کتاب کا نام: اردو شاعری 1
کوڈ : 5607
صفحہ: 85
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
خواجہ حیدر علی آتش کا تعارف
خواجہ حیدر علی نام آتش تخلص۔ ان کے والد خواجہ علی بخش دلی کے رہنے والے تھے۔ امتداد زمانہ کے باعث وہاں کی سکونت ترک کر کے فیض آباد آگئے ۔ یہیں آتش 1767ء میں پیدا ہوئے۔ اگر چہ انہیں درس و تدریس کا با قاعدہ موقع نہیں ملا لیکن ذوق سلیم اور اودھ کے علمی وادبی ماحول نے رہبری کی۔ پھر ، اس دور کے امیروں اور نوابوں کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ اکتساب علم کیا۔
سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد خواجہ آتش فیض آباد کے رئیس مرزا محمد تقی خاں کے دربار میں ملازم ہوئے۔ مرزا صاحب کے لکھنو منتقل ہونے پر یہ بھی وہیں چلے گئے۔ یہاں اگر مصحفی کے شاگرد ہوئے۔ اس شاگردی نے انہیں ناسخ لکھنوتی کے اثرات سے بچایا۔
تصوف آتش کے خاندان کی اہم روایت تھی وہ خود بھی فقیر منش اور درویشی سیرت انسان تھے۔ بڑے قناعت پسند تھے۔ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ غریبوں پر خرچ کر دیتے۔ لباس میں قلندرانہ شان تھی۔ آخر عمر میں آنکھ کی بینائی جاتی رہی تھی۔ انہوں نے 1847ء میں وفات پائی۔ انہیں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر گوئی کا شوق تھا۔ دو ضخیم دیوان یاد گار چھوڑے۔ ان کے شاگردوں میں محمد خاں رند وزیر علی صبا اور پنڈت دیا شنکر نسیم نے بہت شہرت پائی۔
شعرائے متاخرین کے دور اول میں آتش لکھنوی اپنی جگہ مستقل ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا رنگ سخن دیگر شعرائے اردو سے مختلف تھا۔
خواجہ حیدر علی آتش، ناسخ لکھنوی کے ہم عصر اور اردو کے بہترین غزل گو شعراء میں سے ہیں۔ ان کا کلام ناسخ کی طرح خارجی رنگ میں ڈوبا ہوا نہیں بلکہ ان کی غزلوں میں جذبات کی گرمی انسانی ماحول اور تصوف کے بہترین عناصر ملتے ہیں۔ ان کے کلام میں زبان کی صفائی کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو چونکادینے والی باتیں کثرت سے ملتی ہیں۔ سوزو گداز کے لحاظ سے بھی آتش لکھنوی کا رنگ تغزل ناسخ لکھنوی سے بدرجہا بہتر ہے۔خواجہ آتش کا کلام تصنع اور تکلف سے پاک اور ابتدال اور سوقیانہ خیالات کی پستی سے مبرا ہے۔ ان کے تغزل میں عشق کی گرمی اور جذبات کی حرارت پائی جاتی ہے ۔ گویا ان کا تخلص اسم با مسمی ہے۔ اشعار میں بے حد روانی اور موسیقیت ہے۔ الفاظ کے حسن انتخاب اور محاورات کے ہر محل استعمال سے ان کے کلام میں دلکشی و دل آویزی پیدا ہو جاتی ہے۔ تاثیر اور درد مندی کے اعتبار سے ان کے اشعار میر جیسے شاعر کے ہم پلہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ خواجہ آتش جذبات کو موثر اور دلکش الفاظ و انداز میں ادا کرنے پر عبور رکھتے تھے۔ مزید بر آن سادگی زبان اور رفعت تخیل ان کے کلام کی خاص خوبیاں ہیں۔
لکھنوی شاعری میں بالعموم داخلیت کی بجائے خار جیت پر زور دیا جاتا رہا ہے اور آمد کی جگہ آور د نے لی اور قافیہ پیمائی بھی ضروریات شعری میں شمار ہونے لگی۔ لیکن آتش نے قلندری اور عوام دوستی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے زبان کی عوامیت کے ساتھ ساتھ جذبات نگاری پر خاص توجہ کی۔ ان کی شاعری نے مرصع سازی کے وہ نمونے پیش کئے کہ آج بھی لکھنویت کی خصوصیت بنے ہوئے ہیں۔
خواجہ آتش کی غزلیں عموماً صاف اور شستہ ہوتی ہیں۔ اشعار میں روانی پائی جاتی ہے۔ بندشوں میں چستی اور مضامین میں شوخی کے ساتھ رنگینی ور عنائی نمایاں ہے۔ جوش و خروش اور سر مستی کا عنصر بھی ملتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نے آتش لکھنوی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
آتش کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی غزل میں اردو غزل کی عام خزمیہ لے کے بر عکس نشاطیہ لے پائی جاتی ہے جو زندگی سے لطف اندوز ہونے کی خواہش کا نتیجہ ہے۔ یہ نشاطیہ لے لکھنو کے اس پر نشاط ماحول کے عین مطابق ہے جس میں آتش کی شاعری پھلی ، پھولی۔ وہ غم کے احساسات پر بھی راحت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں“
یہ بات قابل غور ہے کہ لکھنوی شاعری کے مروجہ رنگ کو آتش نے آنکھ بند کر کے قبول نہیں کیا ہے۔ انکے کلام میں خارجی مضامین اور متعلقات حسن کا ذکر کیا بھی ہے تو نہایت میانہ روی کے ساتھ ۔ وہ اس معاملے میں حد سے تجاوز نہیں کرتے ۔ البتہ جذبات نگاری میں وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ جہاں اس نوع کا رنگ عموما لکھنوی شعراء کے یہاں مقصود ہے۔