خالدہ حسین کی افسانہ نگاری | Khalida Hussain ki afsana nigari
خالدہ حسین کی افسانہ نگاری
خالدہ حسین نے سواری اور ہزار پایا جیسی علامتی کہانیاں لکھ کر جدید اردو ادب میں اپنا ایک مستند مقام بنالیا۔ان کہانیوں میں خالدہ حسین نے پاکستان کی فوجی آمریت اور پیش کیاہے۔ان کے افسانے بیان کی سادگی کے باوجود علامتی ہونے کے سبب ایک پر اسرار فضا اسرار قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔جو کاری کے ذہن کو پر تجسس رکھتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: خالدہ حسین کے افسانوں میں علامت نگاری | PDF
خالدہ کا اصلی نام خالدہ اصغرہے۔انہوں نے خالدہ اقبال اور خالدہ حسین کے نام سے بھی لکھا ہے۔خالدہ حسین 18 جولائی 1938 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد ڈاکٹر اصغر لاہور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ادب سے انہیں خاص لگاؤ تھا جس کا ثبوت ان کے گھر میں ہونے والی علمی اور ادبی محفلوں کا انعقاد ہے جس میں فیض احسان دانش حفیظ جالندھری وغیرہ اکثر شامل ہوتے ہیں
خالدہ نے لاہور کالج برائے خواتین سے بی اے اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کیا۔1966 سے وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئیں۔1965 میں وہ ڈاکٹر اقبال حسین سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔اور خالدہ حسین بن گئیں۔وہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹے کی ماں ہے۔شادی کے بعد کچھ وقفہ کے لیے وہ قلم سے دور رہیں۔
ڈاکٹر طاہر مسعود ان کے بارے میں لکھتے ہیں
خالدہ حسین نے خالدہ اصغر کے نام سے 1960 کے لگ بھگ لکھنے کی ابتدا کی ان کا پہلا افسانہ دل دریا ادب لطیف میں شائع ہوا۔ پھر دو سال کے بعد ناصرہ کاظمی نے اس پر چے میں ان کا افسانہ منی تعریفی نوٹ کے ساتھ چھایا اور اس سے ایسا افسانہ قرار دیا جو روایتی ہوتے ہوئے بھی تنہا روحوں کی کھتا تھی۔1964 میں ایک بوند لہو کی نے انہیں ادبی شہرت دی۔عجیب تاثر انگیز افسانہ تھا۔جس میں غم سے بے حس ہو جانے والے ایک کردار کی اندرونی کیفیت کی تصویر کشی کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: خالدہ حسین: تجزیہ میر | PDF
خالدہ نے 1964 سے 1965کے
درمیان جن عرصے میں پے در پہ اہم کہانیاں لکھیں جس میں ہزار پایا سواری اور اخری سمت قابل ذکر ہے لیکن 1965 کے بعد ان کی افسانہ نگاری کے تسلسل میں گیپ آگیا انہوں نے لکھنا لکھنا چھوڑ چھاڑ کر بالکل چپ سادھ لی۔لیکن ان کے پڑھنے والوں کا حلقہ جو پاکستان سے ہندوستان تک پھیل گیا تھا وہ انہیں بھلا نہ سکا ان کا ذکر تنقیدی مضامین اور ادبی حلقوں سے تواتر ہوتا رہا۔
قصہ یہ تھا کہ شادی کے بعد وہ گھریلو زندگی گزار رہی تھی 13 سال کی لمبی خاموشی کے بعد اس بات کی توقع کم یہ تھی کہ وہ افسانے کی دنیا میں واپس آ سکیں گی۔لیکن 1979 میں انہوں نے ادھی اور لکھ کر سب کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔
ایک انٹرویو کے درمیان اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں خالدہ کہتی ہیں
مجھے اپنا بچپن یاد اتا ہے۔میں کہانیاں پڑھتی تھی کہانیاں سوچتی تھی اس میں زندہ رہتی تھی بچپن کے واقعات مجھے اب تک بانٹ رہے ہیں تخلیق کا اصل سرچشمہ بچپن کے ابتدائی تجربات ہوتے ہیں کچھ لوگوں کا ماضی کے ساتھ 11 تعلق بھی ہوتا ہے
لیکن ماضی کا تعین کس طرح کریں گے ہر گزرنے والا لمحہ ماضی بن جاتا ہے ہر چیز جو گزر جاتی ہے بہت فیسینیٹ کرتی ہے
خالدہ حسین علامتی افسانہ نگاروں کے بیچ ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔جدید اردو افسانہ کی باقاعدہ شروعات 1960 سے ہوتی ہے یہی وہ دور ہے جب خالدہ نے بھی اپنی افسانوی زندگی کا اغاز کیا۔یہ وہ دور ہے
جس میں فن افسانہ نگاری میں نئے نئے تجربات کیے گئے اور ایک انقلاب کی صورت میں نے افسانہ وجود میں آیا۔جس میں موضوعات کے ساتھ تکنیک اور فن بھی نئے پن سے عبارت ہوئے۔سریندر پرکاش رشید امجد بلراج مینرا ستیش بترا سمیع آہوجہ اور محمد منشا یاد کا نام ان جدید افسانہ نگاروں کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے
1: یہ صورت گر کچھ خوابوں کے طاہر مسعود مکتبہ تخلیقی ادب کراچی جنوری 8ص 318
2: یہ سورت کر کچھ خوابوں کے طاہر مسعود مکتبہ تخلیقی ادب کراچی جنوری85ص316جنہوں نے روایت شکنی کے نتیجے میں ایک نئے قسم کا ادب پیش کیا جو تجریدیت اور علامت سے عبارت ہے۔حالانکہ ان کے کچھ موازرین روایت پسند افسانہ نگار رہے ہیں مگر زیادہ تر پاکستانی افسانہ نگاروں کے یہاں قومی تاریخ اور تقسیم ملک جیسے موضوعات کے ساتھ وہاں کے سیاسی اور سماجی حدبندیوں کے رد عمل میں پیدا ہونے والے احساس محرومی مختلف علاقوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
انہیں حالات میں رہتے ہوئے خالدہ حسین نے افسانہ نگاری کی دنیا میں اپنی الگ شناخت قائم کی اور اپنے تخیل کی وجہ سے ممتاز ہوئی۔خالدہ افسانوی افق پر ایک انفرادی حیثیت لے کر داخل ہوئی ان کی کہانیوں کے تانے بانے اردو کی داستانوی ادب سے مستعار ہیں اور ازادیری ادب نے فکشن کو جو کچھ عطا کیا ہے اس میں خالدہ کی نمائندگی خاصی اہم ہے۔
خالدہ حسین مغر ی ادب سے متاثر ہیں اور اسی وجہ سے ان کی تکنیک اور رجحانات پر وہاں کے ادیبوں کا اثر دیکھا جا سکتا ہے وہ کہتی ہیں
روس میں چیخ خوف دوستو فرسٹ کی ٹالسٹائی ترگنیف وغیرہ جرمنی میں کاف کا ٹامن مان اور فرنچ میں اربرٹ کا میو امریکہ میں خا کر اچھا لگتا ہے۔
خالدہ نے افسانوں پر کافقہ کے اثرات کا جائزہ شمیم حنفی نے محسوس کیا ہے۔
خالدہ اصغر اردو کی پہلی افسانہ نگار ہے جس نے کافہ کے انتہائی پر فریب اور ساتھ اگیا جذباتی اور آہستہ اہنگ رمزیہ صیغہ اظہار کو تواتر کے ساتھ اپنی کہانی میں برتا ہے اور سادہ پانی میں پانی کے تنوع کی گنجائش نکالی ہے
خالدہ کے افسانے موضوعات زندگی سے تعلق رکھتے ہیں وہ سچائیوں کو انہونی شکل دے کر دنیا کے سامنے جوں کتوں پیش کر دیتی ہے۔
خالدہ کے موضوعات گھریلو زندگی کا کھوکلا پن زندگی کی بے رخی انفرادی اور اجتماعی سطح پر ذات کا کرب ہے جو ایک دوسرے سے بے تعلقی کی اور مہرومی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔
1: خالدہ حسین والا اردو افسانے پر مغربی اثرات خورشید احمد ص 8
2: شمیم حنفی معیار نئی دلی پہلا شمار مارچ 1977 ص 71
مرزا حامد بیگ کے مطابق
عدم تحفظ کا احساس خالدہ حسین کے افسانوں کا بنیادی طرز احساس ہے
ان کے افسانوں میں شک اذیت نفرت اور خوف کی کیفیات و احساسات علامتی اور تجریدی انداز میں سامنے اتے ہیں جس کے پیچھے زندگی کی کھلی کہانیاں ہوتی ہیں
خالدہ حسین نے اپنے عہد کی بہترین اکاسی کی ہے۔وہ اپنے دور سے مایوس ہیں اور اس کی مصوری علامتی اور تجریدی اسلوب کے سہارے بہترین انداز سے کرتی ہیں جن کی ایک مثال ان کا افسانہ ہزار پایا ہے کہانی ہزار پایا میں خالدہ نے داخلی کشمکش اور ذہنی انتشار کو پیش کیا ہے
میں نے دانتوں کو باہم بھیجنے کی کوشش کی اور میری انگوٹھیاں اس کوشش میں دکھنے لگی مگر اوپر تلے کے دانت ایک دوسرے سے جدا ہی رہے۔اخر میں جیب سے وہ شیشی نکالی اور ایک گولی مٹھی میں رکھی مجھے معلوم تھا کہ میرے اندر ایک ہزار پایا پل رہا ہے لمبے لمبے پنجوں والا کیڑا جو رفتہ رفتہ اپنی بے شمار شاہیں پھیلا رہا ہے میری رگوں میں گاڑ رہا ہے
خالدہ نے اس افسانے کے پس منظر میں سیاسی سماجی اور تہذیبی نظام کے کھوکھلے پن کو اجاگر کیا ہے۔جس کی پیشکش کو علامتی انداز میں کرتی ہیں۔کہانی کا واحد متکلم تھراٹ کینسر کا شکار ہے۔ڈاکٹر نے اسے بتا دیا ہے کہ اس کے اندر ایک ہزار پایا سرطان پل رہا ہے جو دھیرے دھیرے اس کی رگوں میں اپنی شاخیں پھیلا رہا ہے۔ڈاکٹری معائنہ کے بعد جب وہ کمرے سے باہر نکلتا ہے تو اس سے زندگی اور اس کی اسائشیں متوجہ کرتی ہیں
وہ افراد جو زندگی سے بھرپور ہیں وہ سامان جو عیش و عشرت کے لیے ہے سڑک پر اتی جاتی گاڑیاں قیمتی سامانوں سے بھرے بازار کو کرب کے ساتھ کو دیکھتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس مرض میں موت یقینی ہے۔ایک انوکھے احساس کے ساتھ وہ ایک بار پھر سب کچھ دیکھتا ہے اور سامانوں لوگوںکے نام یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اسے احساس ہو تاکہ وہ یہ سب کچھ یاد نہیں کر پا رہا ہے وہ پریشان ہو جاتا ہے بار بار اسے اپنے اندر چلتا پھرتا ہزار پایا محسوس ہوتا ہے۔
کہانی کے اخر میں نیم بے ہوشی کی حالت میں اسے اپریشن تھیٹر لے جایا جاتا ہے۔اس کہانی کے ذریعے انہوں نے دراصل پاکستان کی سیاسی سماجی اور تہذیبی نظام کے کھوکھلے پن کو پیش کیا ہے۔مگر اس کا اظہار صرف علامتی ہے وہ کہنا چاہتی ہے کہ اس نظام اور معاشرے کو ہی کینسر ہو گیا ہے اور اس کے تمام شعبے اس کی زد میں ا کر کھوکھلی ہو گئے ہیں۔جس کو علامتی انداز میں وہ واحد متکلم کی زبان سے ادا کرتی ہیں ایکسرے دیکھ کر مریض اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ہماری تمہاری ہر ایک کی اصلیت صرف اتنی سی ہے جتنی کی اس ایکسرے میں نظر اتی ہے اور اس میں فرق کرنے کے لیے کناروں پر نام لکھ دیے جاتے ہیں۔
ایک اقتباس دیکھیے
میں نے دروازہ کھولا اندر کے ٹھنڈے اندھیرے کے بعد باری چکا چوندھ اور تپش پر میں حیران رہ گیا دروازہ جس کا رن سلیٹی اور جالی مٹیالی تھی اس پرنگوں کی ہلکی سی اواز سے بند ہو گیا اس دروازے کے اندر ٹنکچر ائیوڈین اور اسپرٹ کی بو تھی اور چمڑے منڈے لمبے ہنجو اور پالش اتری کرسیوں پر لوگ بیٹھے اخبار اور رسالوں کے ورق دے دلی سے الٹتے تھے مرد نوائے وقت پاکستان ٹائمز اور کمرے سے باہر جب اترے پر میں کھڑا تھا میں ابھی چند لمحے پہلے اندر تھا
اور اب باہر اس چبوترے سے اگے جہاں میں اس وقت کھڑا تھا ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس کے گرد گھنی باڑ
ہلدر حسین کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی دوسری کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی ہر لفظ ہر واقعہ کے ذریعے مرکزی خیال پر روشنی ڈالتی ہیں ہزار پایہ کا شمار بہترین علامتی کہانیوں میں ہوتا ہے کہانی میں یہ صاف طور پر کہیں نہیں کھلتا کہ یہ پاکستان کی سیاسی و سماجی صورتحال پر لکھی گئی ہے۔
ان کو افسانہ سواری علامتی انداز میں 1985 کے سیاسی حالات کو معاشرے پر اثر اندازہوتے ہوئے دکھاتا ہے اس کا موضوع پیتا ہے اور ہر موڑ پر خوف و عدم تحفظ اور احساس ہوتا ہے افسانہ سواری کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کہانی کے وجود میں انے کے بعد سے اب تک یہ موضوع بحث رہا ہے مختلف لگا دوں نے اس کہانی کے محبیں پیش کی ہیں ان کی کئی کہانی کی طرح اس افسانے کا بھی اغاز سامنے کی باتوں سے ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے ایک بے بن جاتا ہے اور کہانی اختتام پر اس کا یوس بند کر کاری پر چھا جاتی ہے۔
مگر اچانک میری نظر سامنے انے والی ایک عجیب و غریب سواری پر جا رکی وہ ایک بہت بڑا گڈا تھا جسے وہ سفید بیل کھینچ رہے تھے بیلوں کی انکھوں پر سے انکھوں پہ چڑھے تھے اور ناکوں میں موٹے موٹے رسے اور سفید جلد تلے ان کی پسلیاں اور کولوں کی ہڈیاں سانس لیتی تھی اور رسوم جڑے نتھوں سے سانس کی گرم باپ گڈے کے چاروں طرف لکڑی کا جنگل سا بنا تھا اور اس کے اندر سے اپ پردے تنے تھے دراصل وہ پردے بھی نہ تھے جیسے ملتی لہریں کھاتی اندھیرے کی دیواریں۔سامنے سے تھوڑی سی جگہ خالی تھی اور اسے اپ پردے سے باہر دو گاڑی خان بیٹھے ہڈیوں بھرے انڈے گھروں کو ہاتھوں سے گاڑی بالوں کی چھٹی میں اندھیرے کی وجہ سے میں نہ دیکھ سکا
کہانی سواری متکلم شام کو گھر واپسی کے وقت ایک دن اچانک فل پر تین پر اصرار اجنبی لوگوں کو دیکھتا ہے جو گروپ افتاب کا منظر دیکھتے ہوئے زرد پڑ جاتے ہیں یہ تین پر اسرار لوگ کون ہیں یہ راز کہانی کے اخر تک نہیں کھلتا خالدہ حسین نے یہ تینوں کردار ایک مذہبی روایت سے مستعار لیا ہے اور اسی روایت سے ایک نیا مفہوم پیدا ہوتا ہے روایت ہے
کہ تین مجوسی ایک ستارے کو دیکھتے ہیں اور ایک مبارک خبر حضرت عیسی کی پیدائش کی خبر جو ان کو اجتماع ہزار سے نجات لانے والے ہیں کے ساتھ بیت اللحم میںداخل ہوتے ہیں لیکن خالدہ حسین کے یہ تین پر اصرار کردار مبارک خبر نہیں لاتے بلکہ ایسا راز ان پر منکشف کرتے ہیں کہ جس کی دہشت سے ان کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں
کہانیاں اگے بڑھتی ہے واحد متکلم کے حواس پر یہ تین پر اصرار کردار چھا جاتے ہیں اور وہ بھی اس راز کو پانے کے لیے بے قرار ہو جاتے ہیں پھر اچانک شہر میں ایک پراسرار سواری داخل ہوتی ہے جس میں سے ایک عجیب قسم کی مہک کی لہریں نکلتی ہے واحد متکلم اس میک کو پہلے محسوس کرتا ہے دھیرے دھیرے شہر کے لوگ بھی اس کو محسوس کرنے لگتے ہیں
پھر اس کے عادی ہو جاتے ہیں اس پر اسرار سواری کو بھی خالدہ حسین داستانوں سے مستار لیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ داستانوں کی پر اسرار سواری پہاڑوں کے پیچھے سے اتی تھی اور بستی والوں سے اپنے سے کی چیزیں اور عام طور پر ایک خوبصورت جوان لڑکا یا لڑکی بھی اپنے ساتھ لے کر جاتی تھی اور پھر ایک خطر پسند شہزادہ اتا تھا اور بستی والوں کو اس اشوب سے نجات دلاتا تھا خالدہ کی کہانی میں پر اسرار انداز میں ایک سواری اتی ہے
مگر اس کے بعد کوئی نجات نہیں اتا اس سے خالدہ یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ اس دور میں کوئی نجات دہندہ پیدا ہی نہیں ہوتا اور جو نجات دہندہ بننے کی کوشش کرتا ہے اس کا انجام ان تین پر اسرار لوگوں کے انجام سے مختلف نہیں ہوتا جو سواری میں جب جھانکنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک خوفناک چیخ کے ساتھ اس کی زبان تالو سے چپک جاتی ہے اور وہ گونگا ہو جاتا ہے گویا فوجی امریت کے راز سے جو لوگ پردہ اٹھانا چاہتے ہیں
ان کی زبان بند کر دی جاتی ہے کہانی سواری سے جو بدبو اتی ہے خالدہ حسین نے اس کو اس سڑے گلے نظام کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے جو واحد متکلم محسوس کرتا ہے اور دھیرے دھیرے شہر کے لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن یہ چاروں خطر پسند اس سے مفاہمت نہیں کر پاتے یہاں خالدہ نے عوام کی اسی بے حسی پر زبردست طنز کیا ہے جو مصلحت اندیش ہے اور مفاہمت پر ہر وقت تیار رہتے ہیں ان تین پر اسرار لوگوں کا حشر دیکھنے کے باوجود وہ اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے بے قرار رہتا ہے اور اخر میں وہاں کھڑا ہوتا ہے
کہانی میں پر اسراریت کی فضا اور خوف دہشت کا ماحول سواری کو پہلی بار دیکھتے ہی قائم ہو جاتا ہے جو جزئیات نگاری کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے وائر متکلم کی احساس طبیعت جسے شہر پر رونما ہونے والے واقعیوں اور حادثوں کا پہلے سے احساس ہو جاتا ہے۔تجسس اور خوف کی کیفیت سورج ڈوبنے کے مناظر قوت شامہ کی سطح پر خوشبو اور بدبو کے ملے جولے یہ تاثرات جو قاری کے حواسوں پر اس طرح چھا جاتے ہیں
کہ وہ پراسرار گاڑی اج بھی شہر میں آنی جانی نظر اتی ہے اور عملہ اس کے وجود اور تدراک سے بے تعلق بے خبر اور ناکارہ دکھائی پڑتا ہے اس کہانی کی خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی موڑ پر اس میں فوجی امریت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے
شہر پناہ خالدہ حسین کی ایک اور معروف کہانی ہے جس کا موضوع عدم تحفظ کا احساس ہے جو ایک وجودی مسئلہ ہے کہانی کی واحد متکلم ایک بے حد حساس لڑکی ہے جو ابتدا میں اپنے والدین اور اپنی باجی کی پناہ میں خود کو محفوظ خیال کرتی ہے اور پھر والدین کی پناہ اسے ناکافی محسوس ہونے لگتی ہے اس لیے جب اس کے بھائی کا دوست اسے تحفظ عطا کرتا ہے
تو وہ مطمئن ہو جاتی ہے ظفر ایک بے حد حساس لڑکا ہے وہ بھی اس دم تحفظ کے احساس سے دو چار رہے اس لیے وہ اس لڑکی سے کہتا ہے اپنے اپ کو اتنا محفوظ مت سمجھو دراصل کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
جب اندھیرے کے گول چکنے گنبد سے ننگے پاؤں پھسل رہے ہیں کہانی کے اخر میں واحد متکلم ظفر کے گلے سے لگ کر سسکنے لگتی ہے گویا اسے ظفر کی پناہ مل جاتی ہے پہلی نظر میں یہ کہانی نفسیاتی معلوم ہوتی ہے لیکن کہانی میں جس طرح عدم تحفظ کو ابھارا گیا ہے ان کا ایک سرا پاکستان کے سیاسی اور سماجی صورتحال سے ضرور ملتا ہے
پرندہ خالدہ حسین کی ایک ایسی کہانی ہے جو سماجی رشتوں کی اہمیت اور سماج میں عورت کے لیے بنائے گئے اصول و ضوابط کی نشاندہی کرتی ہے تو دوسری طرف ایک مرد کی جھوٹی انا اور حسد کو بیان کرتی ہے کہانی کا وقت متکلم ایک ایسا ادمی ہے جس کی بیوی مشہور مصنفہ ہے
اور اکثر سمیناروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتی ہے بیوی کی مقبولیت اور ترقی شور کو حسد کا شکار بنا دیتی ہے اور دونوں کے بیچ تو تو میں میں یہاں کوئی دن رات اس کے اندر بولتا ہے اب تمہاری باری ہے اب تم دیکھو گے اج میں اس پل پر آں کھڑا ہوں
اس سواریکے انتظار میںکہانی میں پر اسراریت کی فضا اور خوف دہشت کا ماحول سواری کو پہلی بار دیکھتے ہی قائم ہو جاتا ہے جو جزئیات نگاری کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے وائر متکلم کی احساس طبیعت جسے شہر پر رونما ہونے والے واقعیوں اور حادثوں کا پہلے سے احساس ہو جاتا ہے۔
تجسس اور خوف کی کیفیت سورج ڈوبنے کے مناظر قوت شامہ کی سطح پر خوشبو اور بدبو کے ملے جولے یہ تاثرات جو قاری کے حواسوں پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ وہ پراسرار گاڑی اج بھی شہر میں آنی جانی نظر اتی ہے اور عملہ اس کے وجود اور تدراک سے بے تعلق بے خبر اور ناکارہ دکھائی پڑتا ہے اس کہانی کی خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی موڑ پر اس میں فوجی امریت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے
شہر پناہ خالدہ حسین کی ایک اور معروف کہانی ہے جس کا موضوع عدم تحفظ کا احساس ہے جو ایک وجودی مسئلہ ہے کہانی کی واحد متکلم ایک بے حد حساس لڑکی ہے جو ابتدا میں اپنے والدین اور اپنی باجی کی پناہ میں خود کو محفوظ خیال کرتی ہے اور پھر والدین کی پناہ اسے ناکافی محسوس ہونے لگتی ہے
اس لیے جب اس کے بھائی کا دوست اسے تحفظ عطا کرتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتی ہے ظفر ایک بے حد حساس لڑکا ہے وہ بھی اس دم تحفظ کے احساس سے دو چار رہے اس لیے وہ اس لڑکی سے کہتا ہے اپنے اپ کو اتنا محفوظ مت سمجھو دراصل کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
جب اندھیرے کے گول چکنے گنبد سے ننگے پاؤں پھسل رہے ہیں کہانی کے اخر میں واحد متکلم ظفر کے گلے سے لگ کر سسکنے لگتی ہے گویا اسے ظفر کی پناہ مل جاتی ہے پہلی نظر میں یہ کہانی نفسیاتی معلوم ہوتی ہے لیکن کہانی میں جس طرح عدم تحفظ کو ابھارا گیا ہے ان کا ایک سرا پاکستان کے سیاسی اور سماجی صورتحال سے ضرور ملتا ہے
پرندہ خالدہ حسین کی ایک ایسی کہانی ہے جو سماجی رشتوں کی اہمیت اور سماج میں عورت کے لیے بنائے گئے اصول و ضوابط کی نشاندہی کرتی ہے تو دوسری طرف ایک مرد کی جھوٹی انا اور حسد کو بیان کرتی ہے
کہانی کا وقت متکلم ایک ایسا ادمی ہے جس کی بیوی مشہور مصنفہ ہے اور اکثر سمیناروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتی ہے بیوی کی مقبولیت اور ترقی شور کو حسد کا شکار بنا دیتی ہے اور دونوں کے بیچ تو تو میں میں یہاںتک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں علیحدگی ہو جاتی ہے حسد کا یہ رو ایک مرض کی شکل لے لیتا ہے۔
اور اس سے ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے ہسپتال میں وہ نرس کا مقابلہ اپنی بیوی سے کرتا ہے اور پھر اکثر نر سے گفتگو کرتے کرتے وہ بیوی کے پاس پہنچ جاتا ہے اس طرح کہانی میں کبھی نرس اور کبھی اس کی بیوی اتے جاتے رہتے ہیں اور کہانی ماضی اور حال کے واقعات سے اگے بڑھتی رہتی ہے خالدہ نے اب ماضی اور حالات کے توسط سے ایک گھٹا ہوا پلاٹ ترتیب دیا ہے
جس میں واحد متکلم ایک ذہنی مریض ہے اور جھوٹی انا کا شکار جس کو جلن اور اسد کے کیڑے اس طرح چاٹ رہے ہیں جس طرح پرندے کیڑے کو چاٹ جاتے ہیں خالدہ نے سیدھی سادی کہانی کو علامتی رنگ دینے کے لیے غیر متکلم کو مریض دکھایا ہے اور کہانی کا پرندہ دراصل واحد علم کا اندرون ہے
جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ کیڑے اسے چاٹ جاتے ہیں خالدہ نے ہر لفظ اور ہر واقعے کے ذریعے مرکزی خیال کو ابھارنے کی کوشش کی ہے مرد کا عورت پر تسلط ط اور اسے کمتر سمجھنا مرد کی نفسیات کا اظہار ہے کہانی کا ہیرو جب بھی اپنے گھر کا ذکر کرتا ہے
وہاں اس کی والدہ کو گھریلو کام کرتے اور والد کو ناراض ہوتے اور ان پر رک جماتے ہوئے دکھایا ہے گویا بالواسطہ طور پر وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ عورت کا کام ادبی محفلوں اور سیمیناروں میں شرکت کرنا نہیں بلکہ گھریلو کام میں مصروف رہنا ہے اور مرد کا کام بیوی کا احتساب کرتے رہنا ہے
حال دا حسین کی ایک اور کہانی پہچان ہے جس میں شناخت مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے اور نمائش کو کہانی کا پس منظر بنایا گیا ہے کہانی میں تائی جی کا کردار پرانی نسل کی نمائندگی کرتا ہے واحد متکلم اور اس کی سہیلیاں موجودہ نسل سے تعلق رکھتی ہیں
اور منا جدید دور اور انے والی نسل کی علامت ہے جو واضح فرق کے ساتھ شناخت کے مسئلے سے دوچار ہیں تائگی کے لیے شناخت کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن واحد متکلم اور اس کی سہیلیاں پہچان کے مسئلے سے دوچار ہیں عام طور پر قریبی رشتے ایک دوسرے کو اس کی خوشبو سے پہچان لیتے ہیں
مگر اس کہانی میں ماں اپنے بچے اور بیوی اپنے شوہر کو بھی نہیں پہچان پاتی نمائش میں ہوں واحد متکلم کو سرکس کا بوٹا سرکس کی لڑکیاں موت کے کنویں کی پتلون قمیض پہنے سگریٹ پینے والی لڑکی اور خود پر آگ لگا کر کودنے والا آدمی متوجہ کرتے ہیں یعنی معاشرے میں عام ادمی کی شناخت ختم ہو گئی ہے
اور اگر کسی کی شناخت باقی ہے تو ان لوگوں کی جو عجیب و غریب حلیہ کے لوگ ہیں باقی لوگوں کی کوئی پہچان نہیں ہے نماز جاتے ہوئے سڑک سے گزرتا ہوا ایک جنازہ بے نام جس کی کوئی شناخت نہیں کہانی میں منا گم ہو جاتا ہے پھر مل جاتا ہے اس کی ماں پوچھتی ہے
وہ کون ہے پہلے ماں تھی پھر نہیں تھی منا صدیوں تک یہی جواب دے گا کیونکہ جدید تر نسل اور انے والی نسل شناخت کے مسئلے کا سب سے زیادہ شکار ہے ایک بوند لو کا موضوع بھی تنہائی کا احساس ہے گانے کا وائل متکلم تنہائی کے دکھ کا شکار ہے اور اسے اپنے اس غم کے علاوہ دوسرے کے دکھ کا ذرہ بھی احساس نہیں ہے
خالدہ حسین جدیدیت کو اپنایا اور وجودیت فرد کی داخلی کیفیت اور تنہائی جیسے موضوعات کو علامتی تمثیل اور اساطیری انداز میں بیان کیا اس لیے ان کے اس دور کے افسانے کو سمجھ پانا مشکل ہوتا ہے اور اکثر تجزیہ نگار ان کے افسانے میں ایک سے زیادہ میں نے تلاش کر لیتے ہیں
خالدہ کی کہانی منی الاؤ اخری سمت گوری اور فصل کے سوداگر وغیرہ بھی تنہائی کے احساس میں ڈوب جاتے ہیں
خالدہ حسین جدیدیت کی علم بردار ہیں اور اپنی کہانی میں الفاظ واقعات کا استعمال اس طرح کرتی ہیں کہ وہ علامتی اور تجریدی اسلوب میں قاری کے ذہن میں مربوط ہو جاتے ہیں انہوں نے جدید افسانے کے تحت انے والے موضوعات
مثلا تنہائی خوف و دہشت اور تشدد و عدم تحفظ کا احساس جلاوطنی و ذہنی نا اسودگی وغیرہ کو اپنے انسانوں میں جگہ دی ہے اور ان مسائل و موضوعات کو پیش کرنے کے لیے وہ عام طور پر درمیانی درجے کا مسلمان گھرانوں کی زندگی کو پس منظر کے طور پر اپناتی ہیں جو اکثر ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں اور اپنے اپ میں گم اور خوف زدہ معلوم ہوتے ہیں
اور اکثر خوشی اور غم کی کیفیت سےعاری ہوتے ہیں وہ کسی بھی مسئلہ پر احتجاج نہیں کرتے خالدہ حسین کے افسانوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی کہانی کے عنوان کا موضوع سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں