مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جدید افسانہ اور اس کے مسائل

تحریر از ڈاکٹر تحسین فاطمہ
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا: 9 اگست 2025

مقالہ نگار کا تعارف

ڈاکٹر تحسین فاطمہ ایک سنجیدہ، باریک بین اور باصلاحیت محقق ہیں جنہوں نے اردو ادب، بالخصوص تنقید کے میدان میں نمایاں علمی خدمات انجام دی ہیں۔

ان کا تحقیقی و تنقیدی انداز منفرد اور مدلل ہے، جو علمی معیار اور ادبی نزاکتوں کو یکجا کرتا ہے۔ بطور محققہ، وہ نہ صرف موضوع کے تہہ در تہہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں مہارت رکھتی ہیں بلکہ قاری کو فکری طور پر مائل بھی کرتی ہیں۔

ان کی تحقیق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو میں پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جو علمی تحقیق میں ایک معتبر نام ہیں۔


جدید افسانہ اور اس کے مسائل (۱۹۹۰۔۲۰۰۲ء)

وارث علوی کے چار مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ ۱۹۹۰ء میں نئی آواز، جامعہ نگر، دہلی سے شائع ہوا۔

ان مضامین میں وارث علوی نے تنقید کے نظری مباحث پیش کیے ہیں۔ مشمولہ چاروں مضامین کا تعلق افسانوی ادب سے ہے۔

پہلے مضمون میں انہوں نے افسانے کی روایت اور اجتہاد سے متعلق بحث کی ہے جس میں ان کا موقف یہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان کا ادب زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

جو ادب اس کا ساتھ نہیں دے سکتا وہ آفاقی کبھی نہیں ہوتا۔ دراصل اجتہاد زمانے کا ساتھ چلنے کا نام ہے۔ اگر ادبی اجتہاد زمانے سے موافقت رکھتا ہے تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے، ورنہ اسے رد کر دیا جاتا ہے۔

بقیہ تین مضامین بھی ایسے ہی مباحث کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس مجموعے کے صفحات کی تعداد ۱۱۹ ہے۔ ۲۰۰۲ء میں "آج” کراچی سے بھی اس کا پاکستانی ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔

مضامین کے عنوانات درج ذیل ہیں:

اجتہادات روایت کی روشنی میں
جدید افسانے کا اسلوب
استعارہ اور نر الفاظ
افسانہ نگاری اور قاری

وارث علوی کی کتاب "جدید افسانہ اور اس کے مسائل” چار مضامین پر مشتمل ہے۔

وارث علوی کا اسلوب اور لفظیات کے علاوہ عناوین بھی اس کتاب میں ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد فن کے عروج پر نظر آتے ہیں۔

وہ اپنی تحریروں میں جدیدیت سے مابعد جدیدیت کی طرف گامزن نظر آتے ہیں۔

ان کا پہلا مضمون "اجتہادات — روایت کی روشنی میں” اردو افسانے کے جملہ پہلوؤں کے مباحث سامنے لاتا ہے۔

ان کے خیال میں افسانے میں فن اور تکنیک کی تبدیلیاں خوش آئند ہیں۔ بعض جگہوں پر وارث علوی مشرقی افسانہ نگاروں اور مغرب کے افسانہ نویسوں کا موازنہ بھی کر دیتے ہیں۔

دوسرا مضمون "جدید افسانے کا اسلوب” اس دور کی تحریر ہے جب علامت اور تجریدیت کے حامل افسانے تخلیق ہو رہے تھے۔

تجریدیت کی وجہ سے افسانہ ایک مبہم چیز بن گئی تھی۔ اس نے روایتی افسانے کو نقصان پہنچایا تھا۔

افسانے کے تقریباً سبھی ارکان ملیامیٹ ہو رہے تھے۔ لگتا تھا کہ افسانہ زمان و مکان کی قید سے آزاد کوئی چیز بن گئی ہے۔

وارث علوی کے خیال میں یہ مناسب رویے نہیں ہیں۔ افسانے کو اصل مرکز سے نہیں ہٹانا چاہیے۔

علوی صاحب نے مضمون "استعارہ اور نر الفاظ” میں استعارہ کو شاعری کی ضرورت قرار دیا ہے۔

استعارہ کا زیادہ استعمال افسانہ یا ناول کو بوجھل اور پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ تشبیہ و استعارہ کا نثر میں صرف بوقت ضرورت اور برمحل استعمال کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

کتاب کے آخری مضمون "افسانہ نگاری اور قاری” میں علوی صاحب نے بتایا ہے کہ آج کل قاری افسانے کی قراءت اس لیے کرتا ہے کہ وہ خود افسانہ نگار بن جائے۔

یہ مناسب رویہ نہیں۔ خراب مصنف بننے سے بہتر ہے کہ اچھا قاری بنا جائے۔

اچھے قاری کی خصوصیات بھی وارث علوی نے اس مضمون میں ذکر کی ہیں۔


حوالہ جات

مقالے کا عنوان: وارث علوی بطور نقاد
محقق: ڈاکٹر تحسین فاطمہ
نگران: پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین
یونیورسٹی: شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
سال: 2019
صفحات: 38
پروف ریڈنگ تحریر ماخوذ ہونے کے بعد: آنسہ سرور ایم اے اردو


اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں