مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جدید سفرنامے کے لوازمات و تکنیک

جدید سفرنامے کے لوازمات و تکنیک

کامیاب سفرنامہ لکھنے کے لیے فنی لوازمات کی پاسداری ضروری ہے۔ جدید سفرنامے کے چند فنی لوازمات جنہیں اہم سمجھا جاتا ہے، درج ذیل ہیں.

قوتِ مشاہدہ

اصنافِ نثر میں سفرنامہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں قوتِ مشاہدہ سب سے زیادہ کارفرما ہوتی ہے۔ سفرنامہ نگار کا مشاہدہ جتنا قوی ہوگا، اس کی رائے کو اتنا ہی زیادہ معتبر سمجھا جائے گا۔

یوں گہرے مشاہدے کے ذریعے سفرنامہ نگار خارجی مظاہر کا عمیق تجزیہ تخلیقی انداز میں پیش کرتا ہے۔ قوتِ مشاہدہ، سفرنامے کے لیے دیگر عناصر کی طرح بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

واقعات کا انتخاب

سفرنامے کے لیے "سفر” اولین شرط ہے۔ اس میں ناول یا افسانے کی طرح مربوط پلاٹ نہیں ہوتا، بلکہ مختلف واقعات کے ذریعے سفر کی روداد بیان کی جاتی ہے۔

سفرنامہ نگار تخیل و شعور کے امتزاج سے واقعات کا عمدہ انتخاب کرتا ہے اور ان کے باہمی ربط کو پیش نظر رکھتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے کہ قاری کے ذہن میں سفر کا تسلسل واضح ہونے لگتا ہے۔

تحیر و تجسس

سفرنامہ نگار سفرنامے کی دلچسپی و دلکشی بڑھانے کے لیے تحیر اور تجسس کا استعمال کرتا ہے۔ چونکہ سفرنامہ حالات و واقعات پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے ان میں انکشافات اور بیانات قاری کو لمحہ بہ لمحہ محوِ سفر رکھتے ہیں۔

ایک عمدہ سفرنامہ خاکہ اور افسانہ کی طرح قاری کو ابتدا سے آخر تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ قاری کو نئی دنیا کی دریافت میں دلچسپی سفرنامہ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اعتدال و توازن

جس طرح اعتدال و توازن زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کا ضامن ہے، اسی طرح ادب کی تمام اصناف میں بھی اس کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن سفرنامے کی صنف میں یہ عنصر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

بغیر اعتدال و توازن کے سفرنامہ تاریخ، جغرافیہ یا صحافت کا ایک خشک نمونہ بن کر رہ جاتا ہے۔ خارجی یا داخلی بیان، تحیر و تجسس، زبان و بیان اور واقعات کا انتخاب ہر چیز میں توازن ضروری ہے تاکہ سفرنامہ فنی خوبیوں کا حامل بن سکے۔

غیر جانبداری

سفرنامہ نگار کے لیے تعصب سے بالاتر ہونا اور غیر جانبداری اپنانا نہایت اہم ہے۔ مشرقی سفرنامہ نگاروں کے ہاں اپنی مشرقی تہذیب سے فطری دلچسپی پائی جاتی ہے۔ یہی وہ عینک ہے جو بعض اوقات انہیں باہر کی دنیا کو شفاف انداز میں دیکھنے سے روکتی ہے۔

جب بھی غیر جانبداری کی بات آتی ہے تو اردو سفرناموں میں مشرقی و مغربی تہذیب کا موازنہ اور اپنی تہذیب سے محبت نمایاں نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک فطری جذبہ ہے، تاہم یہ جانبداری اعتدال اور توازن کے دائرے میں رہنی چاہیے۔

شگفتہ اسلوب

دورِ جدید میں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ انسان گھر بیٹھے دنیا بھر کی سیر کر سکتا ہے۔ وہ مختلف ملکوں، خطوں اور علاقوں کے حالات، رسم و رواج، عادات و اطوار، تہذیبی، اخلاقی و سیاسی زندگی سے آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔

تاہم سفرنامہ ایسی معلومات کو ایک تخلیقی و ادبی انداز میں قاری تک پہنچاتا ہے۔ سفرنامہ نگار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلوب کی دلکشی اور زبان کی شگفتگی کے ذریعے قاری کو دیکھی اور ان دیکھی دنیا کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے لیے بے تاب کر دیتا ہے۔

سفرنامہ درحقیقت صداقتوں اور سچائیوں کے بیان کا مظہر ہوتا ہے۔ ان تلخ اور کڑوی حقیقتوں کو سفرنامہ نگار اپنے پاکیزہ اور خوبصورت اسلوب میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ قاری کے لیے قابلِ قبول بن جاتی ہیں۔ چونکہ سفرنامہ ایک غیر افسانوی صنفِ نثر ہے،

اس لیے اس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے شگفتہ اسلوب ناگزیر ہے۔ اس میں کوئی قصہ یا کہانی نہیں ہوتا، اس لیے زبان و بیان کی دلکشی اس صنف کے لیے نہایت اہم ہے۔

منظر نگاری

منظر نگاری سفرنامے کی ایک بنیادی خوبی ہے۔ محتاط انداز سے کی گئی منظرکشی قاری کو مرعوب کر دیتی ہے۔ سفرنامے میں مناظرِ قدرت و زندگی کو نطق و گویائی عطا کر کے پیش کیا جاتا ہے۔

کامیاب سفرنامہ نگار وہی ہے جو مناظر و مظاہر کو اس انداز میں بیان کرے کہ قاری محسوس کرے جیسے وہ خود ان مناظر کو دیکھ رہا ہو۔

ایک اچھا سفرنامہ وہ ہوتا ہے جس میں داستانوی رنگ، افسانوی فضا، ناول کی چاشنی، ڈرامے کی سی منظر نگاری، آپ بیتی کا حسن اور جگ بیتی کی لذت موجود ہو۔

دورِ جدید کے سفرنامے متنوع خصوصیات کے حامل ہیں۔ ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ سچا سیاح مظاہرِ فطرت اور انسانی رویّوں سے فطری دلچسپی رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک مصور کی طرح رنگوں اور لکیروں سے مناظر بیان نہیں کر سکتا، بلکہ اسے لفظوں کے ذریعے تصویریں بنانی پڑتی ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو ایک کامیاب سفرنامہ نگار کے لیے ضروری ہے: منظر کو لفظوں میں زندہ کر دینا۔

نئے سفرناموں میں سفرنامہ نگار کی ذات کو حد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

راغب شکیب کی رائے:

راغب شکیب سفرنامے کی تکنیک پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

"سفرنامے میں دو خوبیوں کا ہونا ضروری ہےایک یہ کہ سفرنامہ نگار نے واقعی سفر کیا ہو، دوسرا یہ کہ جو کچھ لکھا جائے وہ صرف سفر سے متعلق ہو اور غیر متعلقہ واقعات کی آمیزش سے سفرنامہ پاک ہو۔ سفرنامے کا مقدمہ صرف افسانہ نہ ہو۔”

کچی سیاحت

ایک سفرنامہ نگار کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ سچا سیاح ہو۔ سیاحت کا جذبہ اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو۔ سیاحت ہی وہ عنصر ہے جو سفرنامے کو زندگی بخشتا ہے۔

جدید سفرناموں میں ایک دستاویزی فلم کی طرح معلومات موجود ہوتی ہیں، لیکن آج وہ معلومات اتنی اہم نہیں رہیں کیونکہ اب دنیا کا کوئی خطہ ان دیکھا نہیں رہا۔ لہٰذا مسافر یا سیاح کی دریافت اب ویسی معنویت نہیں رکھتی جو 1960ء سے پہلے کے سفرناموں میں پائی جاتی تھی۔

آج فرد اجتماعی زندگی کا حصہ ہے، اور دنیا ایک گلوبل ویلج کہلاتی ہے۔ اسے "ویلج” اس لیے کہا گیا کیونکہ گاؤں وہ جگہ ہے جہاں سب مکین ایک دوسرے کی زندگی سے نہ صرف باخبر بلکہ دخیل ہوتے ہیں۔

اسی باخبری اور آگاہی کے دور میں سفرنامے کی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے اس کا زاویہ بدلا گیا یہ تبدیلی شعوری بھی تھی اور لاشعوری بھی۔
اسی تبدیلی کی نمائندہ شخصیت مستنصر حسین تارڑ ہیں جنہوں نے سفرنامے کی ساخت کو اندر سے باہر تک بدل ڈالا اور پورے عہد کو متاثر کیا۔

نام:آنسہ سرور، تعلیم:ایم _ اے (جاری ہے)

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں