مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جیلانی کامران حلقہ ارباب ذوق سے تعلق اور ان کا تہذیبی تنقیدی خیالات

جیلانی کامران اور حلقہ ارباب ذوق

جیلانی کامران ۱۳۰ اکتوبر ۱۹۸۰ تا مارچ ۱۹۸۱ تک حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری رہ چکے ہیں (۲۴) اراکین شاخ لاہور کے ۱۹۴۰ کے ارکان کی فہرست میں ان کا نام گیارہویں نمبر پر درج ہے (۲۵) اسی طرح اراکین کی فہرستیں جو کہ ڈاکٹر یونس جاوید نے اپنی کتاب ” حلقہ ارباب ذوق” میں درج کیں اس میں جیلانی کامران کا نام جابجا نظر آتا ہے۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور فہرست اراکین (۱۹۹۸-۱۹۹۹ء) میں بھی ان کا نام شامل ہے (۲۶)

یوں جیلانی کامران کا حلقے سے تعلق لگ بھگ ساٹھ سال کا ہے۔ حلقہ میں انھوں نے تنقیدی مباحث میں حصہ لیا، اپنی نظمیں پیش کیں اور صدارتی خطبات سے بھی نوازا۔ جابجا انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین حلقے میں پیش کیے جن سے ان کی تنقیدی جہت کا پتہ چلتا ہے۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آراء تبدیل کرتے رہے ہیں ان کی تنقیدی آراء میں تبدیلی کو بھی مختلف نقادوں نے مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے خطبہ صدارت سے حلقہ ارباب ذوق کے بارے میں ان کی دلچسپی اور عقیدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ خطبہ انھوں نے ۱۹۹۵ء-۱۹۹۴ء میں دیا (۲۷) صدارتی خطبے میں کہتے ہیں:

"کتنی خوشی کی بات ہے کہ حلقہ ارباب ذوق ہماری زندگی میں اور ہمارے سامنے اپنی سوانح عمری کے ایک اگلے برس میں وارد ہورہا ہے۔ آج سے ستاون برس قبل حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اور ستاون برس مسلسل ایک تحقیقی کارگزاری کے عمل سے گزرنا کسی غیرمعمولی واقعے سے ہر گز کم نہیں ہے۔” (۲۸)

جیلانی کامران کی شاعری اور تنقیدی فکر

جیلانی کامران نے شاعری اور تنقیدی مضامین حلقے کی مجالس میں پیش کیں ان کی شاعری میں وقت کے ساتھ جو تبدیلی آئی اس کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

"جیلانی کامران کی شاعری میں شعور کی رو خاصی تیز ہے۔ انھوں نے ابتدا میں داخلی الجھنوں کو اہمیت دی اور تمثالوں سے ایک نیا شعری پیکر تکلیل دیا۔ ”نقش کف پا” کی نظموں میں جیلانی کامران کی جہت اسلامی ثقافت کی طرف مڑگئی اور اب یہی ان کا رنگ خاص نظر آتا ہے۔” (۲۹)

جدید اردو تنقید میں جیلانی کامران ایک اہم نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں ان کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہے وہ تہذیبی شعور کے بل بوتے پر اپنی تحریروں میں روانی قائم رکھتے ہیں لسانی روایات کا پاس بھی ان کے ہاں پایا جاتا ہے۔

انھوں نے تہذیب اور کلچر کے حوالے سے اردو ادب کو جانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی کتاب "تنقید کا نیا پس منظر” میں ان کی تنقیدی فکر نمایاں ہوتی نظر آتی ہے اس کے علاوہ ان کی کتابیں ” اقبال اور ہمارا عہد ” , ” غالب کی تہذیبی شخصیت ، ہمارا ادبی فکری سفر "اہم ہیں تنقید کے بارے لکھتے ہیں:

” تنقید کا کام سمجھنا اور جاننا ہے، خامیوں کو گنوانا نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں تنقید کا کام اس مفروضے کی پڑتال بھی ہے کہ ادب ہمیشہ عالمی اور انسانی ادب ہوتا ہے، قوموں اور تہذیبوں کی گروہ بندی ادب کے بنیادی تصور کے منافی ہیں۔ کوئی بھی ادب عالمی ادب نہیں ہوتا کیونکہ سارا عالم ایک ہی زبان میں تخلیق نہیں کرتا، اور نہ جغرافیہ اور تاریخ کی حقیقتیں ہی ہر جگہ یکساں ہیں کہ کرہ ارض پر ایک انسان نہیں لوگ رہتے ہیں

اور زمین کا نقشہ تہذیبوں کی تقسیم سے پیداہوتا ہے۔ عالمی ادب کا تصور مختلف ادبیات اور تہذیبوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے اور اس طرح جس جہان سے آشنا کرتا ہے اس میں لوگ شامل ہیں۔ ادب کا تنقیدی مطالعہ تہذیبی پس منظر کی نفی سے نہیں بلکہ اس پس منظر کے اقرار سے ممکن ہوتا ہے۔ (۳۰)”

قومی ادب اور اسلامی عجمی روایت

جیلانی کامران قومی ادب کو اسلامی عجمی روایت کو پس منظر میں رکھتے ہوئے پر کھنے کی کوشش کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کے ہاں مختلف مضامین ملتے ہیں۔ مثلا "اسلام میں ہمارے ادب کا حصہ” کے تحت لکھے گئے۔ مضمون میں وہ اسی اسلامی عجمی روایت پر زور دیتے ہیں۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں