کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو شاعری 1
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5607
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ غزلیات مومن
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 124تا130
۔۔۔۔ ڈاکٹر محمود الرحمن
نظر ثانی : ڈاکٹر سیدہ محسنہ نقوی
مرتب کردہ :محمد عکرمہ رضی انڈیا
تعارف
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
عزیز طلبہ و طالبات
آپ اس یونٹ میں اردو کے ممتاز غزل گو اور غالب کے ہم عصر شاعر حکیم مومن خان مومن کی زندگی اور ان کے رنگ تغزل کے بارے میں پڑھیں گے ، نیز ان کی پانچ غزلوں کا جائزہ لیں گے۔ یہاں یہ حقیقت واضح کر دی جائے کہ مومن شعرائے اردو میں ایک خاص درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا کلام نازک خیالی اور بلند پروازی کے لئے شہرہ آفاق ہے ان کی تشبیہیں اور استعارے بالکل ہی غیر معمولی اور چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مومن کی شاعری میں الفاظ کا ایک ایسا علم ہے جس سے قاری مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتا، مثلا یہ شعر
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چہک جائے ہے آواز تو دیکھو
مقاصد
امید کی جاتی ہے کہ اس یونٹ کے مطالعے کے بعد آپ اس قابل ہو سکیں گے کہ ایک غزل گو کی حیثیت سے مومن کی اہمیت بیان کر سکیں۔ مومن کی غزلوں کو سمجھ کر ان کی تشریح کر سکیں۔
ا۔ مومن خان مومن
محمد مومن خان نام تھا اور مومن تخلص – 1215ھ مطابق 1800ء میں دہلی کے محلہ کوچئہ چلان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا حکیم نامدار خاں شاہ عالم کے عہد حکومت میں کشمیر سے ہجرت کر کے دہلی آئے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ ان کی طبابت کا شہرہ سن کر بادشاہ نے شاہی طبیبوں میں شامل کر لیا اور ان کی بے بہا خدمات کے صلے میں جاگیر عطا کی۔
مومن کے والد حکیم غلام نبی خان دہلی کے مشہور طبیبوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے بے حد عقیدت تھی۔ حضرت شاہ عبد العزیز نے ہی مومن کی پیدائش کے موقع پر مومن کے کان میں آذان دی اور مومن خاں نام رکھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو مولانہ شاہ عبد القادر سے عربی کی کتابیں پڑھیں ۔ گویا مومن خان نے درسیات کی تکمیل ایک ایسے گھرانے میں کی جو ایک مدت تک دلی میں اپنے علم و فضل کے سبب معززو ممتاز رہا تھا۔
درسیات کی تکمیل کے بعد مومن نے اپنے والد حکیم غلام نبی خان اور اپنے دو چچا حکیم غلام حیدر خان اور حکیم غلام حسن خان سے طب کی کتابیں پڑھیں اور اپنے آبائی مطلب میں ان خاندانی بزرگوں کی زیر نگرانی نسخہ نویسی کی۔
اسی زمانے میں انہیں علم نجوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس کو بھی اس زمانے کے اہل کمال سے حاصل کیا اور مہارت بہم پہنچائی۔ مومن کو اس فن میں ایسا ملکہ تھا کہ بڑے بڑے منجم اور جو تشی حیران و ششدر رہ جاتے ۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ سال میں صرف ایک بار تقویم دیکھ لیتے اور پورے بارہ ماہ تک تمام ستاروں کے مقام اور کیفیات واثرات ان کے ذہن میں محفوظ رہتے۔
علم نجوم کی طرح فن موسیقی سے بھی مومن خان کو شغف تھا۔ اس میں وہ نام پیدا کیا کہ لوگ ان کے کمال کے معترف ہو گئے ۔ شطر نج سے بھی ان کو کمال مناسبت تھی۔ جب کھیلنے بیٹھتے تو دنیا و مافیا کی کوئی خبر نہ رہتی اور تمام ضروری کام بھول جاتے۔
مومن اگر چہ کئی علوم و فنون میں دسترس رکھتے تھے، لیکن اپنی زندگی میں سب سے زیادہ دلچسپی انہوں نے شعر و شاعری میں لی تھی۔ اور یہی چیز ان کی دائمی شہرت اور نام و نمود کا ذریعہ بنی ۔
مومن کو شعر و شاعری سے طبعی مناسبت تھی۔ جہاں ان کے عاشقانہ مزاج نے اس فطری شوق کو ہوادی وہاں دلی ماحول نے بھی مہمیز کا کام کیا۔ مومن کے عہد میں دلی اردو غزل کا مرکز تھی۔ غالب ، ذوق بہادر شاہ ظفر ، صہبائی، مجروح اور شیفتہ جیسے بلند پایہ شاعر غزل سرائی کر رہے تھے۔ جو سچ پوچھئے تو میر و سودا کی طرح یہ عہد بھی اردو غزل کے لئے نہایت سازگار اور تابناک تھا۔ اسی شاعرانہ ماحول میں ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں شاہ نصیر کو اپنا کلام دکھایا اور ان سے اصلاح لی۔
مومن کے کلام کا بیشتر حصہ غزلیات اور مثنویوں پر مشتمل ہے۔ یوں تو وہ قادر الکلام شاعر تھے اور غزل، قصیدہ، ربائی مثنوی ، تاریخ ، معمہ ، سب ہی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی تھی ۔ لیکن غزل اور مثنوی سے انہیں خاص مناسبت تھی۔
مومن اپنی زندگی کے تقریبا 52 سال گزار چکے تھے کہ ایک دن کو ٹھے سے گر پڑے اور چند ماہ بعد 1268ھ مطابق 1851ء میں وفات پاگئے۔ اپنے مرنے کی تاریخ خود لکھی تھی۔
وسعت و باز و به شکست (1268ھ)
مومن بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ انہوں نے غزل گوئی کے اس ماحول میں پرورش پائی تھی جہاں سربر آوردہ شعراء اپنے کلام کا جادو جگا رہے تھے۔ پھر انہوں نے جس تہذیب اور معاشرت میں زندگی بسر کی وہ پوری طرح ان کی شاعری میں رچی بسی ہوتی ہے۔ لیکن اس رنگ معاشرت نے ان کے فکر و فن میں عمومیت اور سوقیانہ پن پیدا نہیں کیا، اس لئے کہ مومن انفرادی شخصیت کے مالک تھے اور یہ خصوصیت ان کی غزل گوئی میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ گویا اس طرح صنف غزل میں مومن انفرادی مقام کے حامل ٹہرے۔
اردو شاعری میں جس طرح میراپنے سوزو گداز اور اپنے صوفیانہ رنگ اور غالب اپنے مفکرانہ انداز کے لئے معروف ہیں اسی طرح مومن بھی اپنی نازک خیالی ، معنی آفرینی اور بلند پروازی کے لئے ضرب المثل ہیں۔ حتی کہ اردو ادب کے بعض نقاد تو انہیں نازک خیالی کا باد شادہ قرار دیتے ہیں۔
مومن کی شاعری عشق مجازی کی پر زور اور پر اثر داستان ہے۔ اس میں حرماں نصیب اور فرقت زدہ عاشق کی کیفیات نہایت نادر اور اثر انگیز انداز میں بیان ہوئی ہیں۔ مومن نے واردات حسن و عشق کے اظہار میں ایسی حیرت انگیز جدت اور تنوع سے کام لیا ہے کہ ہر شعر ناز و غمزہ و ادا کی مصوری، جذبہ رقابت کی نشاندہی ادابندی اور معاملہ نگاری میں یکتا نظر آتا ہے۔
نازک تشبیہات نادر استعارات اور بدید تخیلات مومن کی غزل گوئی کا اصلی جوہر ہیں۔ حقیقی جذبات نگاری میں انہیں ید طولی حاصل ہے۔ وہ فارسی کی دل فریب ترکیبیں بڑی خوبی سے استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی شاعری میں دلفر یبی پیدا ہو جاتی ہے۔ غرض ان کی غزلوں میں دلکشی اور چاشنی ہے ترنم اور قیمتی ہے حسن و عشق کا والہانہ انداز بیان ہے ‘ صداقت و خلوص کی کار فرمائی ہے
پامال مضامین سے اجتناب رہے اور جدت طرازی نکتہ آفرینی ہے۔
مو من افق شاعری میں آفتاب و ماہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے رنگ تغزل پر کسی رجحان کی چھاپ لگانی مشکل ہے۔ وہ اپنے لہجے میں منفرد اور اسلوب کے آپ مالک ہیں۔ ان کی شاعری اپنے ہم عصر شعراء سے بالکل مختلف ہے۔ مومن کے یہاں دقیق تراکیب اور مشکل الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ ان کی غزل سراپا تخیل ہے۔ ان کا اسپ خیال بام عرش تک جا پہنچتا ہے۔
باتیں ہمہ مومن کے بیشتر اشعار جذبے سے خالی ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے منتخب اشعار کا جواب نہیں۔ مومن کے مضامین معاملات حسن و عشق تک محدود ہیں۔ وہ صنف غزل کو تصوف اور اخلاق یا فلسفے سے گر انبار کرنا پسند نہیں کرتے۔ ان کی انفرادیت کافی حد تک ان کے اسلوب اور دور رس تخیل میں پنہاں ہے۔
مومن خاں مومن کی شاعری عشق مجازی کی پر زور داستان ہے۔ اس میں ایک حرماں نصیب عاشق کی کیفیات بڑے موثر انداز اور منفرد لہجے میں بیان ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ واردات حسن و عشق کا اظہار اردو شاعری میں کوئی نئی چیز نہیں۔ ایک متلون مزاج سے محبت اور پھر اس کے جملہ لوازمات مثلا نازو ادا و غمزہ کی بھر پور مصوری اپنے جذبہ رقابت کی نشان دہی ادا بندی اور معاملہ نگاری۔ لیکن مومن نے اس محدود دائرے میں رہ کر ایسی حیرت انگیز جدت اور تنوع سے کام لیا کہ ان کا ہر شعر تازہ کار اور تازہ خیال معلوم ہوتا ہے۔
غالب کی طرح مومن کے یہاں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ کسی واقعہ کے بیان میں درمیانی کڑیوں کو چھوڑ جاتے ہیں لیکن ابتداء اور انتہا کو اس طرح منسلک کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ان مخذوفات کو خود خود مکمل کر کے کیفیت شعری میں شاعر کا شریک ہو جاتا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مومن نے غزل کے صحیح ماحول میں پرورش پائی تھی ان کی ذہنی و شعری نشو نما میں اس مخصوص تہذیبی اور معاشرتی ماحول کا ہاتھ ہے جس نے غزل کی صنف کو پروان چڑھایا ہے اور جو خود غزل کے ہاتھوں پیدا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کے تغزل میں اس تہذیب و معاشرت کا مزاج پوری طرح بے نقاب ہے جس کے سائے میں انہوں نے زندگی بسر کی تھی اور جس کی خصوصیات خود ان کے مزاج میں پوری طرح رچ بس گئی تھیں۔
لیکن مذکورہ بالا صورت حال نے ان کی غزلوں میں عمومیت یکسانیت اور یک رنگی نہیں پیدا کی۔ مومن صحیح معنوں میں بڑی انفرادیت کے مالک تھے اور ان کی شخصیت کی یہ انفرادیت ان کی غزلوں میں اپنا بھر پور جلوہ دکھاتی ہے۔ اس کی مین وجہ یہ بھی ہے کہ مومن محض قافیہ پیمائی کے شاعر نہیں ! ان کے کلام میں ان کے ذاتی اور انفرادی تجربات کا لہو موجزن ہے۔ یہی سبب ہے کہ مومن کی غزلوں میں نئی زندگی نظر آتی ہے اور ایک نیا روپ دکھائی دیتا ہے جو قدم قدم پر دامن دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مومن کے انفرادی
اور ذاتی تجربے کی صداقت صحیح جمالیاتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ان کی غزلوں کو ایک کرشمہ بنادیتی
ہے جو دیکھنے والے کے دل کو لبھاتا ہی نہیں اس کو چونکا تا بھی ہے۔
غرض، مومن کی ذہانت اور طباعی نے ان کی غزلوں کو دلفریب بنا دیا ہے۔ نکتہ طرازی رفعت تخیل اور جدت ادا ان کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری میں ایک دلکشی اور چاشنی ہے مترنم اور نعمتی ہے ۔ عاشقانہ جذبات اور معاملات حسن و عشق کا والهانه انداز بیان ہے ، جس میں صداقت و خلوص ہے فکر کی بلندی کے ساتھ فن کار چاؤ ہے۔ مومن اول تو پامال مضامین سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور اگر کہیں
کسی پامال مضمون کو لاتے بھی ہیں تو ان کی جدت اسے ایک نیا روپ عطا کر دیتی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مومن نے حسن و عشق کے راز و نیاز تنگنائے غزل میں
سمونے کی کوشش کی اور تغزل کا وہ معیار قائم کیا کہ آج بھی جاذب توجہ بنا ہوا ہے۔
یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ مومن خاں مومن کی غزلوں نے اردو غزل کی روایت کو نئی راہوں پر لگایا اور تغزل کا وہ معیار قائم کیا کہ آج بھی جاذب توجہ بنا ہوا ہے۔ علامہ نیاز فتچوری کی مندرجہ ذیل رائے مومن کی غزل گوئی کے جملہ اوصاف کو عیاں کر رہی ہے۔
مومن انداز بیان کا تیکھا پن ، معاملات حسن و عشق کی صحیح ترجمانی لطیف طنزیہ انداز ان تمام خصوصیات کی بنا پر اپنے تمام ہم عصر شعراء سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں مومن ہی ایک ایسا شاعر ہے جو نفسیاتی رموز کو سمجھ کر شاعری کرتا ہے اور ایسی معنوی ترکیبیں پیدا کرتا ہے کہ غور سے تجزیہ کرنے کے بعد ان کا پتہ چلتا ہے“
مومن اردو شعراء میں بڑی پہلودار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی یہ پہلودار شخصیت اس بات کی متقاضی تھی کہ ان کے حالات کی تفصیل و جزئیات کا سراغ لگایا جاتا لیکن افسوس کہ مومن کو اپنے کمال فن کے اظہار و نمود کے لئے کوئی آزاد ملا نہ کوئی حالی !
اہم نکات
ا ۔ شعرائے اردو میں مومن ایک خاص درجہ رکھتے ہیں۔
۲۔ وہ صاحب طرز غزل گو تھے۔
۔ ان کا کلام نازک خیالی اور بلند پروازی کے لئے شہر آفاق ہے۔
ان کی تشبیہیں اور استعارے بالکل غیر معمولی ہوتے ہیں۔
۵۔ ان کے یہاں الفاظ کا طلسم ہے۔
مومن نے حسن و عشق کے راز و نیاز تنگنائے غزل میں سمونے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے تغزل کا وہ معیار قائم کیا کہ آج بھی جاذب توجہ ہوا ہے۔