جاں نثار اختر کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

جاں نثار اختر کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Jan Nisar Akhtar ki shairi ka tanqeedi jaiza

نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی کے جس مقالے سے لی گئی ہے اس مقالے کا عنوان ہے:Mohammed Alvi Hayat O Khidmat

جاں نثار اختر کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

جانثار اختر اردو شاعری میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہیں ۔ انہوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنی تخلیقی بصیرت کی روشنی بکھیری اور جدید غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ انہوں نے غزل میں نئے تجربے تو نہیں کئے مگر ندرت فکر اور جدت ادا سے غزل کو ایک نیا رنگ و آہنگ ضرور عطا کیا ۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ اس لئے ان میں سماج کے مسائل کے ادراک کے ساتھ ساتھ کلاسیکی روایات کا بھی پاس ہے۔ انہوں نے ترقی پسندی کی زد میں اپنی تہذیبی اور روایتی اقدار کو نظر انداز نہیں کیا۔ ان کی غزلوں میں کلاسیکی رچاؤ بھی ہے اور عصری حسیت کی جھلک بھی۔

اپنے تاریک مکانوں سے تو باہر جھانکو
زندگی شمع لئے در پہ کھڑی ہے یارو
ہم نے صدیوں انہیں زروں سے محبت کی ہے
چاند تاروں سے تو کل آنکھ لڑی ہے یارو

ان کی غزلوں میں محبت کی کسک اور حسن کے مختلف روپ اور رنگ بھی جا بجا ملتے ہیں:

رستے کے دھندلکے میں کسی موڑ پہ کچھ دور
اک لو سی چمک جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
معاف کر نہ سکی میری زندگی مجھ کو
وہ ایک لمحہ کہ میں تجھ سے تنگ آیا تھا

یہ بھی پڑھیں: جان نثار اختر ایک جدید شاعر

جاں نثار اختر نے ترقی پسندی کی پسندیدہ صنف شاعری نظم کو اپنے شعری اظہار کے کیلئے زیادہ استعمال کیا اور کئی عمدہ نظمیں کہیں۔ محبت جاں نثار اختر کی غزلیہ اور نظمیہ دونوں قبیل کی شاعری کا غالب موضوع ہے۔ وہ محبت کے داخلی تجربات کو شگفتہ اور بزم لہجے میں پیش کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ انہوں نے آزاد اردو معرفی دونوں طرح کی نظمیں کہی ہیں جن میں ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مختلف مسائل اور کیفیات کو پیش کیا ۔ ان کی مشہور نظم آخری ملاقات ہے جو انہوں نے اپنی بیوی صفیہ کے انتقال پر لکھی ہے۔ یہ ایک خوبصورت نظم ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی کی زبان سے باتیں کہلوائی ہیں:

السائی ہوئی رت ساون کی
کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی
اک ٹوٹی رسی جھولے کی
اک چوٹ کسکتی کولہے کی
سلگتی سی انگیٹھی جاڑوں میں
اک چہرہ کتنی آڑوں میں
کچھ چاندنی راتیں گرمی کی
اک لب پر باتیں نرمی کی
کچھ روپ حسین کا شانوں کا
کچھ رنگ ہرے میدانوں کا
کچھ یاد مہکتی کلیوں کے
کچھ نام وطن کی گلیوں کے
کچھ چاند چمکتے گالوں کے
کچھ بھنورے کالے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی
کچھ نرم لکیریں کاجل کی

اس نظم میں جاں نثار اختر نے تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں جدت کی فضا تخلیق کی ہے۔
اس نظم کے متعلق پروفیسر عقیل احمد صدیقی لکھتے ہیں:

نظم شخصی واردات کے بر اور است اظہار کی کامیاب مثال ہے۔ نظم کی خوبی ان اشیاء کی کیٹلاگنگ میں ہے جن سے فنکار اور اس کی بیوی کی یاد وابستہ ہے۔

( جدید اردو نظم نظریہ عمل عقیل احمد صدیقی ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 2012 ، ص: 136

جان نثار اختر نے ایک اور نظم خاموش آواز صفیہ کے مزار پر لکھی۔ اس نظم میں صفیہ اپنے محبوب سے باتیں کرتی ہے۔
شاعر نے اس نظم میں صفیہ کی زبان سے کچھ انقلابی پیغام دینے کی کوشش کی ہے:

کتنے دن میں آئے ہو ساتھی میرے سوئے بھاگ جگانے مجھ سے الگ اس ایک برس میں کیا کیا بیتی تم پہ نہ جانے دیکھو کتنے تھک سے گئے ہو کتنی تھکن ، آنکھوں میں کھلی ہے آؤ تمہارے واسطے ساتھی اب بھی میری آغوش کھلی ہے میں جو تمہارے ساتھ نہیں ہوں دل کو مت مایوس کرو تم تم ہو تنہا تم ہو اکیلے ایسا کیوں محسوس کرو تم آج ہمارے لاکھوں ساتھی ساتھی ہمت ہار نہ جاؤ آج کروڑوں ہاتھ بڑھیں گے ایک ذرا تم ہاتھ بڑھاؤ

جاں نثار اختر نے شخصی واردات کے اظہار کے علاوہ سماجی موضوعات اور تجربات کو بھی اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ ان کی نظم ” اتحاد میں قومی یکجہتی کے موضوع کو پیش کیا گیا ہے:یہ دیس کہ ہندو اور مسلم تہذیبوں کا شیرازہ ہے صدیوں کی پرانی بات ہے یہ پر آج بھی کتنی تازہ ہے تاریخ ہے
اس کی ایک عمل
تحلیلوں کا ترکیبوں کا
سمبندھو وہ دو آدرشوں کا سنجوگ وہ دو تہذیبوں کا

ان اشعار میں ہندوستان کو تبدیلیوں کا سنگم یا مرکب کہا گیا ہے وہ آگے اس نظم کو بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

آوازه حق جب لہرا کر بھکتی کا ترانہ بنتا ہے
یہ رابطہ مہم یہ جذب دروں خود ایک زمانہ بنتا ہے
چشتی کا قطب کا ہر نعرہ یک رنگی میں ڈھل جاتا ہے
ہر دل یہ کبیر اور تلی کے دوہوں کا فسوں چل جاتا ہے
یہ فکر کی دولت روحانی وحدت کی لگن بن جاتی ہے
نائیک کا کبت بن جاتی ہے ، میرا کا بھیجن بن جاتی ہے

اس نظم میں جاں نثار اختر کے اسلوب کی روانی، غنائیت دامن دل کھینچتی ہے۔ اس طویل نظم میں جان نثار اختر ہندوستانی تہذیب کی مختلف دھاراؤں کے ملن کی تصویر میں پیش کرتے ہیں اور آخر میں اس عہد کا اعادہ کرتے ہیں کہ
اس وحدت اس کجہتی کی تعمیر کا دن ہم لائیں گے صدیوں کے سنہرے خوابوں کی تعبیر کا دن ہم لائیں گے کے

جان نثار اختر اپنی نظموں میں اشتراکیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اس لئے ان میں کوئی گہرائی نہیں ہے۔ بہر حال ان کی نظم ” آخری لمحہ ایک وقیع نظم ہے۔ جس میں انہوں نے اشترا کی نظریہ حیات پیش کیا ہے مگر اس میں یا گہرائی اور فکر انگیزی ہے۔ وہ اس نظم میں اس خیال کو پیش کرتے ہیں کہ زندگی میں چاہے جتنی تلخیاں، پریشانیاں اور غم ہوں، یہ زندگی پھر بھی حسین ہے اور اسی لئے اس کی قدر کرنی چاہئے اور اس زندگی کو دوسروں کے لئے خوبصورت بنانے کی کوشش کرنی چاہئے:
ہر شر کے باوجود یہ دنیا حسین ہے
دریا کی تند باڑھ بھیانک سہی مگر جنگل کو کاٹتا ہوا رستہ حسین ہے
دل کو ڈرائے لاکھ گھٹاؤں کی گھن گرج
طوفان سے کھیلتا ہوا سکا حسین ہے
صحرا کا ہر سکوت ڈراتا ہے تو کیا
مٹی پہ جو گرا ہے وہ قطرہ حسین ہے

جان نثار اختر اس نظم میں اپنے اصل پیغام کی طرف آئے ہیں اور اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

تم ایک ایسے گھرانے کی لاج ہو جس نے
ہر ایک دور کو تہذیب و آگہی دی ہے
تمام منطق و حکمت تمام علم و ادب چراغ بن کے زمانے کو روشنی دی ہے
جلا وطن ہوئے آزادی وطن کے لئے مرے تو ایسے کہ اوروں کو زندگی دی ہے

اختر کی شاعری کی ان خصوصیات کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح جاتی ہے کہ جاں نثار اختر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تو تھے مگر وہ ذہنی طور پر آزاد تھے اور انہوں نے اس ذہنی آزادی کا اظہار اپنی نظموں میں کیا۔ لہذا روشن اختر کا علمی ان کی شاعری سے متعلق بجا طور پر کہتے ہیں:
*ان جذبات و احساسات اور مختلف اقدار حیات کے گہرے شعور سے واضح ہوتا ہے کہ اب شاعر کا ذہن اشتراکیت کے میکانکی اظہار سے آزادی حاصل کر چکا ہے اور اسے زندگی کی ہمہ جہتی پر اعتقاد ہے۔ اس ہمہ جہتی میں ایک جہت اشتراکیت بھی ہے۔

اردو میں طویل نظم گوئی کی روایت اور ارتقاء، ڈاکٹر روشن اختر کاظمی، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی 1984، ص: 265 )

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

پی ڈی ایف سے تحریر: حُسنٰی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں