اقبال کا آفاقی فکر و فلسفہ | Iqbal’s Universal Thought and Philosophy
اقبال کا آفاقی فکر و فلسفہ
علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ کی یہ ممتاز خصوصیت ہے کہ جس زمان ومکان کے حوالے سے انہوں نے اس فکر کا پرچار کیا ، آج اتنا عرصہ گذرنے کے بعد بھی ان کا یہ فکر وفلسفہ موجودہ زمان و مکان سے ماورا یا مختلف نظر نہیں آتا ۔
یہ بھی پڑھیں: اقبال مسائل و مباحث مرتب اقبال اکادمی
اس فکر و فلسفہ کے حوالے سے اسی انفرادیت کی وجہ سے انہیں مشرق و مغرب میں وہ مقام حاصل ہوا ، جو کہ مشرقی دنیا سے بہت ہی کم اذہان کو نصیب ہوا اور یہاں تک انہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی جو ان کے فکر و فلسفہ کے آفاقی ہونے کی دلیل بھی پیش کرتا ہے رابندر ناتھ ٹیگور اور قبال کی فکر کا اعتراف اس ضمن میں کرتے ہیں کہ:
وہ ایک ایسے شاعر ہیں جہاں میرزا ہن یعنی ٹیگور کا ذہن ایک ہو جا تا ہے اور یہ عبارت ’’جاودانی انسان‘‘ قابل توجہ ٹھہرتی ہے کہ انسان کو انسان ہی کے خاطر جینا چاہیے ، جس کی تلقین ٹیگور بھی کرتے ہیں ۔اب جہاں یہ ذہن اقبال کی آفاقیت کا اعلان کرتے ہیں تو اس بات میں دورائے نہیں کہ اقبال کا فکر و فلسفہ یا شعر وادب اپنے اندر ضرور آفاقی مادہ رکھتا ہے۔
اقبال کے خیالات فطرتی یا قدرتی طور پر آفاقی نوعیت کا سامان لے کر آئے تھے ، حالانکہ بال جبریل میں میں اس جذبے کا انکشاف یوں ہوتا ہے:
دلوں میں ولولے آ فاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگا ہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی! (1)
علامہ اقبال کی آفاقیت کا مسئلہ ہمیشہ عجیب وغریب بحث ومباحثہ کا موجب بنا ، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اقبال نے فکر وفن کے حوالے سے مشرق ومغرب سے خوب استفادہ کیا ، یہاں تک کہ وہ زندگی کے ارتقائی سفر میں مختلف افکار و نظریات کے حامل بھی رہے ۔
یہ بھی پڑھیں: فلسفہ اقبال مضامین مرتبہ بزم اقبال
علامہ اقبال نے چونکہ سب سے پہلے مشرق و مغرب کی فکریات کا تجزیہ کیا اور دونوں کے طرز زندگی ،تہذیب وتمدن کا موازنہ کرتے ہوئےاس نتیجے پر پہنچے کہ مشرق نے روحانیت کی پرورش کی لیکن دنیاوی ترقی میں پیچھے رہ گیا ، اور مغرب نے مادیت کی پرورش کی اور روحانیت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
علامہ مزید ان تصورات کا بھی انکشاف کرتے ہیں کہ دونوں قوموں نے ایک ہی سمت کی طرف رخ کر لیا یعنی مشرق روحانیت میں اپنے آپ کو گم کر گیا اور مغرب نے مادیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ انسان کے ہاں جب میں توازن بگڑ جا تا ہے تو علامہ کے خیال میں یہی سے کئی سارے تضاد وجود میں آتے ہیں ۔ علامہ نے جہاں انسانی شعور کے لئے روحانیت کی تلقین کی وہی تعقل یا ماد بیت کور نہیں کرتے ۔
ان خیالات سے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ علامہ جس معاشرتی اور سیاسی انقلاب کے متمنی تھے اس کا ہدف اسلام کی بنیادوں پر رکھ کر اصل میں عالم انسانیت کا ایک ہمہ گیر ارتقاء تھا۔ اب جب علامہ کی فکر کا آفاقی مسئلہ آتا ہے تو ضرور ایک ایسے فکری کینوس پر نظر دوڑائی پڑتی ہے جس کی وسعت بہت بڑی ہے ۔
علامہ کی فکریات ایک انفرادی حیثیت کی حامل ہے ، وہ ایک ممتاز شاعر بھی ہے اور ایک ممتاز فلسفی بھی اس طرح سے بین الاقوامی سطح پر انہیں فکر وادب دونوں لحاظ سے ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔ علامہ ضرور فکری اور ادبی تحریکوں ،نظریوں یا رجحانات سے متاثر ہوئےہیں لیکن تجزیہ کے بعد انہوں نے جس فکر کا انکشاف کیا وہ اپنے اندرا یک اختراعی اور تخلیقی شکل وصورت کا حامل رہا ہے ۔
ان کے علامہ آخری دور میں اس حقیقت کے قائل ہو گئے تھے کہ انسانیت کے تمام مسئلوں کا حل اسلامی نظام حیات میں پنہاں ہے ۔ اس سلسلے کے حوالے سے شہرت یافتہ مستشرق نکلسن کے خیالات کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، جس کا ذکر انہوں نے جریدہ اسلامیہ میں کیا تھا :
’’اقبال کو سمجھنے کے لئے اس قد رغور وفکر ، وسعتِ مطالعہ اورعمیق احساسات کی ضرورت ہے، جس کا اظہار عالم اسلامی کے اس ممتاز ترین فاضل کے ایک ایک لفظ سےہوتا ہے۔۔۔” (2)
علامہ کے کلام میں چونکہ کئی قسم کے فلسفیانہ خیالات موجود ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جس فکر و نظر کے سبب انہیں شہرت ابدی حاصل ہوئی ہے ،
وہ فکر و نظر ان کا ’’فلسفہ خودی” ہی ہے ۔ اس فلسفے سے مراد فخر وغرور نہیں بلکہ اس سے وہ استقلال ذاتی مراد ہے جو ہر مخلوق سے علم و عمل کو ایک مخصوص دائرے میں نمایاں کرتا ہے ، اسکی ذات وصفات کی بود ونمود کے مظاہر متعین کرنا ہے ،اور اس کی نشو ونما اور بالیدگی کے سامان فراہم کرنا ہے ۔ ہے۔ علامہ’’ اسرار خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں تصور خودی کے متعلق تحریر کرتے ہیں :
’’ یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات وتمنيات مستیز ہو تے ہیں ، یہ پر اسرار شے جو فطرت انسانی کی مستیر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے۔‘‘ (3)
یہاں پر اس بات کو بھی واضح کر تے چلیں کہ اسلام نے عظمت انسان کو بر قرار رکھنے کی تلقین کی ہے ، اس سلسلے میں علامہ نے فرمایا تھا :
’’مطالعہ قرآن کے بعد ہمیں تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں کہ انسان خدا کی برگزید مخلوق ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنی تمام کو تا ہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب بن سکتا ہے ۔ تیسری ضروری بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا‘‘ ۔ (4)
اس اقتباس کے متن میں جس’’ انسان‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے وہ انسان کسی ایک خاص قوم وملت کا انسان نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ علامہ کی فکریات میں جو انہوں نے اپنے منظوم ومنشور کلام کے حوالے سے پیش کیا ہے ، میں آفاقی نوعیت کے عناصر ضرور نظر آتے ہیں ۔’’اسرار خودی‘‘ جو علامہ کا شاہکار ہے کا مطالعہ اس حیثیت سے قابل توجہ ہے ،
خاص طور پر اس منظوم کلام سے ابتدائی چند نظمیں جن میں فلسفہ خودی پر بحث ہوتی ہے میں واضح طور پر آفاقی نوعیت منکشف ہے۔ اقبال کے فلسفہ خودی میں تین مراحل ہیں:
پہلا مرحلہ اطاعت ہے، دوسرا مرحلہ ضبط نفس ہے اور تیسرا مرحلہ نیابت الٰہی ۔
اقبال کا مرد مومن یہ مراحل طے کر کے نیابت الہی کو پہنچ کر اس میں انسانیت اور الٰہیت ایک نہیں ہوتیں ،ان تین مراحل کے بعد اقبال کا انسان "مرد کامل‘‘ بن جا تا ہے اور اس کی آنکھ خدا کی آنکھ ، اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اسی طرح اس کا پورا وجود اوصاف خداوندی میں جلوہ گر ہوتا ہے ، اقبال اس نظر کا انکشاف یوں کرتے ہیں:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین ،کارکشا و کارساز (5)
اقبال کا مرد مومن تقدیر کا غلام نہیں ، بلکہ وہ تقدیریں بدل سکتا ہے :
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیر یں (6)
اقبال کے فکری ارتقاء کی وجہ سے ان کے نظریات میں تغیر و تبدل رونما ہوتا رہا ، اس حوالے سے ان کے ابتدائی دور شاعری میں حب الوطنی کے جذ بے نے ماحول اور عصری حالات کے زیر اثر ہندوستانی قومیت اور وطنیت کا روپ دھار لیا، بعد میں جب انہیں یہ علم ہوا کہ وطنیت کے اس محدود اور مہلک تصور سے تضاد پیدا ہوسکتا ہے ،
تو انہوں نے اس نظریہ کی تکمیل کے لئے اسلام کی آفاقیت کا سہارا لیا، واضح رہے کہ فکر و نظر کا مرکز وہی رہا ، حالانکہ اس نظریہ کے دائرے وسیع تر ہوتے گئے ۔ابتدائی دور میں وطنیت کے رجحان کو علامہ کے فکر و نظر میں بدرجہ اتم دیکھا جا سکتا ہے ، وطن کی سر زمین سے محبت اور دلی عقیدت کو ان کے اس کلام میں دیکھا جا سکتا ہے ،
جس میں ہندوستان کی سر زمین سے فطرت کے نظاروں کا پردہ فاش کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے ہمالہ، ابر کہسار، ایک آرزو، رخصت اے بزم جہاں وغیرہ قابل ذکر ہیں ، آگے بڑھ جاتے ہیں تو ’’ ترانہ ہندی‘‘ اور "ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ وطن کی محبت کے لئے وہ جلو پیش کرتا ہے کہ عقل حیران ہو جاتی ہے ، اس حوالے سے یہ شعر محظوظ فرمائیں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی ، یہ گلستان ہمارا (7)
اقبال کو اس بات کا علم تھا کہ وطن کی تقدیس و برتری کا تصور ، جو فکرِ مغرب نے پیش کیا ، وہ زمانہ حاضرہ کی ہلاکت و تباہی کا سبب بن رہا ہے ۔حالانکہ آج اکیسویں صدی میں اس کے نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں کہ کس طرح وطن کی اس جارحانہ محبت نے انسانوں کے درمیان دیواریں کھڑا کیں ۔
علامہ اقبال کے فکر و نظر میں آفاقی نوعیت کے حوالے سے ساری جمہوریت کا ایک اہم رول رہا ہے،فرد کی اہمیت اور قدرو قیمت ان کی فکر کا نمایاں عنصر تسلیم کیا جا تا ہے اور جب جمہوریت کی اساس پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہی واضح ہو جا تا ہے کہ ہر فردا ہم ہے اور ہر فرد پر سماجی یا قومی ذمہ داریاں عائد ہیں۔
جب مغربی جمہوریت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ضرور یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورپ میں یہ آزادی فکر کی پیداوار ہے۔ علامہ تاریخی علم کے حوالے سے مغرب کو یہاں پر سراہتے ہیں کہ تحریک احیائےعلوم اور انسان دوستی و روشن خیال تحریکوں نے مغربی معاشرے میں فرد کی حیثیت واہمیت کو اجاگر کیا اور اس اصول کو قائم کیا
کہ حکومت افراد کی مرضی سے تعمیر و تشکیل ہونی چاہیے، جس میں حکومت اور لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہو، اور کسی بھی صورت میں اگر لوگوں کو حکومت پسند نہ آئے تو اس ضمن میں عوام کو حکومت ہٹانے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے ۔
علامہ اس حوالے سے فرد کو بھی اہمیت دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے تصور میں فرد ہی سے ملت کی تقدیر بنتی ہے وہ فرد کو اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ:
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ (8)
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا (9)
فکر اقبال میں یہ ولولہ خیز انداز جو کہ کئی ساری تحریکوں کی وجہ سے نمودار ہوا ، اس حوالے سے درج ذیل کا ذکر ناگزیر ہے جس میں ایک انسان کے لئے انقلاب کے عناصر شامل ہیں اور اپنے اندر آفاقی نوعیت کے حوالے سے انسانوں کی ہمدردی کا اظہار دلا تے ہیں :
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا ء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو (10)
علامہ اگرچہ جدید دور کا مفکر رہا ہے ، لیکن علامہ کے خیالات سے اسلاف کی ان تحریکوں اور رجحانات کا تقاضا ہوتا ہے جو مادیت پسند نہیں تھے بلکہ روحانیت کے بھی دلدادہ تھے ،
اس طرح سے علامہ جدید دور میں اخلاقیات کی ابتری کا رونا روتے ہیں ، جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے احسن اقدار کو پامال کیا ۔ علامہ نے دنیا کے نوجوانوں کو انقلاب پسند بننے پر زور دیا ، انہیں اگر ایک انقلابی شاعر تسلیم کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ، یہ شاعر بنا کسی تفرق کے دنیا کے نوجوانوں سے مخاطب ہے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اگر چہ اشعار کے متن کا پس منظر ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ابتر ہے جب وہ جدید تعلیم سے گریز کر رہے تھے لیکن اشعار میں اس قدر عصری معنویت اور آفاقیت چھائی ہوئی ہے جو قابل داد ہے ۔لندن میں اپنے فرزند کا پہلا خط پہنچنے پر "جاوید کے نام‘‘ ایک نظم تحریر کر ڈالی ، جود نیا کے ہر ایک جوان کے لئے ہے:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر!
نیا زمانہ، نئے صبح وشام پیدا کر!
میں شاخ تاک ہوں ، میری غزل سے میرا ثمر
میرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر! (11)
ایک اور جگہ اقبال حوصلہ افزائی کرتے ہوئے راز کی باتیں بیان کرتا ہے:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم ِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ فغان اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں (12)
’’ جاوید نامہ‘‘ کے حوالے سے’’ خطاب بہ جاوید‘‘ کا مطالعہ اس اعتبار سے بے حد ضروری ہے کہ اس مشن میں نو جوان نسل کے لئے زندگی کے راز کو عیاں کیا گیا ہے ۔ علامہ فکروفن کے حوالے سے پہلا ذہن ہے جنہوں نے نوجوانوں کے لیے ایسا فکری تحفہ پیش کیا۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی!
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استادکر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مراعشق میری نظر بخش دے (13)
مجنون گورکھپوری فنی حیثیت کے حوالے سے اقبال کی شاعری میں موسیقی اور ترنم کو ممتاز سمجھ کر فرماتے ہیں:
’’اقبال کی غزلیات اور نظمیات کا شروع سے آخر تک سلسلے اور ترتیب کے ساتھ مطالعہ کیا جائےتوموسیقیت اور خوشآہنگی کی خصوصیت ان کے ہاں برابر ملے گی.‘‘ (14)
اہل فکر اس حقیقت سے اتفاق کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ میں ایک اختراعی رجحان غالب رہا، جو انہیں دنیا کے ممتاز فلسفیوں میں شمار ہونے کا سبب بھی رہا ہے ۔ اہل ادب انہیں ممتاز شاعر تسلیم کرتے ہیں ، کیونکہ علامہ کی شاعری میں تمام تر وہ فنی لوازمات شامل ہیں جن سے ایک بڑے شاعر کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کے فکری تخیل میں پختگی اور متنوع قسم کے ایسے اظہار ملتے ہیں جن سے جذبات کا خلوص ، غیر معمولی اسلوب ، حسن ادا موسیقی جیسی فنکارانہ صلاحیتیں نمایاں ہیں ۔ را بندر ناتھ ٹیگور جنہیں دنیا ایک بہت بڑا شاعر تسلیم کرتی ہے اور ان کو ایک آفاقی شاعر بھی مانتے ہیں ،
اس سبب سے کہ ان کی شاعری کی حقیقت یہی ہے کہ ان کے ہاں جدائی یا مایوسی کا رونا نہیں ہے ، بلکہ ان میں پوشیدہ امیدوں اور تمناؤں کی امر روشنی ہے ۔ اسی طرح اقبال کے فکر و فلسفہ میں انسان کا شرف سب سے بڑھ کر ہے تبھی وہ مایوس ہوکر ایک جگہ جم نہیں جاتا بلکہ ایک ایسی قوت کے تحت متحرک ہوکر آگے بڑھ جا تا ہے۔ اس فلسفہ کے تحت انہیں دنیا کا ممتاز شاعر قرار دیا جا تا ہے ۔
نقادوں کا علامہ اقبال کو دنیا کے بڑے اور ممتاز مفکرین وشعراء سے موازنہ کر نا اس حقیقت کا غماز ہے کہ علامہ کا فکر وفن آفاقی نوعیت کا ہے ۔
جیسے کہ نقاد انہیں گوئٹے ، وڑ زورتھ ، دانتے ،ہلٹن شیکسپئر ، بائرن ، غالب، بیدل ، حافظ ، سعدی وغیرہ نابغہ فن کاروں سے موازنہ کرتے ہیں ، جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ادبی دنیا میں اقبال اپنی مثال آپ ہے۔ اقبال کی فن کاری کا اعتراف مغرب کے بڑے بڑے مفکروں اور ادیبوں نے کیا ہے ، اور مشرقی دنیا سے ممتاز نقادان کے فکر وفن پر مدلل بحثیں کر چکے ہیں جن میں خاص طور پر ان کی تقریر میں اور تحر میں قابل ذکر ہیں ۔
اس سلسلے میں جن مشرقی ذی فہم نقادوں نے ان کے فکر وفن کو سراہا ہے ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ ، آل احمد سرور ،کلیم الدین احمد ، مجنون گورکھپوری ،شمس الرحمن فاروقی ، ڈاکٹر سید عبداللہ ،صوفی غلام مصطفی تبسم ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، پروفیسر سید وحیدالدین ،ڈاکٹر یوسف حسین خان ،خلیفہ عبدالحکیم ، عبدالسلام ندوی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد،،فراق گورکھپوری ، ڈاکٹر فرمان فتچوری ، حامدی کاشمیری ،عبادت بریلوی ، وزیرآغا وغیرہ شامل ہیں۔
حوالہ جات
1- کلیات ( اردو )، بال جبریل ، ص؛54
2۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر،اقبالیات کے نقوش، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور، سنہ اشاعت 1999ء، ص؛147
3۔ یوسف حسین خان،ڈاکٹر ، روح اقبال ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ۔ دہلی جولائی 1922ء،ص ؛121
4۔ محمد شریف بقاء خطبات اقبال کا جائزہ، (خطبہ چہارم ) اقبال اکادمی پاکستان لاہور ، سنہ اشاعت ،1991،ص؛173
5۔ بال جبریل، ص؛97
6۔ بانگ درا( طلوع اسلام )ص۔27
7۔ بانگ درا، ص؛83
8۔ بانگ درا، ص259
9۔ ارمغان حجاز ( بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو) ،ص؛15
10۔ بال جبر یل (فرشتے کا گیت فرمان خدافرشتوں سے) ، ص؛110۔109
11۔ بال جبریل(جاوید کے نام) ص؛147
12۔ بال جبریل، ص؛21
13۔ بال جبریل(ساقی نامہ ) ص؛124
14۔ رفیع الدین ہاشمی ،پروفیسر، اقبال بحثیت شاعر ،مجلس ترقی ادب، لاہور،1977, ص؛76