مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

کیا اسلام آباد واقعی ایک نیا شہر ہے؟ جانیے مارگلہ پہاڑوں میں دفن ہزاروں سال پرانی تاریخ


کیا اسلام آباد واقعی ایک نیا شہر ہے؟ جانیے مارگلہ پہاڑوں میں دفن ہزاروں سال پرانی تاریخ

پاکستان کا کیپیٹل اسلام آباد کیا واقعی ایک نیا شہر ہے؟ اسکی خوبصورتی کی نشانی مارگلہ پہاڑوں کے پیچھے ایک خوفناک تاریخ ہے۔ یہ جگہ ہندوؤں کے لیے کیوں سیکرڈ ہے؟ صوفی بزرگ بری امام نے کیوں کہا تھا کہ یہاں ایک ایسا شہر ہوگا جو عالم اسلام کا مرکز ہوگا؟ اسلام آباد کی وہ تاریخ جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے جانیے اس پوسٹ میں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کا وی امیر ترین ملک، جہاں نوجوان رہنا نہیں چاہتے

اسلام آباد

عام تاثر یہی ہے کہ اسلام آباد ایک نیا شہر ہے، جسے پاکستان بننے کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا۔ بلاشبہ، پاکستان کے جدید شہروں میں اسلام آباد سب سے منظم اور خوبصورت ہے۔

حکومت نے فیصلہ کیا اور مارگلہ کے سرسبز پہاڑوں کے دامن میں ایک نیا دارالحکومت وجود میں آ گیا۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس دارالحکومت کے بننے سے پہلے یہاں کیا تھا؟ یہاں کون لوگ آباد تھے؟ کیا یہ صرف ایک جنگل تھا یا اس کی بھی کوئی تاریخ ہے؟

آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اسلام آباد کی تاریخ سو یا دو سو سال نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے۔

کروڑوں سال پرانی کہانی: جب مارگلہ سمندر کا حصہ تھے

اسلام آباد کی تاریخ جاننے کے لیے مارگلہ کے پہاڑوں کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک، جو 1980 میں قائم ہوا، تقریباً 43,000 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور اسے ہمالیہ کے قدم (Foothills of Himalayas) بھی کہا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق، کروڑوں سال پہلے جب برصغیر انٹارکٹیکا کے قریب ایک زمینی پلیٹ تھا، یہ پلیٹ شمال کی طرف حرکت کرنے لگی۔ تقریباً چار سے پانچ کروڑ سال پہلے، اس نے ایشیا سے ٹکرا کر ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو جنم دیا۔

انہی مارگلہ کے پہاڑوں میں موجود چونا پتھر (Limestone) میں سمندری حیات کے فوسلز پائے جاتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ پہاڑ کبھی سمندر کا حصہ تھے۔ ان فوسلز کی بدولت ان پہاڑوں کی عمر کا اندازہ چار کروڑ سال لگایا گیا ہے۔

مارگلہ کا نام کیسے پڑا؟ کئی دلچسپ روایات

مارگلہ کے نام کے پیچھے کئی کہانیاں اور روایات موجود ہیں، جو اس علاقے کی پراسراریت کو مزید بڑھاتی ہیں:

  • خونخوار جنگجو مہرگلا: ایک روایت کے مطابق، سفید ہُن جنگجوؤں کے سردار "مہرگلا” نے ٹیکسلا کو فتح کرنے کے بعد ان پہاڑوں میں اپنی فتح کا جشن منایا اور سورج دیوتا کے لیے ہزاروں انسانوں کی قربانی دی۔ اس کے نام کا مقامی ورژن "مہر گولے والی” بگڑ کر "مارگلہ” بن گیا۔
  • چاند کی پوجا: پنڈت کلہان کی "راج ترنگنی” کے مطابق، ان پہاڑوں پر سب سے پہلے چاند کی پوجا کی گئی تھی۔ یہاں ایک مندر تھا جسے "ماریکلا” کہا جاتا تھا، جس کا مطلب "چاند کی عبادت گاہ” ہے۔ یہی نام بعد میں مارگلہ بن گیا۔
  • "مار گلہ”: یہ پہاڑ ٹیکسلا اور شمالی علاقوں کے درمیان ایک گزرگاہ تھے۔ مقامی قبائل یہاں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے تھے، جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام "مار گلہ” یعنی "گلا کاٹنے کی جگہ” پڑ گیا۔
  • سانپوں کا مسکن: ایک اور مضبوط روایت یہ ہے کہ "مار” کا مطلب سانپ ہے اور پوٹھوہاری میں "گلہ” درے یا راستے کو کہتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں سانپوں کی بہتات اور ان کے بل کھاتے راستوں کی وجہ سے انہیں "مارگلہ” کہا جانے لگا۔

تہذیبوں کا مرکز: اسلام آباد کے گرد قدیم شہر

مورخ منظور الحق صدیقی کے مطابق، مارگلہ کے ارد گرد گیارہ قدیم تہذیبوں کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ٹیکسلا میں سات، جبکہ اس کے قریب سرائے کھولا میں چار مختلف تہذیبوں کی باقیات ملی ہیں، جن کے نشانات وادی سندھ کی تہذیب تک جاتے ہیں۔ یہ تمام تہذیبیں مارگلہ کے دامن میں آباد تھیں اور یہ پہاڑیاں ان کے لیے ایک قدرتی دیوار کا کام کرتی تھیں۔

ڈی-12 سیکٹر کے قریب شاہ اللہ دتہ کا گاؤں ہے، جہاں موجود غاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شیو مہاراج اور رام نے اپنے بنواس کے دوران یہاں قیام کیا تھا۔ کچھ روایات کے مطابق، عظیم فلسفی چانکیہ نے اپنی مشہور کتابیں "ارتھ شاستر” اور "چانکیہ نیتی” انہی غاروں میں تحریر کی تھیں۔

اسی طرح سملی ڈیم کا علاقہ کبھی ٹیکسلا کی شہزادی "سملی دیوی” کے نام سے منسوب تھا، جبکہ اسلام آباد کی مشہور کری روڈ کا نام شہزادی کی نانی "کری دیوی” کے نام پر رکھا گیا ہے۔

سیدپور: اسلام آباد کا تاریخی دل

جب اسلام آباد کی تعمیر شروع ہوئی تو یہاں تقریباً 85 چھوٹے بڑے دیہات موجود تھے، جن میں سیدپور سب سے بڑا اور تاریخی گاؤں تھا۔ اس گاؤں کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں بھی ملتا ہے اور اسے خطہ پوٹھوہار کی تین مقدس ترین جگہوں (سیدپور، ٹلہ جوگیاں اور کٹاس راج) میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں سنسکرت کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی اور رام، سیتا اور لکشمن نے اپنے بنواس کے دوران قیام کیا۔ آج بھی یہاں رام کنڈ، لکشمن کنڈ اور سیتا کنڈ موجود ہیں۔

مغل بادشاہ اکبر کے دور میں اس علاقے پر گکھڑ سردار سید خان کی حکومت تھی، جس کی وجہ سے اس کا نام سیدپور پڑا۔ اکبر کے سپہ سالار راجہ مان سنگھ نے یہاں ایک مندر اور دھرم شالہ تعمیر کروایا۔ بعد میں مغل بادشاہ جہانگیر نے سید خان کی بیٹی سے شادی کی اور یہ گاؤں اسے جہیز میں ملا، اس طرح یہ جہانگیر کا سسرال بھی کہلایا۔

بری امام کی پیشگوئی: ایک صوفی بزرگ کی نظر میں مستقبل کا شہر

اس شہر کی سب سے بڑی روحانی نسبت صوفی بزرگ حضرت بری امام سرکار (پیر سید عبدالطیف کاظمی) سے ہے۔ ان کی پیدائش 1617 میں چکوال میں ہوئی، لیکن بعد میں وہ اپنے والد کے ساتھ باغ کلاں (موجودہ آبپارہ) منتقل ہو گئے۔ اپنی بیوی اور بیٹی کے انتقال کے بعد انہوں نے مارگلہ کے جنگلوں میں عبادت شروع کی اور چوبیس سال یہاں گزارے۔

انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ یہاں ایک ایسا شہر آباد ہوگا جو عالم اسلام کا مرکز بنے گا۔ ان کی وجہ سے یہاں کے مقامی قبائل، جو پہلے چور پور کہلانے والے علاقے میں لوٹ مار کرتے تھے، اسلام کی طرف راغب ہوئے اور یہ علاقہ "نورپور شاہاں” کہلایا۔ ان کا مزار بھی یہیں ہے جسے مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا تھا۔

نئے دارالحکومت کا قیام: پیشگوئی جو سچ ثابت ہوئی

حضرت بری امام کی پیشگوئی تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد 21 جنوری 1959 کو سچ ثابت ہوئی، جب صدر ایوب خان نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے اس جگہ کو پاکستان کے نئے دارالحکومت کے لیے منتخب کیا۔

آج مارگلہ کے دامن میں پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس موجود ہیں اور یہ شہر واقعی عالم اسلام میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔

خلاصہ: عام تاثر کے برعکس، اسلام آباد صرف ایک جدید دارالحکومت نہیں ہے۔ اس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی تہذیبوں، پراسرار داستانوں اور ایک عظیم صوفی بزرگ کی پیشگوئی سے جڑی ہیں۔ آئیے مارگلہ کی خوبصورتی کے پیچھے چھپی اس گہری اور دلچسپ تاریخ کو جانیں۔

تو کیا آپ اب بھی اسلام آباد کو صرف ایک نیا شہر سمجھتے ہیں؟ اس کی ہر سڑک اور ہر ٹریل کے پیچھے صدیوں پرانی کہانیاں دفن ہیں۔


اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں