جوش ملیح آبادی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

جوش ملیح آبادی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Josh Malihabadi ki shairi ka tanqeedi jaiza

نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat

کچھ اس تحریر سے:

  1. شاعر فطرت ، شاعر شباب اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کو اگر ستادوں نے بیسویں صدی میں اقبال کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا ہےتو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔۔۔
  2. جوش کی روایت شکن طبیعت نے دبستان لکھنو کی شعری قدروں اور روایتوں سے بغاوت کر کے اپنی شاعری کو تہذیبی بلندی اور وقار سے ہم آہنگ کیا اور غزلوں میں اپنا ایک اسلوب قائم کیا۔۔۔
  3. کہ وہ انگریزی کے تین فطرت پرست شاعروں کیلے، کیٹس اور ورڈس ورتھ کی طرح اپنی حسیات کے ذریعہ اس کے تمام رنگوں ، اس کی شادابی و شگفتگی ، اس کی خاموشی میں پنہاں صداؤں اور اس کے سوز و گداز کو محسوس کرتے ہیں۔۔۔
  4. جوش کی انقلابی شاعری کے پس پست کوئی فلسفہ حیات نہیں ہے۔۔۔۔(ڈاکٹر روشن اختر)
  5. غالباً جوش پہلے شاعر ہیں جنہوں نے حسین، کر بلا ، فرات، یزید وغیرہ کو علامت اور استعارے کے طور پر اردو شاعری میں متعارف کرایا۔۔۔
  6. جوش کی شاعری کا تذکرہ ان کی رثائی شاعری کے بغیر ادھورا رو جائے گا جوش کا تعلق شاعری کے دبستان لکھنو سے تھا۔۔۔

جوش ملیح آبادی کی شاعری (1982-1898)

شاعر فطرت ، شاعر شباب اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کو اگر ستادوں نے بیسویں صدی میں اقبال کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا ہےتو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔

فیض احمد فیض اور مولوی عبد الحق جیسے شاعروں اور ادیبوں نے جوش کی شاعرانہ عظمت کا اعترافی بر ملا کیا ہے۔

اقبال ہی کی طرح جوش نے غزلیں اور نظمیں دونوں کہیں مگر ان کے فکر وفن کی جولانیاں پوری طرح نظموں میں ہی جلوہ گر ہوئیں۔

انہوں نے غزل ہی کی ہیت میں زیادہ تر نظمیں کہیں۔ قدرت نے انہیں بے پناہ ذہانت تخلیقی صلاحیت اور قوت مشاہدہ عطا کی تھی

جن کی بدولت انہوں نے ہر قسم کے موضوعات پر نظمیں کہیں۔

ان کی شاعری میں حسن و شباب کے ساتھ ساتھ تہذیبی و اخلاقی اقدار، سیاسی و سماجی مسائل اور مناظر و مظاہر فطرت یکساں حیثیت رکھتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: جوش ملیح آبادی کے معاصر شعراء

ان سب کے ساتھ ساتھ جوش کو کسی کو خاطر میں نہ لانے والا مزاج اور انقلابی اور روایت شکن ذہن عطا ہوا تھا جس کی وجہ سے ایک طرف تو انہوں نے سماج اور ادب میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے تو دوسری طرف انہیں اپنی زندگی میں کافی پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔

مگر ان کے بانکپن میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔

جوش نے لکھنو تہذیب کی آغوش میں آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی۔

یہ بھی پڑھیں: جوش ملیح آبادی کی شاعری کا تجزیہ مطالعہ | PDF

ان کی شاعری دبستان لکھنو کی پر وردہ ہے۔ اس زمانے میں اردو شاعری عموماً حسن و عشق کے معاملات سے عبارت تھی اور حسن پرستی اور عشق کا اظہار کبھی کبھی عامیانہ سطح تک اتر آیا تھا۔

وصل کی شب پلنگ کے اوپر

مثل چیتے کے وہ اچھلتے ہیں

جوش کے مزاج کی رومان پسندی اور حسن پرستی بھی اسی جاگیر دارانہ نظام کی دین تھی۔ جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔

گاؤں کے صاف ستھرے ماحول اور فطرت سے قربت کی وجہ سے روحانیت اور فطرت پرستی ان کی طبیعت کا جزو لاینفک بن گئی

مگر جوش کی روایت شکن طبیعت نے دبستان لکھنو کی شعری قدروں اور روایتوں سے بغاوت کر کے اپنی شاعری کو تہذمیں بلندی اور وقار سے ہم آہنگ کیا اور غزلوں میں اپنا ایک اسلوب قائم کیا۔

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

لیکن آگے چل کر وہ نظموں کی طرف مائل ہوئے اور صنف نظم کو ہی اپنے تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ ” روح ادب” نظموں اور غزلوں دونوں پر مشتمل تھا۔

مگر بعد میں انہوں نے تقریباً درجن بھر نظموں ، مسدس اور رباعیوں کے مجموعے شائع کئے جن میں چند کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جوش ملیح آبادی کی عشقیہ شاعری | PDF

شعلہ و شبنم،فکر و نشاط، آیات و نغمات، جنوں و حکمت، سرودخروش، سنبل و سلاسل۔

انہوں نے 5 دسمبر 1998 ء کو ملیح آبادی میں اس جہان فانی میں آنکھیں کھولیں ۔ لہذا ان کی نوجوانی کا زمانہ ہندوستان میں سماجی اور سیاسی اتھل پتھل کا زمانہ تھا۔

ایک طرف انگریزوں نے ہندوستانی عوام پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا تھا تو دوسری طرف جاگیردارانہ نظام کے تحت عوام ظلم، جہالت، غربت و افلاس اور سیٹھ ساہوکاروں اور زمینداروں کے ہاتھوں استحصال کی چکی میں پس رہے تھے۔

ملک کی آزادی کی تحریک بھی شدت اختیار کر چکی تھی۔ لہذا ملک کے سماجی و سیاسی حالات نے ان کے ذہن و دل پر رفتہ رفتہ اپنا اثر قائم کرنا شروع کیا، اور ان کے شعری نظریات کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا

اور ان کی شاعری میں احتجاج اور انقلاب کا رنگ پوری طرح غالب آگیا:

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

1916ء میں ان کے والد بشیر احمد کا انتقال ہو گیا۔ اس دوران وہ بنگال کے دشوا بھارتی میں زیر تعلیم تھے۔

لہذا چھ مہینے کے بعد ہی انہیں تعلیم چھوڑ کر وطن لوٹنا پڑا۔

وہ اپنے آبائی جائیداد کا انتظام سنبھالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نوجوان شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرلی۔

1918 میں انہوں نے اپنا پہلا مرثیہ آوازہ حق تخلیق کیا۔ اس وقت ان کی عمر 20 برس تھی۔

اردو، فارسی اور عربی پر ان کی دسترس کی بدولت انہیں 1925ء میں نظام دکن کے ماتحت عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں ملازمت ملی اور انہیں ملیح آباد سے حیدر آباد منتقل ہونا پڑا۔

انہوں نے وطن چھوڑنے کے اپنے دکھ کو اپنی ایک خوبصورت نظم "اے ملیح آباد کے رنگین گلستان الوداع” میں پیش کیا ہے۔ دو بند ملاحظہ ہوں:

اے ملیح آباد کے رنگین گلستان الوداع

الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع

الوداع اے کشور شعر و شبستان الوداع

الوداع اے جلوه گاه حسن جاناں الوداع

تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے

آگلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے

اے ملیح آباد کے رنگین گلستان الوداع

آم کے باغوں میں جب برسات ہوگی پر خروش

میری فرقت میں لہو روئے گی چشم مئے فروش

رس کی بوندیں جب اڑادیں گی گلستانوں کے ہوش

کنج رنگین میں پکاریں گے ہوائیں جوش جوش

سن کے میرا نام موسم غم زدہ ہو جائے گا

ایک محشر سا گلستان میں بپا ہو جائے گا

اے ملیح آباد کے رنگین گلستان الوداع

یہ نظم فطرت سے ان کے گہرے روحانی لگاؤ کی مظہر ہے ان کی شاعری میں مجموعی طور پر تین نمایاں رنگ ہیں۔

رومانیت ، فطرت پرستی اور احتجاج و انقلاب، فطرت سے ان کا روحانی لگاؤ اتنا گہرا ہے

کہ وہ انگریزی کے تین فطرت پرست شاعروں کیلے، کیٹس اور ورڈس ورتھ کی طرح اپنی حسیات کے ذریعہ اس کے تمام رنگوں ، اس کی شادابی و شگفتگی ، اس کی خاموشی میں پنہاں صداؤں اور اس کے سوز و گداز کومحسوس کرتے ہیں

اور انہیں اپنا ہمر از محبوب اور دمساز سمجھ کر ان سے اپنے دکھ دردکا اظہار کرتے ہیں۔ وہ خود فرماتے ہیں:

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی

جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

ان کی ایک اور نظم "البیلی صبح” میں جو روانی ، برجستگی اور حسن بیان ہے وہ جوش کی فطرت نگاری کو ایک منفرد انداز و آہنگ عطا کرتی ہے۔

اس میں انہوں نے جو استعارے، پیکر اور لفظیات استعمال کی ہے وہ بالکل نئی ہے اور ان کی فنکارانہ چابک دستی پر دال ہے:

نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے

سحر کا تارا ہے زلزلے میں افق کی لوتھر تھرا رہی ہے

ستارہ صبح کی رسیلی جھپکی، آنکھوں میں ہیں فسانے

نگار مہتاب کی نشیلی نگاہ جادو جگا رہی ہے

طیور بزم سحر کے مطرب لچکتی شاخوں پہ گا رہے ہیں

نسیم فردوس کی سہیلی گلوں کو جھولا جھلا رہی ہے

کلی پہ بیلے کی کس ادا سے پڑا ہے شبنم کا ایک موتی

نہیں یہ ہیرے کی کیل پہنے کوئی پری مسکرا رہی ہے

شلو کا پہنے ہوئے گلابی ہر اک سبک پنکھری چمن میں

رنگی ہوئی سرخ اور ڈھنی کا ہوا میں پلو سکھا رہی ہے

افق سے دھیرے دھیرے طلوع ہوئے سورج کو عروس فطرت کی جھکی ہوئی نظر کہنا۔

اندھیرے کے دور ہونے کو جبیں سے زلفیں ہٹانا ، نگار مہتاب کی نشیلی نگاہ نسیم فردوس کا گلوں کو جھولا جھلانا،

پیلے کی کلی پی شبنم کی موتی کا پڑا ہونا اور پنکھڑیوں کا ہوا میں پلو سکھانا جوش کی شاعرانہ صناعی کے نمونے ہیں

اور اس طرح کی مثالیں ان کی نظموں میں بکھری پڑی ہیں۔

فطرت کے مناظر ، مظاہر اور عناصر پر جوش نے اور بھی نظمیں کہی ہیں۔

جن میں ساون کے مہینے، یوم بہار، برسات کی چاندنی، گھٹا شام کا رومان” اور ” گرمی اور دیہاتی بازار قابل ذکر ہیں۔

ان کی نظموں میں صرف فطرت کی تصویر کشی نہیں ہے بلکہ ایک جواں دل کی دھڑکنیں ہیں۔

حسن و شباب کی رنگینیاں بھی ہیں اور دل عشاق کی تڑپ بھی ہے۔

جوش کی شاعری کا تذکرہ ان کی رثائی شاعری کے بغیر ادھورا رو جائے گا جوش کا تعلق شاعری کے دبستان لکھنو سے تھا

جسے مرثیہ گوئی کے فن میں مرکزیت حاصل ہے اور جہاں دبیر نے فن مرثیہ گوئی کو درجہ کمال تک پہنچا دیا۔

جوش نے بھی اپنے مراثی سے اردو کی رثائی شاعری میں قابل قدر اضافہ کیا۔

انہوں نے "آواز و حق” اور "حسین اور انقلاب” کے علاوہ کئی مرثیے لکھے۔

ایک مرثیہ گو کی حیثیت سے جوش کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے مرثیہ گوئی کی کلاسیکی روایات کی اندھی تقلید نہ کر کے انہیں آگے بڑھایا اور انہیں عصری حسیت سے روشناس کرایا۔

انہوں نے مرثیے کو ماضی سے نکال کر اسے مستقبل کے آفاقی معاشرے سے جوڑ دیا۔

غالباً جوش پہلے شاعر ہیں جنہوں نے حسین، کر بلا ، فرات، یزید وغیرہ کو علامت اور استعارے کے طور پر اردو شاعری میں متعارف کرایا۔

آواز حق کو جدید اردو مرثیے کا آغاز کہا جاتا ہے۔ جوش نے مرثیے کی ہیئت میں تو کوئی تبدیلی نہیں کی مگر نظریاتی سطح پر جدت سے کام لیا اور مرثیے کی روایت کو بڑھایا۔

جوش کے انقلابی مزاج نے مرثیے پر بھی اپنا نقش چھوڑا اور اسے نئی توانائی بخشی ۔

ان میں جوش نے حضرت امام حسین اور اہل بیت کی مظلومیت کی داستان تو بیان کی مگر زیادہ زور ان کے ایثار، قربانی ، شجاعت صبر و استقلال اور حق کے لئے خوشی خوشی سر کٹا دینے کے جذبے کو نمایاں کیا۔

انہیں اور اس واقعے کو دنیا کے سامنے اسلامی ماڈل کے طور پر پیش کیا:

پانی سے تین روز ہوئے جس کے لب نہ تر

تیغ و تبر کو سونپ دیا جس نے گھر کا گھر

جو مر گیا ضمیر کی عزت کے نام پر

ذلت کے آستاں پہ جھکایا نہ جس نے سر

لی جس نے سانس رشتہ شاہی کو توڑ کر

جس نے کلائی موت کی رکھ دی مروڑ کر

مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار

اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار

پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار

پھر کر بلائے ںو سے ہے نوع بشر دوچار

اے زندگی جلال شد مشرقین دے

اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین دے

ان تمام نظموں کے مطالعے سے جوش کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے فطرت ، رومان اور انقلاب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

اپنی انقلابی شاعری کے لئے وہ خاص طور پر پہچانے لگے کیونکہ وہ جس دور میں شاعری کر رہے تھے۔

وہ جنگ آزادی کا زمانہ تھا اور ان کی احتجاجی اور انقلابی شاعری کے عوام کی توجہ خاص طور پر کھینچی ۔

مگر کچھ نقاد یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ جوش کے یہاں کوئی نظریہ یا فلسفہ نہیں ہے جیسا کہ اقبال کے یہاں یا دیگر ترقی پسندوں یا حلقہ ارباب ذوق کے شاعروں کے یہاں ہے۔

ڈاکٹر روشن اختر کا ظمی لکھتے ہیں:

"جوش کی انقلابی شاعری کے پس پست کوئی فلسفہ حیات نہیں ہے۔

مارکسیت کا فلسفہ بھی نہیں کیونکہ انہوں نے کبھی بھی مارکس کی تعلیمات کو فلسفہ زندگی تسلیم نہیں کیا تھا۔

غالباً وہ اس سلسلہ میں خود کسی نئے فلسفہ کے امکانات پر غور کر رہے تھے

جسے ترتیب دینا ان کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔

اس سبب سے یہ کہنا غلط نہیں کہ ان کی انقلابی شاعری فکر سے زیادہ جذبے کی مرہون منت ہے۔

لیکن اس کے باوجود ان کی انقلابی شاعری میں کچھ ایسی اقتدار موجود ہیں جو آفاقی صفات رکھتی ہیں۔

مثال آزادی سے پیار، انسان دوستی ، مجبوروں سے ہمدردی وغیرہ لیکن یہ خصوصیات یا قدریں تو کم و بیش ہر شاعر کے کلام میں کسی نہ کسی شکل میں مل جاتی ہیں۔

جوش کی انفرادیت کا اظہار صرف ان اقدار کی تعلیم سے نہیں ہو سکتا بلکہ ان کی انفرادیت ان کے مخصوص لب ولہجہ اور جوش و خروش کے جذبات کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے جس میں کوئی نہ کوئی ان کا ہم سر ہے اور نہ حریف ۔“

(اردو میں طویل نظم نگاری کی روایت اور ارتقاء، از ڈاکٹر روشن اختر کاظمی ، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی 1984 میں 231)

لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جوش کی نظمیں آفاقی حیثیت کی حامل ہیں۔

ان کی نظمیں آج کے حالات پر بھی صادق ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات ، رشوت خوری، لاقانونیت ، مہنگائی ، گندگی اور خود غرض سیاست ادیب اور نقاد میں چشمک وغیرہ۔

لہذا جوش کی شاعری نہ صرف ان کے دور کا آئینہ ہے بلکہ آج کے دور میں اس کی معنویت کم نہیں ہوتی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں