خدیجہ مستور کا ناول انگن

کتاب کا نام ۔۔۔۔ انگن ناول 1
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5607
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ خدیجہ مستور کا ناول انگن
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 4 تا 8
مرتب کردہ ۔۔۔۔ انیشا

خدیجہ مستور کا ناول انگن

ناول آنگن بر صغیر کی تقسیم سے پہلے کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا اک دلچسپ ناول ہے۔ اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی کہانی ایک ہی خاندان کے گرد گھومتی ہے، جو کہ مسلمان خاندان ہے۔ اس خاندان کے مرد حضرات ملکی سیاست میں اور خواتین گھریلو سیاست میں غیر معمولی دلچسپی رکھتی ہیں، اس قدر غیر معمولی دلچسپی که مرد حضرات گھریلو سیاست اور تنازعات سے قطعی طور پر قطع تعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔

عالیہ کی دادی جان اپنے رنگین مزاج سر تاج کی بدولت گھر کی سربراہ بن جاتی ہیں جنہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا
موجود نہیں، چونکہ یہ ایک زمیندار گھرانہ ہے اس لئے گھر کے اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ بیرونی معاملات بھی عالیہ کی دادی جان کی ذمہ داری ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کی دادی جان ایک سخت گیر خاتون ہیں۔

یہ کہانی عالیہ سے شروع ہوتی ہے جس کے والد ایک سرکاری ادارے میں اعلی عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ کہانی تبدیلی گھر سے شروع ہوتی ہے جب عالیہ کے والد اپنے انگریز افسر پر قاتلانہ حملے کی صورت میں جیل کی ہوا 스 کھا رہے ہوتے ہیں اور عالیہ اور اس کی مغرور والدہ اپنےسے معاشی طور پر کم بڑے چچا کے گھر آ کر رہائش پذیر ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جب اس چھوٹے سے گھر میں ان کا سامان ترتیب دیا جا رہا ہوتا ہے تبھی عالیہ ماضی کی یادوں سے جڑ جاتی ہے کہ کس طرح جب وہ اپنے آبائی گاؤں سے شہر کے ایک بنگلے میں منتقل ہوے تھے جوکہ انہیں سرکار کی طرف سے والد کو ملا تھا۔ اس ناول میں فلیش بیک سے ہی عالیہ کے ذریعے کہانی کو بیان کیا

گیا ہے۔

میاں جی ( عالیہ کے دادا) کے تین بیٹے تھے مظہر ۔۔۔ اور اظہر۔ میاں جی کی دو طوائف بیویاں بھی تھیں جن کی اولادوں میں سے اسرار میاں کا ذکر اس ناول میں کثرت سے ملتا ہے۔ میاں جی کی دو بیٹیاں ہیں سلمی اور نجمہ ۔ مظہر میاں کی شادی ایک غریب خاندان کی لڑکیسے ہوتی ہے جن سے ان کے دو بیٹے جمیل اور شکیل ہوتے ہیں۔ اظہر میاں کی شادی ایک امیر کبیر اور پڑھے لکھے خاندان کی لڑکی سے ہوتی ہے جن سے ان کی دو بیٹیاں تہمینہ اور عالیہ ہوتی ہیں۔ منجھلے چا کی تین شادیاں ہیں جن میں سے ایک بیوی سے چھمی ہوتی ہے جو کہ

مظہر چچا کے گھر رہائش پذیر ہے۔عالیہ کی بڑی پھو بھی اپنے ملازم سبحان کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لیتی ہے۔ زچہ بچہ کے دوران ہی سلمی پھو پھی کی موت ہو جاتی ہے اور نوزائیدہ بچے کو اظہر اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔ سلمی کی موت نے دادی جان کو نیم پاگل سا کر دیا ہوتا ہے اور ان کا پہلے سا رعب دبدبہ بھی باقی نہیں رہتا۔ حویلی میں ان کے اختیارات محدود جبکہ گاؤں میں عزت محدود ہوتی چلی گئی۔ میاں جی کی وفات کے بعد جلد ہی انہیں اپنا بوریا بستر سمیٹ کر

شہروں کا رخ کرنا پڑا۔مظہر چچا کے شہر میں منتقل ہوتے ہی ان کی سیاست میں دلچسپی زور شور سے بڑھنے لگی اب تو خیر سے دادی جان بھی دمہ کی مریض ہو کر چار پائی پر پڑی سلمی کو یاد کرتی رہتی تھیں۔ اسی لئے کوئی روک ٹوک کرنے کے لئے باقی نہ رہا نجمہ پھو پھی ذرہ برار ان کی پروانہ کرتیں، دولت تو ہاتھ سے نکل گئی مگر نخرے نہ نکل سکے ان کے۔ مظہر چا تیزی سے بچی کچھی دولت سیاست پر لٹانے لگے ، کانگریس اور ہندو مسلم اتحاد کی خاطر جلسے جلوسوں پر دولت کا استعمال ہونے لگا، غربت جب تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی تو محلے میں اک دکان کھول لی جس کواسرار میاں دن رات محنت کر کے چلاتے تھے، اسرار میاں طوائف کے بیٹے ہونے کے ناطے کتے سے بھی کم درجہ کی حیثیت رکھتے تھے اتنی محنت مشقت اور ہر برے وقت میں ساتھ دینے کے باوجود ان کی گھر میں کوئی اوقات نہیں تھی یہاں تک کہ بچوں کے چا ہونے کے

باوجود انہیں بچوں سے دور رکھا جاتا تھا۔

کر یمن بوا اس گھر کی نمک خوار خادمہ تھیں۔ باوجود یہ سبھی ملازم اس گھر کی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے اس گھر کوچھوڑ کر جا چکے تھے مگر کر یمن بوا آخری دم تک ساتھ نبھاتی ہیں، گھر کے باقی افراد سوائے کر یمن بوا اور عالیہ کی والدہ کے اسرار میاں کو ان کا جائز حق دلانا چاہتے ہیں مگر کر یمن بوا ہر دم اسرار میاں کو ان کی اوقات یاد دلاتی

رہتی ہیں۔

دوسری جانب عالیہ کے والد کو شہر میں سرکار کی طرف سے بہت ہی بڑھیا بنگلہ ملتا ہے۔ ان کے ہمسائے ہندو ہوتے ہیں جن کی نوجوان بیٹی بیوہ ہو کر آ جاتی ہے۔ عالیہ کی آیا اور اس کرسم دیدی میں بلا کی دوستی ہو جاتی ہے،دوسری جانب عالیہ کے والد کو شہر میں سرکار کی طرف سے بہت ہی بڑھیا بنگلہ ملتا ہے۔ ان کے ہمسائے ہندو ہوتے ہیں جن کی نوجوان بیٹی بیوہ ہو کر آجاتی ہے۔ عالیہ کی آپا اور اس کرسم دیدی میں بلا کی دوستی ہو جاتی ہے، دیدی عالیہ کی آپا کے متعلق جان جاتی ہیں کہ وہ اپنے پھو پھی زاد صفدر کو پسند کرتی ہیں اور ان کو محبت کے طریقے سلیقے سکھاتی ہیں۔ عالیہ کی والدہ کو صفدر انہتائی زہر لگتا ہے کیوں کہ وہ ایک ملازم کا بیٹا ہے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ صفدر کے ماں باپ کی وجہ سے انہیں گاؤں سے در بدر ہونا پڑا جہاں وہ عالیہ کی دادی کے بعد گھر کی کرتا دھرتا ہو تیں، بس یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں 스 نے صفدر کی لحظہ عالیہ کی والدہ سے عزت افزائی کرائیعالیہ کی آپا چاہتی ہیں کہ اب صفدر بی اے کر چکا ہے تو کہیں نوکری ڈھونڈ کر ان سے الگ گھر لے لیں پھر ان کی شادی ہو جائے کیونکہ عالیہ کے والد کا جھکاؤ بھی صفدر کی طرف ہوتا ہے کہ گھر میں ہی بیٹی رہ جائے گی۔ مظہر چچا کے حالات انہیں بخوبی معلوم تھے کہ ان کی بیٹی مظہر کے گھر خوش نہ رہ سکے گی مگر عالیہ کی والدہ صفدر سے 스 نفرت کرتیں ہیں اور ایک دن عالیہ کی آیا اور صفدر بھائی
کی محبت کے پتہ چلنے پر اتنا بے عزت کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ شروع میں ان کے خطوط موصول ہوئے مگر

پھر رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔

عالیہ کی آپا کا رشتہ ان کی والدہ زور زبردستی سے مظہر کے بڑے لڑکے جمیل بھیا سے طئے کر دیتی ہیں۔ آپا اتنی خوش نہیں ہوتی ہیں، صفدر کی جدائی نے انہیں خاموش
کی محبت کے پتہ چلنے پر اتنا بے عزت کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ شروع میں ان کے خطوط موصول ہوئے مگر

پھر رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔

عالیہ کی آپا کا رشتہ ان کی والدہ زور زبردستی سے مظہر کے بڑے لڑکے جمیل بھیا سے طئے کر دیتی ہیں۔ آپا اتنی خوش نہیں ہوتی ہیں، صفدر کی جدائی نے انہیں خاموش
کر دیا ہوتا ہے۔ دوسرا کر سم دیدی بھی گھر سے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ کر جا چکی ہوتی ہیں۔ وہ ہر وقت ملول رہتی ہیں، جوں جوں شادی کے دن قریب آرہے ہوتے ہیں ان کا رنگ زرد پڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک دن معلوم پڑتا ہے کہ کرسم دیدی واپس آگئی ہیں، ان کا آشنا انہیں دغا دے کر چلا گیا ہے۔ عالیہ ان کے گھر جا کر ان سے مل آتی ہے اور ان کی بدتر حالت کا اپنی آپا کو

بتاتی ہے۔

اگلے ہی دن کرسم دیدی خود کشی کر لیتی ہیں۔ ان کی موت کا عالیہ کی آپا پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ایک طرح ایکراہ سجھائی دیتی ہے، اپنی مہندی کے روز عالیہ کی آپا زہر کھا کر خود کشی کر لیتی ہیں اور گھر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ عالیہ اس سب سے براہ راست متاثر ہوتی ہے وہ دسویں جماعت کی طالبہ ہے اس کے لئے یہ سب برے اثرات کا سبب بنتا ہے خاص طور پر مرد کی شخصیت اس کے سامنے مسح

شام 3:56

ہو کر رہ جاتی ہے۔

عالیہ کی والدہ کا رعب دیدہ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ عالیہ کے والدین کے درمیان ویسے بھی کشیدگی رہتی اب تو مکمل طور پر قطع تعلقی ہو جاتی ہے۔ عالیہ کے والد اب مسلسل انگریز حکومت کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں انہیں اپنے انگریز افسر انتہائی زہر لگتے ہیں۔ ایک معمولی سیچھڑپ کے بعد وہ اپنے انگریز افسر کو مکادے مارتے ہیں اور قتل کرنے پر تل جاتے ہیں، انہیں فوراً گر فتا کر لیا جاتا

ہے۔

عالیہ کے والد کے جیل جانے کے بعد ان سے سرکاری بنگلہ چھن جاتا ہے اور وہ لوگ مظہر چچا کے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کی والدہ کا نخرہ تو کم ہوا مگر طنطنہ ابھی تک باقی تھا کہ انگلستان پلٹ بھائی اور انگریز بھا بھی نے رع بر قرار رکھا ہوا تھا، عالیہ کی بقیہ ماندہ تعلیم انہی کیبھیجی گئی رقم سے مکمل ہوتی ہے۔

عالیہ کے گھر آنے سے پہلے جمیل اپنی چی زاد چھمی سے محبت کے ڈرامے کر کے رقم بٹور لیتا ہے کیوں کہ اس کو تعلیم مکمل کرنے کے لیے روپے پیسے چاہیے تھے۔ چھمی ان کی محبت کو سچ سمجھ لیتی ہے، مگر عالیہ کے آتے ہی جمیل بھیا چھی سے کچھے کچھے سے رہنے لگے اور عالیہ پر آتے جاتے ڈورے ڈالنے لگے ، مگر عالیہ ویسے ہی مرد ذات سے نفرت کرتی تھی وہ جمیل کے انداز خوب سمجھتی تھی اس لئے لفٹ نہ کراتی تھی۔ مگر جمیل کو آہستہ آہستہ عالیہ سے محبت ہو چلی تھی جتنا وہ دور جاتی وہ اتنا اس کے قریب ہونے کو لپکتا ، اس کے وہ اچھے عہدے کی تلاش میں تھا جو کہ بغیر تعلیم کے نامکمل اور تعلیم بنار وپے

پیسوں کے نامکمل تھی۔

مظہر چا مسلسل انگریز بھگاؤ اور ہندو مسلم اتحاد پر پیسہ خرچخرچ کے لیے رقم دینا شروع کر دی، مگر بات بات پر اسی خرچ دینے کے طعنے دیتی تھیں۔ ایک دن عالیہ کے والد کی موت جیل میں ہی ہو جاتی ہے ، عالیہ اور عالیہ کی والدہ کی رہی سہی امید جاتی رہتی ہے۔ تھوڑی بہت جو امید تھی دوبارہ سے اچھی زندگی گزارنے کی وہ مٹ جاتی ہے، عالیہ خود کو بے بس محسوس کرتی ہے کیونکہ جمیل بھیا ان کے گرد اپنا شکنجہ کس رہے ہوتے ہیں۔ عالیہ کی اکلوتی دوست چھمی جمیل بھیا کے عالیہ کی طرف مائل ہونے پر عالیہ سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ ایسے میں حالات اس وقت بگڑ جاتے ہیں جب مظہر چچا کو بھی ہندو مسلم اتحاد کی خاطر جان سے ہاتھ دھونا پڑتی ہے۔ گھر بکھر کر رہ جاتا ہے، شکیل آوارہ گرد بن کر چوری چکاری پر اتر آتا ہے اور جمیل سے حالات سنبھالے نہیں سنبھلتے ، عالیہ کی بے رخی نے اس کو توڑ کر رکھ دیا ہوتا ہے ، چھمی بھی ان سے ناراض ہو جاتی ہے، چھمی کے لیے آیا گاؤں کے ایک گوار گھرانے کا رشتہ منظور کر لیا جاتا ہے ، جہاں اس کے ساتھ بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک بیٹی کی ہی پیدائش پر وہ لوگ اسے گھر سے باہر کرتے ہیں، وہ واپس مظہر چچا کے گھر منتقل ہو جاتی ہے، آمدن نہ ہونے کے برابر ہوتی

شام 3:56

ہے، ہر طرف ہندو مسلم فسادات نے قہر بر پا کر رکھا ہوتا ہے، انہی حالات میں ایک دن بالآخر پاکستان بن جاتا

ہے۔

عالیہ کے امیر ماموں اپنی انگریز بیگم کے ساتھ پاکستان منتقل ہو جاتے ہیں اور کچھ ہی دنوں کے بعد عالیہ کی والدہ اور عالیہ کے لیے جہاز کے ٹکٹ ڈاک پر ارسال کر دیتے ہیں۔ عالیہ کی والدہ پھولے نہیں سماتی اور پاکستان جانے کی تیاری کرنے میں مصروف ہو جاتیں ہیں، عالیہ مظہر چچا کے خاندان کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی مگر ماں کی وجہ سے مجبور ہوتی ہے۔ عالیہ کی والدہ رسمی طور پر مظہر چچا کے خاندان کو ساتھ چلنے کا کہتی ہے

اگر وہ لوگ انکار کر دیتے ہیںآخر وہ دن آ ہی جاتا ہے جب عالیہ اور اسکی والدہ کو پاکستان جانا ہوتا ہے۔ جمیل بھیا بہت کوشش کرتے ہیں کہ عالیہ مت جائے مگر ان کی سنتا ہی کون تھا، اسرار میاں عالیہ وغیرہ کا سامان ہوائی اڈے پر پہنچوا دیتے ہیں، اور عالیہ اپنی والدہ کے ساتھ روانہ ہو جاتی ہے۔ پاکستان آکر ان پر اپنے خود غرض ماموں کی اصلیت کھل جاتی ہے جب وہ بے آسرا بہن بھانجی کو ایک الگ الگ بنگلہ لے کر دیتے ہیں اور عالیہ کو خود اسکول میں پڑھانا پڑتا ہے۔ ہندوستان سے مظہر چچا کے خاندان سے خط و کتابت سے پتہ چلتا ہے کہ شکیل گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پھر اسرار میاں کی گمشدگی کی خبر ملتی ہے، اس کے بعد جمیل بھیا اور چھمی کی شادی کی خبر ملتی ہے، چھ چھمی بہت خوش تھی

کہ جمیل بھیا نے اس کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنالیا تھا۔اس خبر نے غیر محسوس انداز میں عالیہ کو مغموم کر دیا، وہ چڑ چڑی سی رہنے لگی۔ انہی دنوں میں ایک دن ان کے گھر ایک ڈاکو گھس آتا ہے جس کے پیچھے پولیس لگی ہوتی ہے ، بعد میں وہ شکیل نکلتا ہے ، عالیہ اس کی خوب خاطر مدارت کرتی ہے مگر رات کو وہ عالیہ ہی کے پیسے چرا کر

بھاگ نکلتا ہے۔

ایسے میں ایک دن ایک اجنبی ان کے گھر آتا ہے وہ کوئی اور نہیں صفدر بھائی ہوتے ہیں، جو کہ عالیہ کو دیکھتے ہی اس پر فدا ہو جاتے ہیں۔ تبھی عالیہ کو ان کی اپنی آپا سے جھوٹی محبت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور وہ بھی اپنی ماں کی طرح ان سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ کہانی کے اختتام پرعالیہ کے پاس جمیل کی محبت ٹھکرانے کے پچھتاوے کے

سوا کچھ نہیں باقی رہتا۔

خدیجہ مستور کا ناول "آنگن” اردو ادب میں تانیثی حسیت کا ایک اہم شاہکار ہے۔ اس ناول میں مصنفہ نے خواتین کی زندگیوں، ان کی جدوجہد اور معاشرتی ڈھانچوں کے اندر ان کے کردار کو بڑی باریکی سے پیش کیا ہے۔

آنگن نہ صرف ایک تاریخی پس منظر پر مبنی کہانی ہے بلکہ

اس میں عورت کی داخلی دنیا اس کے احساسات خواب اور خواہشات کو بھی بہت مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں تانیثی نقطہ نظر سے معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالی ہے، خاص طور پر عورت کے لیے روایتی کرداروں اور ذمہ داریوں کی حدود کا ادراک کروایا

ہے۔
ہندوستان کی حراست۔ بھارت ایک پاپ

‏Thex notel Most کی نمایاں خصوصیت نے مختلف نمبر کی خواتین کو پیش کیا ہے۔

فیناول میں تصورات، خیالات، خیالات اور احساسات خواتین کے جبر کی کہانی نہیں بتاتے، یہ ان کی جدوجہد اور اپنے کرداروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دکھاتا ہے
ہے۔ ناول میں ہندوستان میں آزادی کی تحریک عروج پر دکھائی گئی ہے۔ عالیہ اتر پردیش کے ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے جس میں کچھ لوگ کا گریس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے متحد وہندوستان کے حامی ہیں اور کچھ مسلم لیگ کے چاہنے والے پاکستان کی حمایت میں نظر آتے ہیں۔ ایک آنگن میں ساتھ رہتے ہوئے بھی شدید اختلافات رکھنے والے لوگ۔ ان میں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو انگریزوں کو معترف ہیں اور انہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ یوں یہ خاندان اس وقت کے ہندوستان کے مخیالات کی ترجمانی کرنے والے رنگ رنگ لوگوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک زمیندار منظر محمود کا گھر تا ہے جس کے بیٹوں میں بنوارہ کی وجہ سے جائیدار بٹ گئی ہے۔ اس لیے اس خاندان کے پہلے والے ٹھاٹ بھاٹ نہیں رہے۔ متوسط طبقے کے اس خاندان کے پاس ماضی کی خوبصورت یادیں ہیں تو حال کی تلخیاں اور سختیاں بھی۔ عالیہ اپنی بین تمہینہ ماں اور باپ کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ والد کی وفات کے بعد یہ لوگ اپنے چچا کے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔

عالیہ اعلی اخلاقی اقدار پر فائز ایک مثالی لڑکی ہے۔ اس کے خاندانی حالات اور زندگی میں پیش آنے والے

حوادث اسے چھوٹی عمر میں ہی ایک باشعور اور سنجید و طبیعت کی مالک بنا دیتے ہیں۔ وہ اپنے والد اور بعد ازاں اپنے چچا سے بہت محبت کرتی ہے۔ یہ محبت ان دونوں شخصیات کی عظمت اور اعلی نصب العین کی وجہ سے ہے۔ پاکستان جانے سے روکنے پر جب عالیہ کی اماں بڑے چچا کے ساتھ بد تمیزی کرتی ہے تو عالیہ بڑے بچا کا ساتھ دیتے ہوئے کہتی ہے: کیا آپ چلنے سے پہلے بڑے چا کو یہی بدلہ دینا چاہتی ہیں ؟ بڑے پچانے کسی کو تباہ نہیں گیا، بڑے چھانے کسی کو دعوت نہیں دی تھی کہ آئو اور میرا ساتھ دو۔ آج آپ اچھی طرح سن لیں کہ مجھے بڑے پاپا سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اہا سے تھی۔ )

عالیہ اپنے ماں باپ کا سہارا بنا چاہتی ہے اس لیے دل لگا کر اور محنت سے پڑھائی کرتی ہے۔ وہ اپنی ماں کے تمام سہارے فوج کے ختم کر دینا چاہتی ہے اور خود ان کا سہارا بنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے ہم کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ اس کی ماں نے جائیداد کے بٹوارے کے بعد حاصل ہونے والی رقم اپنے بھائی کے پاس رکھی ہے اور اس سے خرچے کی کچھ رقم منگواتی ہے جو عالیہ کو بالکل اچھا نہیں لگتا وہ سارے ناول میں وہ اپنے ناموں سے نفرت کرتی دکھائی گئی ہے۔

عالیہ کا چچا زاد بھائی جمیل اس سے بہت محبت کرتا ہے اور بار بار اس محبت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ عالیہ بھی اس سے محبت کرتی ہے لیکن انجانے خوف کی وجہ سے کبھی اعتراف محبت نہیں کرتی بلکہ ہر بار جمیل کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ شاید اسے تہمینہ اور کم دیدی کی محبت کے انجام کی وجہ سے محبت سے کچھ لگا کو نہ رہا۔ عید پر عالیہ نئے کپڑے ملنے کی وجہ سے بہت خوش تھی لیکن جب اسے پتا چلا کہ کپڑے جمیل نے لا کر دیے ہیں تو اس کا رد عمل کچھ یوں تھا: ہے۔ شاہد سے کہ اس نے کپڑے پلنگ پر ڈال دیئے۔ ایک لمحے کو اسے ایسا محسوس ہوا کہ یہ کپڑے جمیل بھیا کی انتہائی محبت کا تحفہ ہیں مگر دوسرے ہی لمحے یہ کپڑے ٹھنڈے اور کفن کی۔۔۔۔۔۔
عالیہ کے کردار میں انسان دوستی کارویہ نظر آتا ہے۔ وہ رواداری اور محبت کی قائل ہے۔ ایک دن عالیہ کھٹر کی

سے کسی ہندو کو جاتے دیکھتی ہے تو اسے بہت اچھا لگتا ہے:

ہاتھ میں پیتل کی چھچھاتی لڈیا پکڑے کوئی شخص سڑک کے قلب پر نہانے کے لیے جا رہا

تھا۔۔ اب یہ نہا کر ہو جا کرے گا، ہاتھ جوڑ کی بھگوان کی مورتی کے سامنے جھک جائے گا۔ یہ ہندو ہو جا کرتے اتنے خوبصورت کیوں معلوم ہوتے ہیں۔ اسے ایک دم کہ دم کم دیدی یاد آگی ah)‏

عالیہ کے سب گھر والے اسرار کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں کیونکہ اسرار ان کے دادا کی نا جائز اولاد

تھی۔ اسے بچا کچا کھانے کے لیے دیا جاتا تھا۔ جب گھر کے سب لوگ اسرار کے ساتھ پر اسلوک کرتے تو عالیہ تو بہت ترس

آتا وہ اکثر اپنے چا اسرار کے بارے میں سوچتی تھی کہ آخر ان کا کیا تصور ہے وہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ ہمدردی کرتی نظر

آتی ہے:

ارے ان بیچارے کا کیا قصور ہے، یہ سب لوگ ان کے لیے پتھر کیوں بن گئے

ہیں۔۔۔ اس کا جی چاہا کہ اس وقت دوڑ کر چلی جائے ۔ اپنے ہاتھوں سے کشتی سجائے اور پھر اسرار میاں کے سامنے رکھ دے۔۔ مگر یہ سب کچھ کتنا نا ممکن تھا۔ اس طرح تو اماں کے اتنے پرانے وقار کو ٹھیس لگ جائے گی۔ (۲)

اسرار میاں کو بخار ہو گیا تو عالیہ کو اس کی فکر ستائے رکھتی۔ وہ اپنے چاکی تبار داری کرنا چاہتی تھی لیکن اماں کی ناراضی کے خوف سے نہ کر سکتی تھی:
اعلی انسانی اقتدار کے حامل اس کردار کے بارے میں ڈاکٹر انور پاشا لکھتے ہیں: عالیہ کے کردار میں نظامت، تہذیب و اخلاق، شعور اور اعلی اقدار و روایات سب کا بہترین اختران پایا جاتا ہے جس کے سبب وہ اردو ناول کی ایک بہترین ہیروئن کا درجہ

حاصل کر لیتی ہے ۔ ” (1)

23

عالیہ والدین خصوصا والدہ کی فرماں بردار بیٹی ہے۔ پورے چول میں وہ ہر جائز وناجائز باتوں پر اپنی ماں سے کبھی

اختلاف نہیں کرتی۔ پاکستان بننے کے بعد وہ نہ چاہتے بھی ماں کے کہنے پر پاکستان آجاتی ہے۔ چول کے اختتام میں کہیں کہیں عالیہ جرات کا مظاہر ہ کرنے لگتی ہے اور اپنی ماں کی غلط باتوں پر احتجاج بھی کرنے لگتی ہے۔ پاکستان آنے کے بعد وہ اپنی ماں کی کی مخالفت کے باوجو د والٹن کیمپ جانا شروع کر دیتی ہیں جہاں وہ مہاجر بچوں کو مفت تعلیم دیتی ہے جس سے اسے

روحانی سرشاری ملاتی ہے۔

ہے۔

والٹن کیمپ کے ایک ڈاکٹر عالیہ کو شادی کی پیش کش بھی کرتے ہیں۔ اس ڈاکٹر کی پریکٹس خوب چلتی ہے اور معاشی حالت خاصی مستحکم ہوتی ہے۔ عالیہ سوچنے کے بعد صرف اس لیے اس رشتے کو ٹکر دیتی ہے کہ دو ڈا کٹر لئے ہوئے لوگوں کے علاج سے روپیہ جمع کر رہا ہے۔ وہ صفدر کے ساتھ شادی کا فیصلہ بھی اسی لیے کرتی ہے کہ وہ مظلوم ہے اور ساری دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے لہذا وہ اس کا ساتھ دینا چاہتی ہے لیکن جیسے ہی صفدر عالیہ کی ماں کے سامنے اپنی زندگی کو بدلنے اور پیسے کما کر گاڑی ، بلکہ بنانے کی بات کرتا ہے تو عالیہ اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ یوں عالیہ کی کردار عام

لڑکیوں سے بالکل مختلف نظر آتا ہے جو روپے پیسے کو اپنا سب کچھ سمجھتی ہیں۔ عالیہ کے سامنے مال و دولت کی کوئی اہمیت نہیں وہ انسانیت اور اعلی انسانی اقدار کی متلاشی نظر آتی ہے اور شاید اس لیے اکیلی رو جاتی ہے۔

ناول ” آنگن کا ایک اور بہادر نسوانی کردار حامی ہے یہ عالیہ کے چھوٹے چچا کی بیٹی ہے۔ اس کی ماں بچپن میں انتقال کر جاتی ہے اور باپ دوسری شادی کر لیتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی پرورش بڑے چچا کے گھر ہوتی ہے۔ یہ ایک ضدی

اور خود سر لڑکی ہے کیونکہ اسے ماں باپ کی صحبت اس طرح سے نہ ملی۔ اس کا کر دار باغیانہ طور پر ہمیں نیز می لکیر کی شمر ٹیڑھی شمن کی یاد دلاتا ہے کیونکہ وہ بھی والدین کی محبت کو ترستی ہے۔ دونوں کردار ہی محبت و توجہ کی متلاشی نظر آتے ہیں۔ یہ تلقی ان میں مزاحمت اور انقلابی رو بہ پیدا کر دیتی ہے۔ چھی کے ابا اسے ہر مہینے کچھ رقم منی آزاد کرتے ہیں۔جب چھی کو منی آرڈر ملا تو اس نے بڑے چاکو سے کھونگا لیکن پانچ روپے کا نوٹ دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ اس نے نوٹ کے

ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا اور کہا:

اتنے روپوں سے تو ہمارے ابا کی تیسری بیوی صاحبہ کا کفن تک نہ آئے گا۔ جانے لوگ چے پیدا ہی کیوں کرتے ہیں، اس سے تو کتنے کے پہلے پال لیں۔ ۲)

بھی اپنے چازاد بھائی جمیل سے محبت کرتی ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتی ہے۔ اپنے منی آرڈر کے زیادہ تر رو پے وہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے جمیل کی تعلیم پر شریف کرتی ہے۔ جب وہ جمیل

کا جو کا تو عالیہ کی طرف دیکھتی ہے تو کہتی ہے:

تو کیا ان پر نچھاور ہوتی پھروں گی، بھئی جو ہم سے محبت کرے گا ہم اس سے محبت کریں گے یہ تو بد لہ ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ 002

دو ایک نڈر اور بے خوف لڑکی ہے جو بھی اس کے دل میں ہوتا ہے بغیر ڈارنے اسے کہہ دینے کی عادی ہے۔

ایک بار وہ جمیل کو عالیہ کے ساتھ بات کرتے دیکھ کر کہتی ہے: ان کے دھوکے میں نہ آئے گا بجیا، یہ پہلے مجھ سے عشق کرتے تھے اور اب آپ سے

(10

چھی مسلم لیگ سے بہت محبت کرتی ہے۔ اپنے چچا جو کچے کا نگر ی ہیں، کے گھر رہتے ہوئے مسلم لیگ کے چلے

منعقد کراتی ہے اور بچوں سے کا نگریس کے خلاف نعرے لگواتی ہے۔ اس کی ان بے باکیوں کی وجہ سے سارا گھر خصوصا اس

کی چچی بہت تلک ہے ایک دن وہ اسی طرح کے ایک چلے کا انتظامات کر رہی تھی کہ چچی نے کہا اس کے ابا کو اسکی نظر ہی

نہیں

وہ بول پڑھا کے اسے ٹھکانے لگائے، اس پر چھمی کہتی ہے؟

جسے شوق ہو وہ خود اپنے دو بول پڑھوالے )

ڈاکٹر عقیلہ جاوید ” اردو ناول میں نمایشیت” میں اس کردار کے بارے میں لکھتی ہیں:

چھی کی صورت میں جاگیر ادارانہ معاشرت کی کھوکھلی قدروں پر بھر پور طنز

ہے۔ یہاں ایک جاہل، اکٹر، ان پڑھ اور گنوار لز کی اپنے عہد کی سچائیوں سے بڑی ہے رحمی کے ساتھ نقاب اٹھاتی ہے۔ وہ عالیہ کی طرح رکھ رکھائو، ضبط و تحمل اور سنجیدگی کی

نہیں۔

چھی کی زبان درازی کی زد میں گھر کا ایک فرد آتا ہے وہ گھر کے سربراہ اپنے چاچا کا کوئی پاس لحاظ نہیں رکھتی بلکہ اعلامیہ ان کے خلاف باتیں
زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔

ناول آنگن میں عورت کا ایک روپ عالیہ کی ماں کی صورت دکھایا گیا ہے۔ عالیہ کی ماں اپنی ساس کی طرح ایک سخت گیر خاتون ہے بلکہ بعض معاملات میں اس سے بھی زیادہ سخت طبعیت کی مالک ہے۔ دور وایتی مشرقی حراج رکھنے والی خاتون ہے جو عورت کی آزادی کے سخت خلاف ہے۔ اپنی اند مسلمی جس نے پسند نے شادی کی، کے بارے میں وہ کہتی

سواش سلمی میری بیٹی ہوتی تو پہلے ہی دن اسے اپنے ہاتھوں سے زہر کھلا دیتی۔ (۱۲)

عالیہ کے والد روشن خیال اور پڑھے لکھے انسان ہیں لیکن اس کی ماں ان کے بالکل بر عکس روایتی، متعصب قسم

کی خاتون ہے۔ وہ اپنی تند سلمی کے بلیئے مندر سے بہت نفرت کرتی تھی کیونکہ اس کی ماں نے پسند کی شادی کی تھی۔ مندر دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی ایک مستقل وجہ تھا۔ وہ صفدر کو بچا کیا اور گلا سڑا کھانادیتی اور اس کے ساتھ بہت سلوک کرتی تھی۔

عالیہ کے والد کے جیل جانے کے بعد یہ کنبہ بڑے پنچا کے گھر آجاتا ہے۔ بڑے چچا اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے کاروبار پر توجہ نہیں دیتے لہذا اگھر کی آمدنی بہت قلیل ہو گئی اور گزارا مشکل سے ہونے لگا۔ ان حالات میں بھی عالیہ کی

ماں نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اپنے بھائی کے پاس اپنی رکھی ہوئی رقم نہیں منگواتی اس کا کہنا تھا کہ :

ہم اس سے زیاد و رو پے نہیں مانگے گے ، تمہارے بڑے چاچا کا فرض ہے کہ وہ ہماری ہر ضرورت کو پورا کریں، آخر تو ان کے بھائی کا قصور ہے ، ہم خود سے تو ان کے گھر آکر

نہیں بیٹھ گئے۔ (۱)

عالیہ کی ماں خاصی پر مکینیکل ہے وہ اپنی بادشاہت اور تخت و تاج چاہتی ہیں۔ کسی کے پھلے سے متعلق زیادہ نہیں سوچتی۔ بعض مواقع وہ ہمیں احسان فراموش لگتی ہیں۔ عالیہ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد عالیہ کی ماں نے اسے نوکری کرنے کا

سمتی ہے:

بس اب تم جلدی سے ملازمت کی درخواستیں دینے لگوں میں بھر پائی ان

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں