کتاب کا نام: بنیادی اردو،
کوڈ: 9001،
موضوع: جمیل الدین عالی اور ان کی شاعری،
صفحہ: 268۔مرتب کردہ : ثمینہ شیخ
موضوعات کی فہرست
جمیل الدین عالی کا تعارف و سوانح
جمیل الدین عالی کا اصل نام جمیل الدین احمد خان تھا، جب کہ وہ عالی تخلص کرتے تھے۔ وہ جنوری 1926 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے ۔ جمیل الدین عالی کا تعلق علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ ان کی والدہ خواجہ میر درد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
جمیل الدین عالی حکومتی محکموں میں اہم سرکاری حیثیت سے سے کام کرتے رہے۔ صدر ایوب کے دور میں رائٹر گلڈ کے زیر اہتمام اردو کی خدمت انجام دیتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ ملی نغنے اور گیت بہت مقبول ہیں ۔ سیاسی طور پر بھی عالی جی بہت سرگرم رہے۔ وہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ انجمن ترقی اردو کراچی سے ان کی طویل رفاقت رہی۔
یہ بھی پڑھیں: دوھے از جمیل الدین عالی | PDF
وہ پہلے ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۲ء تک انجمن کے رکن رہے بعد میں اعزازی معتمد بنا دیے گئے ۔ کچھ عرصہ کے لیے وہ اردو ڈکشنری بورڈ کراچی کے صدرنشین بھی رہے۔ عالی جی نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب کو بھی پورا کیا، انھوں نے بہت طویل اور صبر آزما جد و جہد کے بعد وفاقی اردو کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلوایا۔
جمیل الدین عالی کا شاعری
اردو شعر و ادب میں جمیل الدین عالی کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ ان کی تخلیقی شخصیت کئی جہتوں میں تقسیم تھی ۔ ان کی شاعری ہو یا شعر و ادب کے لیے ان کی خدمات ، سب میں ان کی انفرادیت نظر آتی ہے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت ہی تھی کہ وہ تخلیقی شخصیت کے ساتھ ساتھ اہم ادبی خدمات میں عمر بھر مصروف رہے۔ انھوں نے دو ہے، غزلیں ، گیت اور ملی نغمے تحریر کیے۔
ان کی گیت نگاری میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ انھوں نے گیتوں میں نغمگی سے ایک خاص اسلوب وضع کیا۔ ان کے مقبول اور یادگار ملی نغمے اردو گیت اور نغموں کی روایت میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ دوہا جیسی نظر انداز کی ہوئی صنف کو عالی جی ہی نے اردو کی اہم شعری صنف بنایا۔ ان کے دو ہے زبان زد عام ہیں۔ چند ایک دیکھیے :
کہو چندر ما آج کدھر سے آئے ہو جوت بڑھائے
میں جانوں کہیں رستے میں مری ناری کو دیکھ آئے
کدھر ہیں وہ متوارے نیناں کدھر ہیں وہ رتتار
نس نس کھنچے ہے من کی جیسے مدرا کرے اتار۔
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے
روپ بھرا مرے سپنوں نے یا آیا میرا میت
آج کی چاندنی ایسی جس کی کرن کرن سنگیت
چال پہ تیری کج جھو میں اور نیناں مرگ رجھائے
پر گوری وہ روپ ہی کیا جو اپنے کام نہ آئے
گھنی گھنی یہ پلکیں تیری یہ گرماتا روپ
تو ہی بتا او نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دھوپ
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار
میں نے کہا کبھی سپنوں میں بھی شکل نہ مجھ کو دکھائی اس نے کہا بھلا مجھ بن تجھ کو نیند ہی کیسے آئی
عالی صاحب کا پہلا شعری مجموعہ غزلیں ، دو ھے ، گیت ۱۹۵۷ء میں جب کہ ملی نغمات پر مشتمل مجموعہ جیوے جیوے پاکستان ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ عالی صاحب نے پچیس کے قریب معروف قومی گیت تحریر کیے جن میں جگ جگ جیسے میرا پیارا وطن، جیوے جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو، سوهنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد هم مصطفوی ہیں، دین زمین سمندر دریا صحرا کوهستان و دیگر شامل ہیں ۔ سقوط ڈھا کہ پر ان کا نغمہ:
اے دیس کی ہواؤ
سرحد کے پار جاؤ
اور ان کو چھو کے آؤ
اور بچوں کے لیے ان کا نغمہ:
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں ، پر کام کروں گا بڑے بڑے
بہت مشہور ہوئے ۔ ۱۹۷۴ء میں ہی اُن کی غزلوں، نظموں اور دوہوں پر مشتمل شعری مجموعہ لا حاصل بھی اشاعت پذیر ہوا۔ اے مرے دشت سخن ان کا آخری شعری مجموعہ تھا۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں بس اک گوشه ، بساط (خاکہ نگاری)، تماشا میرے آگے اور دنیا میرے آگے شامل ہیں۔
انسان جمیل الدین عالی کی طویل نظم ہے جو ہزاروں لائنوں پر مشتمل انسانی حیات کے پر بیچ مسائل و افکار کو سمیٹے ہوئے لازوال تخلیقی تجربہ ہے۔ عالی صاحب کی غزل منفرد اسلوب کی حامل اردو غزل ہے۔ ان کی غزل کے اشعار دیکھیے :
کچھ نہ تھا یاد به جز کار محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے
تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
اُمید بھی رکھوں اور نا امید بھی نہ رہوں
جمیل الدین عالی ایک متحرک سیاسی ، سماجی اور ادبی شخصیت تھے۔ انھوں نے عمر بھر ، تہذیب واقدار کے لیے کام کیا۔ ان کی تخلیقی فکر میں شامل حب الوطنی نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ انھوں نے طویل عمر پائی ۔ وہ اکیانوے سال کی عمر میں ۲۳ نومبر ۲۰۱۵ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں