کتاب کا نام۔۔۔۔ میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ۔۔۔ 5611
صفحہ۔۔121 تا 123
موضوع۔۔۔۔ جدید اردو غزل پر میر کے اثرات
مرتب۔۔۔۔ اقصیٰ طارق
موضوعات کی فہرست
جدید اردو غزل پر میر کے اثرات
میر تقی میر کی کلیات میں تجربات اور ان کے اظہارات کی ایک کا ئنات آباد ہے۔ ان کے کلام میں ایسا عالم گیر حسن پایا جاتا ہے، جو کسی خاص وقت اور مقام سے مخصوص نہیں ہے۔ اسی لیے ان کے کلام کا لطف واثر ان کے عبد سے لے کر آج تک کم نہیں ہوا۔ وہ اپنے شاعرانہ مرتبے اور اپنے کلام کی اثر آفرینی سے خود بھی واقف تھے اور انھیں اس پر ناز بھی تھا۔
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
یه خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو
میر شاعر بھی کوئی اور ہی تھا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
چاہیے اہل سخن میر کو استاد کریں
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کى غزل گوئی کے امتيازى پہلو pdf
میر کا اسلوب
اسلوب اور انداز کے اعتبار سے میر کی حیثیت ایک ایسے شاعر کی ہے، جس سے بعد میں آنے والے کئی ایک شعرا نے کسب فیض کیا۔ تقریبا ہر قابل ذکر شاعر کے تصورات ، اسالیب ، زبان و بیان اور لب و لہجہ پر کلیات میر کے اثرات کبھی واضح اور کبھی غیر واضح انداز میں ملتے ہیں۔ میر کے ہاں غالب کے رنگ کے نقوش بھی موجود ہیں۔ مومن اور داغ دہلوی کے رنگ کے ساتھ ساتھ خارجیت کا وہ انداز بھی ملتا ہے، جسے لکھنو اسکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی غزل گوئی | pdf
البتہ لکھنوی شعرا میر کی عظمت کا احترام اور اعتراف کرنے کے باوجود میر کے فکر وفن سے اثر قبول کرنے سے بوجوہ گریزاں رہے۔ علامہ اقبال کے نئے اسلوب اور گھمبیر کیفیات والی غزل کے نشانات بھی میر کے ہاں ملتے ہیں اور بعض مقامات پر خیالات کی حیرت انگیز مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں ۔
حالانکہ میر اور اقبال کے درمیان ذہنی و فکری احمد بھی نمایاں ہے۔ مزید بر آن 1947ء کے آس پاس اور قیام پاکستان کے بعد نمایاں ہونے والی شاعرانہ 121آوازوں میں بھی میر کی آواز کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اس اعتبار سے میر کو اردو شاعری کا ایک بڑا اور عہد بہ عہد اثر آفریں شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔
میر کی استادی کا اعتراف
میر کے زمانے سے لے کر اب تک ان کے شعری کمالات کا سکہ نہ صرف عام قارئین بلکہ شعرا کے دلوں پر بھی جما ہوا ہے۔ دو ڈھائی سو برس سے اُردو کے عظیم شعرا میر کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں اور ان کے شعری کمالات سے فیضان بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔
سب سے اہم بات کہ کسی بھی شاعر نے میر کی بڑائی سے انکار نہیں کیا۔ میر کو ان کے اپنے زمانے میں بھی شہرت کی مسند پر بٹھایا گیا اگر چہ ان کے دور میں کئی ایک بڑے شعرا نے بھی ان کو بڑا شاعر تسلیم کیا اور عظمت کا تاج ان کے سر پر رکھا۔
میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ صرف ان کے معاصرین نے کیا بلکہ ہر دور کے تقریباً سبھی بڑے شعرا نے ان کے فن کو مختلف حوالوں سے خراج تحسین پیش کیا۔ بعض ایسے شعرا نے بھی میر کی استادی کا اعتراف کیا ہے، جن کا اپنا رنگ شاعری میر سے بالکل مختلف تھا بلکہ صورت حال یہ رہی ہے کہ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی :
میر کے دور سے لے کر اب تک بیشتر قابل ذکر شاعروں نے ان کی شاعری کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا ہے اور ان کے رنگ سخن سے فیض اٹھا کر اعتراف کمال بھی کیا ہے؟
چند ایک شعرا کے اعترافی نوعیت کے اشعار دیکھیے جن سے میر کے رنگ شاعری اور فیضان شاعری کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے :
مرزا رفیع سودا:
سودا تو اس زمین میں غزل در غزل ہی لکھ
ہوتا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرح
غلام ہمدانی مصحفی :
اے مصحفی تو اور کہاں شعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ انداز سخن میر کے منہ پر
امام بخش ناسخ (حالانکہ تاریخ لکھنویت کے امام ہیں ):
معترف کون نہیں میر کی استادی کا
میں ہی اے ناسخ نہیں کچھ طالب دیوان میں
آپ بے بہرہ ہے جو محمد میر نہیں
کون ہے جس کو کلام میر کی حاجت نہیں
شیخ ابراہیم ذوق
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
مرزا غالب
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
واقع دہلوی
میر کا رنگ برتا نہیں آساں اے انساں
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا
الطاف حسین حالی:
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
شاگرد میرزا کا مثلہ ہے میر کا
اکبر الہ آبادی
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبر
ناسخ و ذوق بھی جب چل نہ سکے میر کے ساتھ
حسرت موہانی
شعر میرے بھی ہیں پردرد ولیکن حسرت
میر کا شیوہ گفتار کہاں سے
یاس یگانہ چنگیزی
میر کے آگے زور چل نہ سکا
تھے بڑے میرزا یگانہ و دبنگ