بلند و بر تر ہے۔ نیز شیخ کی ظاہر داری پر لطیف طنز بھی کیا گیا ہے۔

شعر نمبر 3

سر تا قدم= سر سے پیر تک

جول = مانند

سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم پر یہ کہاں مجال جو کچھ گفتگو کریں

شمع کی لو کو زبان سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن یہ زبان خاموش ہوتی ہے۔ چنانچہ شاعر اس ترکیب کی رعایت سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں اگر چہ شمع کی طرح سر سے پیر تک زبان ہی زبان ہوں لیکن یہ مجال نہیں کہ اظہار مدعا کر سکوں۔ اپنی دیکر اں ہے کسی کا اظہار ہو رہا ہے کہ زبان ہونے کے باوجود نہ جذبات دروں ظاہر کر سکتے ہیں نہ ہی حرف مد غالب پر لاسکتے ہیں۔ زبان تو اظہار جذبات اور کیفیت قلبی کے بیان کے لئے ہوتی ہے۔ لیکن میر بد نصیبی دیکھئے کہ میں شمع کی طرح چپ ہوں اور گھلتا چلا جارہا ہوں۔ کچھ بول ہی نہیں سکتا

شعر نمبر 4

هر چند آئنیہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول, منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے رو برو کریں

نا قبول = نا پسند

روبرو سامنے

شاعر اپنی بے رضاعتی اور ناقدری کا اظہار کر رہا ہے یعنی میری ذات آئینہ کی طرح صاف شفاف اور چمک دار ہے۔ لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس کسی کے آگے میں پیش کیا جاؤں وہ مجھ سے منہ پھیر لے اور مجھے کسی صورت قبول نہ کرے۔ گویا اس طرح پہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ میں ہر ایک کی نظر میں نا پسندیدہ ہوں۔ اس دنیا میں میری ذرہ برابر کوئی حیثیت نہیں سب کی نگاہ میں خوار اور کمتر ہوں۔ یہ دراصل میر خرابی قسمت کا نتیجہ ہے۔ اس شعر میں صوفی شاعر درد نے اہل تصوف کے اس نظریے کو پیش کیا ہے جس میں اپنی ذات کو ہر چیز سے کمتر اور ادنی قرار دیا جاتا ہے۔

شعر نمبر 5

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہی اعتبار l کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

ثبات = پائیداری استحکام ۔ قیام

اعتبار = ثبات قیام

چمن = مراد دنیا

شاعر نے زندگی کی بے ثباتی کا فلسفہ نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ چمن میں پھول کی زندگی کو ثبات نہیں وہ جلد مرجھا جانے والا ہے۔ اسی طرح مجھے بھی مثبات قیام حاصل نبا ے نہیں۔ کب موت کا پروانہ آئے اور مجھے یہاں سے چل دینا پڑے۔ جب یہ صورت حال ہو کہ نہ گل ابدی نہ میں ابدی تو ایسی عارضی اور ناپائیدار زندگی میں دنیا سے کیا لوں گا میں اور امید و آرزو کا طومار باند ھیں۔ اس شعر میں بے ثباتی عالم کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو تصوف کا مرکزی نقطہ نگاہ ہے۔

2.5 غزل نمبر

وحدت نے ہر طرف تیرے جلوے دکھا دیئے پردے تعینات کے جو تھے اٹھا دیئے

عنقا کی طرح جتنے تھے یاں نامور فلک تو نے خدا ہی جانے کہ کیدھر اڑا دیئے

کھلا دل اثر نہ مرے حال پر کبھی ہر چند روتے روتے میں نالے بہادیئے عالم میں جتنے پاک گھر تھے سو ایک ایک اولے سے روزگار نے یوں ہی گھلا دیئے اے شور حشر گردش دوراں نے اہل قبر ٹک بھی نہ ہونے پائے کہ وہیں جگا دیئے

تشریح

شعر نمبر 1

وحدت نے ہر طرف تیرے جلوے دکھا دیئے پردے تعینات کے جو تھے اٹھا دیئے

وحدت = یکتائی۔ توحید

تعین = وجود دنیا

شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کی وحدت اور یکتا ہی پر یقین کامل ہو گیا اور اس کی محبت میں دل تمام علائق دنیوی سے بے نیاز ہو گیا تو اس کے نتیجے میں تعینات کے پردے اٹھتے چلے گئے اور اسی ذات یکتا صفات کے جلوے ہر سو نظر آنے لگے۔ بادی النظر میں شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ انسان تعینات ، یعنی دنیا کی مختلف چیزوں میں اس طرح الجھ جاتا ہے کہ اسے حقیقت و معرفت کا ادراک نہیں ہو پاتا۔ لہذا محبت الہی ہی وہ ذریعہ ہے جس کے توسط سے قرب الہی حاصل ہو سکتا ہے اور ہر جانب اس کے جلوے نظر آسکتے ہیں۔ شرط توحید پر ایمان کامل ہے۔ معرفت و طریقت کا ایک اہم مضمون بغیر کسی ابہام کے پیش کیا گیا ہے۔

شعر نمبر 2 –

عنقا کی طرح جتنے تھے یاں نامور فلک تو نے خدا ہی جانے کہ کیدھر اڑا دیئے

عنقا مشهور افسانوی پرندہ عقلمندی اور خوش بختی کے لئے مشہور ہے۔ کنا بیتہ نایاب نادر الوجود اور بے نظیر چیز۔

کید ھر = کدھر (اب متروک ہے)

شاعر آسمان سے شکوہ کناں ہے کہ اس دنیا میں جتنے نامور لوگ تھے جو اپنی ذات میں عنقا کی طرح نادر الوجود اور بے نظیر تھے انہیں تو نے نہ جانے کدھر اڑا دیا کہ اب ان کا نشان تک نہیں ملتا۔ بادی النظر میں درد شهرت و ناموری کو آنی جانی چیز قرار دے رہے ہیں کہ انسان کی طرح یہ سب علائق دنیوی بھی نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔

شعر نمبر 3

کھلا دل اثر نہ مرے حال پر کبھی ہر چند روتے روتے میں نالے بہا دیئے

نالا = چھوٹی ندی۔ برساتی نالا

شاعر کہتا ہے کہ میں نے محبوب کی جدائی میں اس قدر آہ بکا کر تا رہا کہ میرے آنسوؤں سے ندی نالے جاری ہو گئے ۔ لیکن ایک میرا سنگدل محبوب ہے کہ اس کے دل پر میرے گرینے نے ذرا بھی اثر نہیں کیا۔ اس کا دل اس قدر سخت ہے کہ میرے گرم آنسوؤں نے بھی اسے نہیں پگھلایا۔ اس شعر میں محبوب کی سخت دلی کو واضح کیا گیا ہے۔

شعر نمبر 4

عالم میں جتنے پاک گھر تھے سو ایک ایک اولے سے روز گار نے یونہی گھلا دیئے

پاک گھر = پاک طیت نیک خصلت لوگ۔ اولے سے

شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں ایک سے ایک پاک طنیت اور نیک خصلت لوگ تھے۔ لیکن زمانے نے ان گراں قدر شخصیات کی کبھی قدر و منزلت نہیں کی۔ ان سے ہمیشہ تغافل بر تا گیا۔ ان کے کارناموں سے نہ تو فائدہ اٹھایا گیا اور نہ ان کی قرار واقعی عزت و تکریم ہوئی باحہ ان کی قدردانی کے بر عکس زمانے نے ان گھر پائے آبدار کو اس طرح گھلا دیا جس طرح اولے آن کی آن میں گھل جاتے ہیں یہاں سر بلند شخصیات کی ناقدری کا رونا رویا گیا ہے۔ یہ صورت حال ہمیشہ قائم رہی ہے اور شعرا اس پر پیم اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

شعر نمبر 5

اے شور حشر گردش دوراں نے اہل قبر تک بھی نہ سوئے پائے کہ وہیں جگادیئے

و ہیں ۔ میں ( یہ الفاظ متروک ہے )

شور حشر = قیاقت کا ہنگامہ

گردش دوراں = زمانے کی گردش گردش روزگار

شاعر روز حشر سے مخاطب ہو کر یہ کہ رہا ہے کہ جب قیامت کے دن تیر اہنگامہ برپا ہو گا تو مر دے قبر سے جاگ اٹھیں گے اور میدان حشر کی طرف بھاگیں گے۔ کسی کو پتہ نہیں کہ کون کون لوگ کب سے قبر میں محو خواب ہیں اور کب صور اسرافیل سن کر جائیں گے لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ زمانے کی گردش اور فتنہ روزگار نے تو قبر میں ابھی ابھی اتر نے والوں کو ذرا بھی سونے نہیں دیا اور نہیں گھڑی کی گھڑی میں جگا دیا ہے۔ وہ پھر اسی کیفیت میں ہیں جو مرنے سے قبل تھی۔

اس شعر کا مدعا یہ کہ گردش روزگار قیامت خیز ہے۔ اس کی حشر سامانیاں مردوں کو بھی قبر میں چین سے سونے نہیں دیتیں۔ اور جو لوگ ابھی زیر زمین اتارے بھی نہیں گئے ہیں ان کا فتنہ روزگار سے کیا حشر ہوتا ہو گا یہ بات بعید از فہم نہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں