مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جیلانی کامران اردو تنقید میں ثقافتی جڑوں کی تلاش اور حقیقت کا فلسفہ

بعد از تقسیم: ثقافتی جڑوں کی تلاش

نئی قومی سوچ اور ادبی رجحانات

اب ضروری تھا کہ ان کو ایک نقطہ پر مرتکز کیا جاتا ہے اس طرح خود کو دوبارہ منظم و مربوط کرنے کے رجحانات سامنے آنے شروع ہوئے کئی نقاد ثقافتی و تہذیبی جڑوں کی تلاش میں آگے نکل گئے۔ ناقدین نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے اردو ادب کی جڑوں کی تلاش کا کام شروع کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو ادب کی جڑوں کو تاریخ کے اندر تلاش کرتے ہوئے اسلامی تہذیب اور ہندی تہذیب کے ملاپ کا ذکر کیا ۔ اسی طرح جیلانی کامران نے اسلامی عجمی روایت کو جدید اردو تنقید میں ثقافتی اور تہذیبی سطح پر اجاگر کیا۔

وزیر آغا کی جیلانی کامران پر رائے

ڈاکٹر وزیر آغا، جیلانی کامران کے بارے میں لکھتے ہیں :
"بعض ناقدین نے اسلامی تہذیب کے حوالے سے اردو ادب کی جڑوں کا ذکر چھیڑا اور ان جڑوں کو تاریخ کے اندر اس نقطے تک پھیلا ہوا دیکھا، جہاں اسلامی تہذیب، ہندی تہذیب سے آ کر ٹکرائی تھی۔ جیلانی کامران نے اس سلسلے میں عجمی ہندی تہذیب کو اہمیت دی اور بعد ازاں "رہائ” اور "آشنائ” کی بحث میں مابعدالطبیعیات کو اساسی حیثیت تفویض کی "(35)

جیلانی کامران کی تنقیدی بصیرت

مشرقی و مغربی نظریات کا امتزاج

جیلانی کامران انگریزی اور اردو کا گہرا مطالعہ بھی رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید میں مغربی اور مشرقی نظریات کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے ۔ انگریزی کے استاد ہونے کی وجہ سے ان کی تنقید کی بنیاد وسیع نظر آتی ہے ۔ ان کے ہاں عہد حاضر کے اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ ان کے ہاں معروضی طور پر سوالات سامنے آتے ہیں کہ اگر ہم لکھیں تو کیا لکھیں؟ ادب کے بارے بھی کے سوالات سامنے آتے ہیں ۔ کہ عہد حاضر میں ادب کا کیا کام ہے اور ہم اگر لکھتے ہیں تو کیوں ہم ادب سے کیا کام لینا چاہتے ہیں وغیرہ۔

فلسفیانہ انداز اور تنقید کا معیار

ان کے تنقیدی نظریات ساکن نہیں ہیں ۔ انگریزی ادب کے وسیع مطالعہ کے ساتھ اردو ادب سے گہری دلچسپی کے باعث ان کی سوچ میں حرکت اور فلسفیانہ انداز نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید کا معیار بلند ہے اور وہ ایک اہم نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ جیلانی کامران نے دو قسم کی تنقید (نظریاتی تنقید اور عملی تنقید) لکھی ہے ۔ وہ جب عملی تنقید لکھتے ہیں تو وہ ذوق سے اور جمالیاتی حس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی عملی تنقید میں جدید علوم سے استفادہ کرتے ہیں ۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ جیلانی کامران عملی تنقید کے میدان میں آگئے ہیں ۔

حلقہ اربابِ ذوق پر جیلانی کامران کی آراء

آزادی اظہار اور تنوع کی روایت

جیلانی کامران کے خیال میں اصل چیز نظم ہے یعنی اصل چیز شاعری ہے ، بس اس کے بارے ہی بات ہونی چاہیے۔ حلقہ اربابِ ذوق کی روایت کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"حلقہ اربابِ ذوق کی روایت رہی ہے کہ یہاں ادیب کو موضوع اور طرز اظہار کی آزادی حاصل رہی ہے اور جس قدر تنوع اور جدت آفرینی حلقہ اربابِ ذوق نگارشات میں دکھائی دیتی ہے وہ کسی دوسری انجمن میں شاذ و نادر نظر آتی ہے”(36)

عہد حاضر اور ادیب کی ذمہ داری

مگر ان کے خیال میں اب حلقے میں کسی نئی چیز کے پیش ہونے کے امکانات کم ہو گئے ہیں اگرچہ حلقہ اربابِ ذوق کی روایت آزادی سے تخلیق کرنے کی ہے اب موجودہ ادیبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئے راستوں کی تلاش کریں یہ نئے راستے خواہ موضوع کے حوالے سے ہوں یا طرز اظہار کے حوالے سے اس طرح نئے انسان کا تعارف ملے گا ۔ حلقہ اربابِ ذوق کی تنقید کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ادب اور حقیقت کا فلسفہ

خارجی اور مخفی سچائی

"ادب کی تنقید کا ایک نہایت پرانا سوال غالباً یہ رہا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ ہمارے عہد میں جب سے ادب اور معاشرے کے رشتے کا تذکرہ ہوا ہے حقیقت کو معاشرے کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے اور معاشرے کی خارجی سطح پر جو کچھ ظاہر ہوتا ہے اسے حقیقت اور سچائی کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ معاشرے کی سطح پر سوائے شکست وریخت کے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔ جس کے مشاہدے سے نفی زیست کے رویے پیدا ہوتے ہیں ۔ بعض اہلِ فکر کا کہنا ہے کہ ہر دور کی اصل سچائی عموماً مخفی ہوتی ہے جسے صرف ادیب کی بصیرت آشکار کر سکتی ہے ۔ ہمارے عہد کو ادیب کی اس بصیرت کی تلاش بھی ہے ” (37)

جیلانی کامران کا یہ خیال ازحد اہمیت کا حامل ہے کہ خارجی سطح پر سچائی کا ادراک محض دھوکہ ہے اصل سچائی تو مخفی ہوتی ہے ۔ جس کی تلاش صرف ادیب کی بصیرت سے ممکن ہے یہاں ادیب پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے خصوصاً جب کہ ہمارا عہد

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں