کتاب کا نام ؛ پاکستانی زبانوں کا ادب،
کوڈ نمبر ؛ 5618۔
موضوع ؛ کشمیری نظم،
صفحہ نمبر ؛ 288۔
کشمیری نظم
کشمیری ادب اکثر و بیشتر اعظم پر ہی مشتمل ہے۔ کشمیری نظم کا جو ذخیر و اب ہمارے پاس موجود ہے اس میں اللہ عارفہ اور حضرت شیخ نورالدین ولی کے نام سرفہرست ہیں
۔ یہ جو قطعات لکھا کرتے تھے ان کو کشمیری میں اشلوک (Knots) کہا جاتا تھا۔ یہ بات چودہویں صدی عیسوی کی ہے۔ اشلوک لکھنا کشمیری کا اپنا ہی اسلوب بیان تھا۔
اس کے بعد حبہ خاتون ملکہ کشمیر کا دور آیا جس نے فارسی اور عربی عروض اور بحور استعمال کیں اور ہلکی پھلکی بحروں میں عشقہ نظمیں اور غزلیں لکھیں ۔
للہ عارفہ اور نورالدین ولی کے کلام میں متروک کشمیری الفاظ کا استعمال بھی ملتا ہے لیکن حبہ خاتون کی زبان ایسی ہے کہ آج کے لوگ بھی اس کو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔
ہندوستان میں جوں ہی چھاپے خانوں کا رواج ہوا، کشمیر میں بھی بعض شعراء کے کلام کو زیور طبع سے آراستہ کیا گیا لیکن 1931 ء سے قبل کشمیر میں سرکاری پر نٹنگ پریس کے علاوہ کوئی پریس نہیں تھا اس لیے کشمیری شعرا کا کلام جو طیع ہو کر آتا تھا ،
نعت رسول وغیرہ پر ہی مشتمل تھا۔ اس کے بعد جب کشمیر میں بھی چھا پہ خانے کھل گئے تو تھا، اگلے پچھلے شاعروں کے کلام کو طبع کیا جانے لگا لیکن پوری کتاب شائع کرنے کی بجائے کلام اجزاء میں چھپنے لگا تا کہ لوگوں کو خریدنے میں آسانی ہو۔
ابتدائی ناشرین نے جب قد ما کا کلام طبع کیا تو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ان کو یہ کلام کہاں سے ملا اور اس کی سند کیا ہے؟ بہر کیف اس زمانے میں یہ بھی نیمت تھا کہ کشمیری نظم کی کتا بیں شائع ہونے لگیں ۔
پچھلی صدی میں کشمیر کی تحریک آزادی نے جنم لیا۔ انیسویں صدی کی کشمیری شاعری عشق و مستی ، قصہ کہانی اور زلف و رخسار کی شاعری تھی۔
1931 ء تک یہی حال رہا۔ اس پر اقبال کو بھی کشمیری مسلمان سے کہنا پڑا کہ تیرے دین و ادب سے رہبانیت کی بو آ رہی ہے لیکن تحریک آزادی کے بعد کشمیری نظم نے ایک نیا رخ اختیار کیا ۔
کشمیری زبان میں قومی ، اصلاحی بلکہ باغیانہ نظمیں بھی لکھی گئیں ۔ کشمیری زبان اور معاشرے میں مزاح کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ کشمیری شاعری کے ہر دور میں مزاح کا عنصر بھی شامل رہا ہے۔ مقبول شاہ کرالا داری کا گریس نامہ اور پیر نامہ اس کی تابندہ مثالیں ہیں۔
سیاسی لیڈروں اور ان کی تحریکوں کے خاکے بھی نظم میں کھینچے کھتے ہیں ۔ کشمیری شاعری میں نعت ، تصوف، درد و محبت ، حب وطن، جذبہ انسانیت، رزم و بزم کی داستا نہیں غرضیکہ بھی کچھ ہے۔
اللہ عارفہ کے کلام میں تصوف ہے ۔ شیخ نورالدین ولی کے ہاں تبلیغ دین اور توحید باری ہے۔ حبہ خاتون کے ہاں سوزوساز اور حبیب اللہ نوشہری کے ہاں تصوف کی باریکیاں ہیں، میر ثنا اللہ کریری اور پیر عزیز اللہ حقانی نے عمدہ شاعری کی۔
محمود گامی نے بہار نامہ لکھا۔ گزشتہ صدی میں غلام احمد محجور قومی شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ ان کے ہاں جذبہ آزادی اور حب وطن ہے۔ عام آدمی بھی ان کا کلام مزے سے پڑھتا ہے۔
عبد الاحد آزاد کے کلام میں انسانیت اور اخوت کا پیغام ہے۔ جب انسانی کا جذبہ ان کے کلام کی ممتاز خصوصیت ہے۔ ان تمام شعرا کو کشمیری شاعری میں اہم مقام حاصل ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں