خواجہ میر درد کا تعارف

کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو ادب کی تاریخ 2
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5602
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ خواجہ میر درد کا تعارف
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 56تا57
مرتب کردہ ۔۔۔۔ Hafiza Maryam

خواجہ میر درد کا تعارف

جب ہم میر تقی میر کی آہ اور مرزا رفیع سودا کی واہ کے بعد خواجہ میر درد کی فضائے تخلیق میں داخل ہوتے ہیں تو خود کو ایک جدا گانہ خطہ میں پاتے ہیں ۔

یہ وہ منطقہ تخلیق ہے جس کی فضا تصوف نے تخلیق کی ہے۔ دنیا دار کا یہاں گزر نہیں۔ یہاں دنیا کی بے ثباتی کا احساس اور قلب میں گداز پیدا کرتا ہے۔ یہ جہان سراب نہیں اور نہ ہی یہاں

مجاز کی رنگینی ملے گی اور عمر بھر کا حاصل یہ احساس :

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

خواجہ میر درد ( 21-1720ء 7 جنوری 1785ء) نے صوفی گھرانے میں جنم لیا والد خواجہ محمد ناصر عندلیب اللہ والوں میں شمار ہوتے تھے۔ چنانچہ والد ہی کے کہنے پر انتیس برس کی عمر میں دنیا داری سے ہاتھ دھو کر اللہ سے لو لگالی اور بقیہ عمر صحیح معنوں میں صوفیانہ وضع میں بسر کی۔ اسی درویشی اور عزلت گزینی کی وجہ سے دہلی کے اترنے پر بھی درد نے میر اور سودا کی مانند ہجرت نہ کی۔

درد فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ فارسی میں تصوف پر کئی رسالے تصنیف کئے جن میں سے نالہ درد کاترجمہ ظفر عالم نے کیا اورڈاکٹر عبادت بریلوی کے مقدمہ کے ساتھ طبع ہوا۔ اردو دیوان میر وغیرہ کے مقابلہ میں خاصہ مختصر ہے۔ لیکن ہے سراسر انتخاب کوئی عامیانہ یا مبتنذل شعر نہ ملے گا۔

تصوف اردو غزل کے بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ ماضی کے ہر شاعر نے تصوف پر اشعار کہے اور خوب کے لیکن درد کی انفرادیت اس بناء پر ہے کہ دیگر شعراء کے بر عکس درد کے لئے تصوف شعار زیست، قلبی واردات اور عملی تجربہ تھا’ برائے شعر گفتن نہ تھا۔ اسی لئے ان کے کلام میں خلوص کی مہک ملتی ہے۔ درد نے معاصرین کے مقابلہ میں بہت کم لکھا لیکن وہ زندگی میں جس عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے وقت نے اس میں کمی نہ کی اور متغیر مذاق سخن کے باوجود وہ آج بھی بڑے شعر میں شمار ہوتے ہیں۔
مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کیجئے۔ عبادت بریلوی ‘ ڈاکٹر حضرت خواجہ میر درد دہلوی لاہور ادارہ ادب و تنقید 1983ء

حمید یزدانی ڈاکٹر خواجہ میر درد کی فارسی شاعری لاہور ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی 1993 اشعار ملاحظہ کیجئے۔

جگ میں اگر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدہر دیکھا
اے درد کر تک آئینہ دل کو صاف تو
پھر ہر طرف نظارہ حسن جمال کر
ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے روبرو کریں
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
جوش جنوں کے ہاتھ سے فصل بہار میں
گل سے بھی ہو سکی نہ گریباں کی احتیاط

جہاں تک میر سودا در داور ان کے معاصرین کی غزل کے مجموعی تاثر کا تعلق ہے تو در حقیقت میں وہ دور ہے جس میں غزل کے مزاج کی تشکیل ہوئی اور اس کے مسلمات طے پائے۔ ان تینوں نے غزل گوئی کے لئے جو راہ اختیار کی آنے والوں کے لئے وہی شاہراہ قرار پائی۔

اس عہد میں اگر چہ حاتم و غیرہ کی زبان کا چلن بر قرار رہا مگر پھر بھی ان تینوں اور بالخصوص سودا کی غزل کی زبان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہندی الفاظ کی جگہ فارسی الفاظ لے رہے ہیں۔ میر نے کیونکہ غزل کو بول چال کی زبان کے قریب رکھا اس لئے ان کی غزل میں ہندی کے سبک الفاظ بھی مل جاتے ہیں۔ اگر چہ ناجی قائم، مضمون کی زبان کے مقابلہ میں ان تینوں کی زبان نسبتا زیادہ صاف ہے لیکن یک سو کبھو ایدھر اودھر منت ہیں جیسے الفاظ بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ اس دور میں اصلاح زبان کا عمل جاری تھا لیکن آہستہ روی کے ساتھ دراصل اس سے پہلے شعراء کی ساری تخلیقی توانائی ایہام کے خلاف رد عمل میں صرف ہو چکی تھی ابھی متروکات نے قومی رجحان کی صورت اختیار نہ کی تھی۔ اردو غزل ناسخ کے انتظار میں تھی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں