مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جیلانی کامران ادب، معاشرہ اور تنقیدی ارتقا

ادب اور انسانی ضمیر

معاشرے اور ادب کا تعلق

انسانی ضمیر کی آواز ہے اور اسے ہر عہد میں بلند کرنا لکھنے والوں کی ترجیح رہا ہے اور ترقی پذیر معاشرے سے بڑھ کر اور کون سا موضوع ہے جہاں انسانی ضمیر کی آواز کو سننے کی ضرورت پر اعتبار سے زیادہ ہے ۔ کیوں کہ ترقی پذیر معاشرہ ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں ہر قدم پر انسانی ضمیر کو شکست وریخت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ ادب نے ہر زمانے میں انسانی ضمیر کی آواز کا ساتھ دیا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسی آواز معاشرے کے رویوں کے ساتھ ٹکرانے کے بعد معاشرے ہی کے اخلاقی خلاء میں کم ہوتی رہی ہے۔

ایسی صورت میں کیا یہ مناسب ہے کہ ادب انسانی ضمیر کی آواز بلند کرنا چھوڑ دے؟ کسی زمانے میں معاشرہ ادب کا دوست اور محرم ہوا کرتا تھا کیوں کہ دونوں کی دنیائیں ایک تھیں اور دونوں کا سفر بھی ایک سی نوعیت کا تھا مگر ترقی پذیر محرکات کے نتیجے میں معاشرہ ادب کا دشمن بن چکا ہے اور ہر وہ شے جس کی پاسداری ادب کرتا ہے ۔ معاشرے کی ٹھوکر میں آ کر پاش پاش ہو رہی ہے ۔ دشمن معاشرے میں ادب کو اپنے دوست اور محرم کی تلاش ہے اور یہ تلاش رہی ہے جو قدیم زمانے میں مختلف ناموں سے ظاہر ہوتی رہی ہے ۔ شاید اسی لیے ہمارے عہد کا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب ادب کو قبول کرنے والا کوئی نہ ہو تو لفظ کس سے مخاطب ہو اور کسے خطاب کرے” ؟ (34)

جیلانی کامران کی تنقیدی بصیرت

فکری ارتقا اور مستقل رجحانات

یہاں جیلانی کامران معاشرے اور ادب کے تعلق کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں ۔ ان کا شمار اپنے عہد کے اہم تنقید نگاروں میں ہوتا ہے ۔ ان کے بارے میں ایک اہم بات جو کہ کہی جاتی رہی ہے وہ جلدی جلدی اپنے راستے بدلتے رہے ہیں ۔ ان کی آراء میں تیزی سے تبدیلی آ تی رہی ہے ۔ کچھ عرصے کے لیے ترقی پسندوں کے ساتھ بھی رہے ، اور اسلوب کے حوالے سے موضوعات کے حوالے سے شاعری میں بھی ان کے ہاتھوں تبدیلیاں آ تی رہیں، لیکن ایک بات جو ان کے ہاں مستقل صورت میں موجود رہی وہ یہ کہ خیال اور وجدان کے دامن کو انھوں نے کبھی نہیں چھوڑا ۔ وہ مابعد الطبیعیات کو اہمیت دیتے ہیں ، جبکہ ترقی پسند ، مادی جدلیات کے لحاظ سے انسان اور معاشرے کا مطالعہ کرتے ہیں اس طرح ان کے ترقی پسندوں سے اختلاف واضح ہو جاتے ہیں ۔ ان کی آراء کی جلدی جلدی تبدیلی کے بارے سب نقاد متفق نہیں ہیں بلکہ وہ اس تبدیلی کو ایک ارتقائی عمل قرار دیتے ہیں ۔ کیوں کہ جیلانی کامران اپنی سوچ کا بر ملا اظہار کرتے ہیں اس لیے ان کے خلوص اور احساسات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جیلانی کامران کا نظریاتی استقلال

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ انھوں نے ابتدا میں مسلمانوں کے بہتر مستقبل اور نشاطِ الثانیہ کا جو نعرہ لگایا تھا وہ اس پر آخر تک قائم رہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ کسی دبستان فکر کے قائل کیسے ہوں جب کہ وہ خود ایک دبستان کا درجہ رکھتے ہیں ۔ لہذا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ ان کے خیالات اور نظریات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ ان کے نظریہ کی ایک ہی واضح جہت ہے وہ ہر بات کو مسلمانوں کے گزرے ہوئے کلچر کے ساتھ جوڑتے ہیں جس کے پس منظر میں اسلامی عجمی روایت موجود رہتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے ان کے ہاں استقامت ملتی ہے ۔

ادبی تحریکیں اور جیلانی کامران کی وابستگی

بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں دو اہم ادبی تحریکیں یعنی ترقی پسند تحریک اور حلقہ اربابِ ذوق افادی و فنی لحاظ سے وجود میں آئیں ان تحریکوں نے مختلف ادیبوں کو اپنے اپنے حلقہ میں لے لیا کچھ لوگ اگر شروع میں ترقی پسند تحریک کے ساتھ تھے تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات و نظریات میں تبدیلی آئی اور وہ حلقہ ارباب ذوق میں شامل ہو گئے ان میں جیلانی کامران کا نام بھی آتا ہے ۔ جب حسن عسکری نے پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کی تحریک کا آغاز کیا تو بہت سے ادیب ان کے نظریات سے متاثر ہوئے ۔

جیلانی کامران بھی نظریاتی طور پر حسن عسکری کے ہم نوا بن گئے ظاہر ہے ایک انسان جو عقل و خرد کا مالک ہو وہ مختلف نظریات سے متاثر ہوتا ہے ۔ آدمی کا شعور جوں جوں بلند ہوتا ہے وہ تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اس کے نظریات میں تبدیلی آ تی چلی جاتی ہے ۔ ایک لکھنے والا جامد نہیں ہے جب وہ سوچتا ہے تو اس کے ہاں تبدیلیاں آ تی ہیں ان کی سوچ اور فکر ایک صحت مند نقاد کی فکر ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد تنقیدی سوچ

1947 ء میں جب پاکستان وجود میں آگیا تو نقادوں کے ہاں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی اور وہ سوچ تھی جدید اردو تنقید میں جڑوں کی تلاش ۔ وہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ قیام پاکستان کے وقت خونی فسادات نے ذہنوں کو منتشر کر کے رکھ دیا اب

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں