اقبال کی غزل "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں” کی تشریح اور تنقیدی جائزہ

اقبال کی غزل "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں” کی تشریح اور تنقیدی جائزہ

غزل

دلچسپ معلومات
حصہ اول : 1905  ( بانگ درا)

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

تقطیع عروضی جائزہ

اس غزل کی بحر "بحر متقارب مثمن سالم”ہے
ترے عش/فعولن
قکی ان/ فعولن
تہا چا /فعولن
ہتا ہو / فعولن

تشریح و تنقیدی جائزہ

شعر نمبر ایک

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

تشریح نمبر ایک
مشکل الفاظ
  1. عشق: محبت، عشق کا جذبہ۔
  2. انتہا: حد، انتہا، اختتام۔
  3. سادگی: سادگی، غیر پیچیدگی، بےلوثی۔
روان ترجمہ

"میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں، میری سادگی دیکھ، میں کیا چاہتا ہوں۔”

تشریح

یہ شعر علامہ اقبال کی محبت کی شدت اور عشق کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔ شاعر اپنے محبوب(عشق حققی) کے عشق میں مگن ہے اور اس کی چاہت کی انتہا تک پہنچنے کی تمنا کر رہا ہے۔ اس میں ایک طرف وہ اپنی آرزو اور عشق کی شدت کا اظہار کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اپنی سادگی اور بے لوثی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میری سادگی یہ بتاتی ہے کہ میں عشق میں نازک اور صاف دل ہوں، اور میں عشق کی ایسی انتہا چاہتا ہوں جہاں صرف خالص محبت ہو، بغیر کسی دنیاوی مفادات کے۔

یہ بھی پڑھیں: اقبال کی اردو شاعری

یہ شعر یہ بھی بتاتا ہے کہ محبت میں سادگی ایک بڑی خوبی ہے، اور حقیقی عشق کی جستجو میں انسان کو اپنی غیر پیچیدہ خواہشات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اپنے جذبے کی گہرائی اور محبت کی بےلوثی کو نمایاں کرتے ہیں، جہاں وہ عشق کو ایک اعلیٰ درجہ پر لے جانے کی خواہش کرتے ہیں۔

تشریح نمبر دو

اقبال کا یہ شعر ایک شیدائی کی حالت کو بیان کرتا ہے جس کے دل میں اپنے محبوب کے عشق کی انتہاؤں تک پہنچنے کی آرزو ہے۔ وہ محبوب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں: "اے محبوب، میں تیرے عشق کی انتہائی بلند مراتب تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہوں، ایسی منزل تک پہنچنا چاہتا ہوں جہاں سب کچھ ختم ہو جائے۔ مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ عشق کی کوئی حقیقی حد نہیں ہوتی، یہ تو ایسا ہے جیسے پہاڑوں کا سلسلہ، جہاں انسان ایک بلند چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہاں پہنچتا ہے تو دوسری طرف ایک اور بلندی نظر آتی ہے۔”

یہی وجہ ہے کہ دوسرے مصرعے میں اقبال یہ اعتراف کرتے ہیں کہ میری یہ خواہش میرے بھولے پن اور معصومیت کی علامت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، پھر بھی وہ اس انتہا کی طلب کر رہے ہیں، جیسے ایک نازک دل انسان اپنی معصومیت میں عشق کی بیخود جستجو کرتا ہے، اپنی رہنمائی کی تلاش میں، جہاں عشق کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔

تشریح نمبر تین

انتہا ۔۔ آخری حد۔ سادگی ۔۔ معصومیت۔ اس شعر میں علامہ اقبال کا کہنا ہے ۔ میں تیری عشق میں اتنا مگن ہوا ہوں پھر بھی اس عشق کی انتہا تک جانا چاہتا ہوں ۔ اس میں آپ میری معصومیت کو دیکھ کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں مجھے پتہ ہے کہ عشق کی کوئی حد نہیں ہے پھر بھی اس انتہا تک جانا چاہتا ہوں

تشریح نمبر چار

یہ شعر عشق حقیقی کے حوالے سے ہے علامہ اقبال نے جب مسلمانوں کی حالت دیکھی تو اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مسلمان تو آپ کی عبادت کرتے ہیں پھر مسلمانوں پر یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے آپ تو اپنے بندوں سے محبت کرتے ہیں پھر کیوں مسلمان اس حال تک پہنچ چکے ہیں اس حوالے سے شاعر اللہ تعالیٰ سے فرماتے ہیں۔

کہ تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں یعنی میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ مومنون سے کتنی محبت کرتے ہیں لیکن اگلے شعر میں اپنی اس گستاخانہ بات پر شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں کہ میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔

تشریح نمبر پانچ

معانی: انتہا: اخیر ۔ سادگی: بھولپن ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں محبوب سے مخاطب ہو کر شاعر کہتا ہے کہ میں تیرے عشق کے ان انتہائی مراحل تک رسائی حاصل کرنے کا خواہاں ہوں جن سے آگے اور کچھ نہیں لیکن یہ خواہش میری سادگی کے علاوہ بظاہر اور کچھ نظر نہیں آتی۔

اقبال کا خصوصی مطالعہ

تشریح نمبر چھ

اس شعر میں شاعر مشرق محبوب حقیقی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب میں تیرے عشق کی آخری حدوں کو پہنچنا چاہتا اور یہ بات میں بخوبی جانتا بھی ہوں کہ عشق لا متناہی ہے لیکن پھر بھی اپنی معصومیت کی بنا پر تمھارے عشق کے انتہا تک پہنچنے کا آرزو مند ہوں۔

تشریح نمبر سات

اقبال کا تصور عشق
اس شعر سے اقبال کا تصور عشق بہت واضح انداز میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اقبال کسی بھی وقت کسی بھی حالت میں جمود کا قائل نہیں۔ اس طرح اقبال عشق میں بھی ایک جگہ پہنچنے کے بعد روک جانے کا قائل نہیں۔ اقبال کا عشق وصل کا عشق نہیں اقبال کا عشق ہمشہ جستجو اور نئی بلندیوں کو چھونے کا قائل ہے۔

اس لیے پہلے مصرعے میں آپ فرماتے ہیں کہ میں تیرے(محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے) عشق کا انتہا (آخری حد) تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔ لیکن دوسرے مصرعے میں آپ خود اس کا جواب دیتے ہیں کہ اے سادہ انسان اے سادہ دل عشق کا کوئی انتہا نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں عشق جستجو کا نام ہے۔

تشریح نمبر آٹھ

یہ شعر عشق حقیقی کے عمیق احساسات اور روحانی تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں” میں شاعر خدا یا حقیقی محبوب کی محبت کی بلند ترین شکل کی طلب کرتا ہے۔ یہاں عشق کی انتہا سے مراد وہ مقام ہے جہاں عشق کی تمام خوبیاں، سکون اور معرفت اکٹھی ہوتی ہیں، یعنی یہ عشق فقط دنیاوی محبت نہیں بلکہ روحانی سفر کا ایک اہم حصہ ہے۔

دوسرے مصرعے "مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں” میں شاعر اپنی سادگی کا ذکر کرتا ہے۔ یہ سادگی دراصل ایک روحانی حالت کی علامت ہے، جہاں انسان اپنے دل کی پاکیزگی اور خلوص کے ساتھ عشق حقیقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ شاعر بتانا چاہتا ہے کہ حقیقی عشق میں کسی بھی قسم کی ظاہر داری یا تکلف کی ضرورت نہیں، بلکہ سچائی اور خلوص ہی سب سے بڑی چیزیں ہیں۔

خلاصہ

شاعر عشق حقیقی کی طلب میں ہے، جہاں وہ خدا یا حقیقی محبوب کی محبت کی بلندیوں کو چاہتا ہے۔ اس کی سادگی اور خلوص اس کے عشق کی روحانی نوعیت کو واضح کرتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ حقیقی عشق میں بے ساختگی اور دل کی پاکیزگی کی اہمیت ہے۔ یہ شعر عشق حقیقی کے سفر میں سادگی اور گہرائی کو نمایاں کرتا ہے، جو کہ ایک روحانی تلاش کا حصہ ہے۔

شعر نمبر دو

ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی

کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

تشریح نمبر ایک

اس شعر میں شاعر کہہ رہا ہے کہ اسے کوئی ایسی کیفیت یا حالت چاہیے جو اس کے صبر کو آزما سکے۔ چاہے وہ ظلم و ستم ہو یا کوئی ایسا وعدہ جو کبھی پورا نہ ہو

(جیسے بے حجابی کا وعدہ)، شاعر کی تمنا یہ ہے کہ اس کے صبر کو کسی آزمائش میں ڈالا جائے۔ یعنی وہ کہہ رہا ہے کہ میری زندگی میں کوئی چیلنج، کوئی مشکل ہو تاکہ میں صبر کر سکوں اور اپنی ہمت کو آزما سکوں۔

اقبال اور تصور مذہب

تشریح نمبر دو
مشکل الفاظ
  1. ستم: ظلم، سختی، تکلیف۔
  2. وعدۂ بے حجابی: بغیر پردے یا رکاوٹ کے وعدہ، کھلی بات یا قربت، جو کہ عشق میں قربت کی علامت ہے۔
  3. صبر آزما: صبر کا امتحان یا آزمایش، سختی جو صبر کو آزماتا ہے۔
روان ترجمہ

"یہ سخت بات ہے کہ کوئی بے حجابی کا وعدہ کرے، اور میں ایسی بات کا انتظار کر رہا ہوں جو میری صبر کی آزمائش کرے۔”

تشریح

یہ شعر عشق کی پیچیدگیوں اور انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر "ستم” کا ذکر کر کے اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ عشق میں وعدے کبھی کبھار تکلیف دہ یا ظالمانہ ہو سکتے ہیں۔ "وعدۂ بے حجابی” کا مفہوم یہ ہے کہ جب محبوب آزادانہ طور پر اپنی محبت یا قربت کا وعدہ کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ میں ایک قسم کا خطرہ یا عدم استحکام بھی موجود ہوتا ہے۔

دوسرے مصرعے میں اقبال اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ایسی باتوں کی طلبگار ہیں جو ان کے صبر کی آزمائش کریں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عشق کا سفر کبھی آسان نہیں ہوتا، بلکہ اس میں مشکلات اور چیلنجز شامل ہیں جن سے گزرنا ضروری ہے۔

مجموعی طور پر یہ شعر عشق کی نزاکتوں کو بیان کرتا ہے، جہاں قربت کی خواہش کے ساتھ ساتھ صبر کی آزمایش بھی موجود ہے، اور یہ بتاتا ہے کہ عشق میں صبر کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ شاعر اس موقع پر دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش کرتا ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا سامنا کرے جو اس کی قوت برداشت کو چیلنج کرے، تاکہ عشق کی راہ میں مزید پختگی حاصل کر سکے۔

تشریح نمبر تین

ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
یہاں اقبال اپنے محبوب کے وعدے کی کھل کر سامنے آنے کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔ عشق حقیقی میں یہ وعدہ دراصل خدا کے ساتھ تعلق کی علامت ہے جہاں محبوب کی موجودگی اور اس کے وعدے کی بے حجابیت کا مطلب ہے کہ وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ ظاہر ہو جائے۔ لیکن یہ وعدہ ایک قسم کا "ستم” بھی بن جاتا ہے اگر وہ پورا نہ ہو۔ یہاں اقبال کی حالت یہ ہے کہ وہ عشق کے اس کٹھن سفر میں اپنی بے بسی اور کرب محسوس کرتا ہے جب محبوب کی وعدے وفا نہیں ہوتے۔

کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہاں اقبال اپنی روحانی حالت کو بیان کر رہا ہے۔ عشق حقیقی کے سفر میں صبر ایک اہم عنصر ہے۔ اقبال یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسی بات ہو جو اس کے صبر کی حد کو آزما سکے یعنی وہ اپنی محبت اور تعلق کی مضبوطی کو جانچنا چاہتا ہے۔ یہ خواہش دراصل عشق میں استقامت اور طاقت کی طلب ہے جہاں انسان اپنے ایمان کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

تشریح نمبر چار

اس میں صنعت تلمیح کا استعمال کیا گیا ہے ۔۔
واقعہ طور کی طرف اشارہ ہے۔(اس رائے سے پروفیسر آف اردو متفق نہیں)

شعر نمبر تین

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

تشریح نمبر ایک

اقبال کے اس شعر میں عشق کی انتہا ہے اقبال کا چونکہ عشق صرف عشق حقیقی رہا تو وہ فرماتے مجھے بہشت کی کوئی پروا نہیں جس کے لیے عبادت گزار اپنی پوری زندگی محنت کرتے۔

میں تو بس اس گھڑی کا انتظار کر رہا ہوں کہ میرا سامنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو جائے۔ میرے لیے محبوب دو عالم کا سامنا کسی جنت سے کم نہیں ہو گا۔

تشریح نمبر دو

اس شعر میں علامہ اقبال نے عشق کی گہرائی اور اس کی روحانی نوعیت کی عکاسی کی ہے۔

شعر کا تجزیہ
  1. "یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو”:
  • یہاں "زاہد” کا مطلب ہے وہ شخص جو دین کی راہ پر چلتا ہے اور دنیاوی اشیاء سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ اقبال اس چیز کو اجاگر کر رہے ہیں کہ زاہد لوگ جنت کی آسائشوں کی طلب میں ہوتے ہیں۔
  1. "کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں”:
  • اس مصرع میں شاعر خود کو اور اپنے احساسات کو سامنے لاتا ہے۔ "آپ” کی اصطلاح محبوب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کو جنت یا Heaven سے زیادہ اپنے محبوب کا دیدار کرنا اہم ہے۔
خیال و جذبات کا اظہار
  • اقبال کا یہ شعر عشق کے فلسفے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں عشق کو ایک روحانی تجربہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انسان کی روح کی مکمل سچائی اور خوشی، خدا یا محبوب کے قرب میں ہے۔ یہاں یہ واضح ہے کہ محبت کی لذت اور روحانی لطافت بقول اقبال جنت کی خوشیوں سے کہیں بڑی ہے۔
مجموعی خیال

علامہ اقبال کا یہ شعر عشق کی لازوال طاقت اور انسانی روح کی اصل خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں دیگر لوگ جنت کی طلب کرتے ہیں، وہیں اقبال محبوب کی دیدار کی طلب میں ہے، جو کہ ایک عمیق اور دلی تجربہ ہے۔

تشریح نمبر تین

علامہ اقبال نے اس شعر کے ذریعے دو تصورات، یعنی جنت اور محبوب سے ملاقات، کا موازنہ پیش کیا ہے۔ اقبال جنت کی بجائے محبوب کے دیدار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جنت، جو کہ آسائش کا مرکز ہے، زاہدوں کے لیے ایک لالچ کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنی عبادت کے ذریعے جنت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ برتاؤ دراصل ایک نفسیاتی پہلو کی عکاسی کرتا ہے جس میں زاہد عیش و راحت کی خاطر عبادت کرتا ہے۔

دوسرے مصرعے میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کو محبوب، یعنی خداوند کی ملاقات نصیب ہو جائے اور وہ اس سے راضی ہو جائے تو حقیقتاً وہی جنت ہے جو آدمی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح، عشق کا مقصد ایک تعلق کی تشکیل ہوتی ہے، جو کہ انسان کو حقیقی معنوں میں جنت کی گہرائیوں میں لے جا سکتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہ پیغام نمایاں ہے کہ عشق کو اصل مقصد بنایا جانا چاہیے، کیوں کہ یہی عشق انسان کی روح کی حقیقی تسکین کا ذریعہ ہے۔

شعر نمبر چار

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا

وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

تشریح نمبر ایک
مشکل الفاظ کی وضاحت
  1. شوخ: چنچل، زندہ دل یا بے باک۔
  2. لن ترانی: یہ لفظ عموماً پیار یا عشق کے مٹھے لمحات، خوش گپیاں یا کوئی خوبصورت غزل یا نغمہ بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
روان ترجمہ

"میں ذرا سا دل ہوں لیکن اتنا چنچل ہوں کہ میں اسی محبت کا نغمہ سننا چاہتا ہوں۔”

تشریح

اس شعر میں شاعر ایک دل کی حیثیت سے اپنی نفسیات کو بیان کر رہا ہے۔ وہ خود کو ‘ذرا سا دل’ کہتا ہے، یعنی اُس کی محبت کی شدت بہت بڑی نہیں ہے مگر پھر بھی وہ اتنا چنچل ہے کہ محبت اور عشق کی حسین داستانیں یا نغمے سننے کا خواہاں ہے۔ یہاں ‘شوخ’ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ محبت کی نشانیوں اور احساسات کی چمک سے بھرا ہوا ہے، اُس میں عشق کا جذبہ بھرپور ہے، خواہ وہ اس کا اظہار کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ۔

شاعر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ محبت ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو نہ صرف مستقل مہارت بلکہ جذباتی اور روحانی قوت بھی عطا کرتی ہے۔ عشق کی دنیا میں، شاعر محبت کو سننے یا اسے محسوس کرنے کی طلب کر رہا ہے، یہ اُس کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس شعر میں محبت کی خوبصورتی اور اس کی اثر داری کو بہت ہی دلکش طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جس میں وہ اپنی چنچل روح کے ساتھ عشق کی لذت کو بھرپور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔

تشریح نمبر دو

اقبال اس شعر میں عشق و محبت کی ایک گہری حقیقت کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ میرا عشق اور عشقی جذبہ اتنا بڑا نہیں ہے، مگر میری خواہش ہے کہ کوئی ایسا عاشق سامنے آئے جو اپنے محبوب کی خاطر قربانی دے سکے اور عشق کی عظمت کو اپنی داستانوں میں سنا سکے۔

"لن ترانی” کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کا اشارہ عشق کی ان کہانیوں کی طرف ہے جن میں عظیم عاشقوں نے اپنی محبت کے لیے بے خوف و خطر قربانیاں دی ہیں۔ اقبال کا مطالعہ قرآن سے متاثر تھا ایسا معلوم ہوتا ہے ہے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیتے ہیں جنہوں نے اپنے عشق کے لیے آگ میں کودنے کا جرأت مند فیصلہ کیا۔

اقبال نے دوسری جگہ بھی کہا ہے: "بے خطر کھود پڑا آتش نمرود میں عشق”۔ اس شعر کے ذریعے وہ یہ دکھاتے ہیں کہ عشق کی یہ داستانیں کس قدر عظیم ہیں اور وہ ان منفرد عاشقوں کی تلاش میں ہیں۔ اقبال کی خواہش ہے کہ کوئی ایسا بندہ پیدا ہو جو ابراہیم علیہ السلام کے عشق کی مانند ہو، جو عشق کے ان عظیم واقعات کے نقش قدم پر چلے اور اپنی محبت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔

یہ شعر ہمیں محبت کی حقیقی روح اور اس کی اہمیت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اور یہ پیغام دیتا ہے کہ عشق کی راہ میں قربانی اور بے خوفی ضروری ہیں۔ اقبال کی یہ تمنا ہمیں یہ بھی سمجھاتی ہے کہ عشق کا راستہ محض جذباتی نہیں، بلکہ عزم و حوصلہ بھی مانگتا ہے۔

تشریح نمبر تین

اس شعر میں تلمیح *لن ترانی* کا استعمال ہوا ہے۔ اقبال نے حضرت موسی علیہ السلام کے بے خوف و خطر دل کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ جب اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی خواہش پر جواب دیا تھا تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا۔

تشریح نمبر چار

حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر الله سے ہم کلام ہوتے تھے ایک دن انہوں نے الله سے دیدار کی خواہش کی تو الله تعالٰی نے فرمایا کہ اے موسی علیہ السلام میں نے دنیاوی آنکھوں میں وہ طاقت نہیں رکھی ہے جو میری تجلی کی تاب لا سکے ۔ یہاں پر یہ لن ترانی قرآن پاک کا لفظ ہے یعنی عربی زبان کا ۔اور اشارہ موسی علیہ السلام کے اس واقعے کی طرف ہے۔واللہ اعلم

تشریح نمبر پانچ

اس شعر میں تلمیح *لن ترانی* کا استعمال ہوا ہے۔ اقبال نے حضرت موسی علیہ السلام کے بے خوف و خطر دل کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ جب اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی خواہش پر جواب دیا تھا تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا۔

تشریح نمبر چھ

لن ترانى:عربی لفظ جو سورت الاعراف میں استعمال ہے۔ جب موسی علیہ السلام نے اللہ سے کہا کہ مجھے اپنا جلوہ دیکھا دےتو اللہ نے جواب دیا کہ "لن ترانی” آپ ہر گز مجھے نہیں دیکھ سکتے (دنیا).

شعر نمبر پانچ

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل

چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

تشریح نمبر ایک
مشکل الفاظ کی وضاحت
  1. دم: اس سے مراد "لمحہ” یا "پھونک” ہے، یعنی عارضی مدت۔
  2. مہماں: مہمان، یعنی کوئی ایسا شخص جو عارضی طور پر کسی جگہ موجود ہو۔
  3. اہل محفل: اس کا مطلب ہے محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ، یا محفل کے شرکا۔
  4. چراغ: لائٹ یا روشنی کا ذریعہ، یہاں استعارة طور پر علم یا فکر کی روشنی کے طور پر۔
  5. سحر: صبح، یعنی نئی روشنی کا وقت، جو امید اور نئے آغاز کا وقت ہوتا ہے۔
  6. بجھا: خاموش، ماند یا ختم ہونے کے معنی میں۔
روان ترجمہ

"میں ایک عارضی مہمان ہوں، اے محفل کے لوگوں! میں صبح کی روشنی کا چراغ ہوں، جسے بجھ جانے کی خواہش ہے۔”

تشریح

اقبال کا یہ شعر عارضیت اور فانی زندگی کے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ شاعر اپنی زندگی کو ایک عارضی مہمان کے طور پر دیکھتے ہیں، جو کہ ایک مخصوص وقت کے لیے موجود ہے، اور اس کی حیثیت محفل یا دنیا میں بالکل عارضی ہے۔

شاعر نے یہاں ‘چراغ سحر’ کے ذریعے اپنی فطرت کو روشنی دینے والے ایک ذریعہ کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ایک طرف امید کی علامت ہے کہ وہ علم اور فہم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں، مگر دوسری طرف ‘بجھا چاہتا ہوں’ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فانی حیثیت اور زندگی کی عارضیت کو سمجھتے ہیں اور اس کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔

یہ شعر اس بات کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ زندگی کی روشنی (علم، جہد و محنت) آپ کی ذات کی عروج تک ہی ہے، اور اس کے بعد انسانی وجود کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اقبال کی یہ سوچ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان کی اصل حیثیت اس کی فکر، علم، اور معنویت میں ہوتی ہے، نہ کہ صرف اس کی جسمانی زندگی میں۔

بنیادی طور پر، یہ شعر انسانی عدمیت اور حقیقت کی عارضیت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو اقبال کی شاعری کی ایک مرکزیت ہے۔

تشریح نمبر دو

مختصر فلسفیانہ تشریح اقبال کے نظریات کی روشنی میں ۔اس شعر کی فلسفیانہ تشریح کرتے ہوئے، اقبال نے زندگی کی ناپائیداری اور وقت کی محدودیت کو ایک گہرے فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ "کوئی دم کا مہماں” میں شاعر اپنے وجود کو ایک مہمان کی طرح پیش کرتا ہے،

جو کسی بھی وقت رخصت ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کی ناپائیداری اور عارضیت کو ظاہر کرتا ہے، جو وجود کی عدم موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہاں اقبال ایک فلسفیانہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں کہ انسان کا وجود عارضی ہے، جیسے کوئی مہمان کسی محفل میں آتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔**چراغ سحر** کی تشبیہ سے شاعر نے زندگی کے اختتام کی نشاندہی کی ہے،

جیسے سحر کے وقت چراغ کا بجھنا، جو نئے دن کی آمد کا اشارہ ہے۔ یہ چراغ کے بجھنے کا منظر موت اور فنا کی علامت ہے، مگر یہ ختمی کیفیت بھی ایک نئے دور یا روحانی بیداری کا آغاز بن سکتی ہے، جو وجود کی ابدیت کا تصور پیش کرتا ہے۔ اقبال کی فلسفیانہ سوچ میں یہ تصور اہم ہے کہ جسمانی فنا کے باوجود روحانی زندگی کا تسلسل جاری رہتا ہے۔یہ شعر اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کی عارضیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے،

اپنی ذمہ داریوں اور زندگی کے مقصد کو پورا کرنا چاہیے۔ اقبال نے یہاں **زندگی کی ناپائیداری** کے ساتھ **روحانی بیداری** کی اہمیت کو بیان کیا ہے، جو انسان کو اپنی حقیقت، موت اور اس کے بعد کی زندگی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

تشریح نمبر تین

اس شعر میں اقبال دنیا والوں سے مخاطب ہے کہ اے دنیا والوں میں اب میں اس دنیا میں ایک مہمان ہوں اور میں نے سفر آخرت کا ارادہ کیا ہے ۔۔۔یہاں پر چراغ سحر اقبال نے استعاراً اپنے لیے استعمال کیا ہے کہ جس طرح ایک چراغ پوری رات جلتا رہتا ہے

اور صبح جب روشنی چھاجاتی ہے تو وہ چراغ بجھ جاتا ہے اسی طرح میں بھی دنیا میں ایک چراغ ہوں یعنی میرے شاعری سے بھی لوگوں کو روشنی ملی اور اب میں بجھنا چاہتا ہوں یعنی اس دنیا سے کوچ کرنا چاہتا ہوں ۔۔(اس شعر میں اگر دیکھا جائے تو تعلی بھی نظر آتی ہے)

تشریح نمبر چار

اقبال نے اس شعر میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے۔ *چراغ سحر* ایک استعارہ جو فانی دنیا کو ظاہر کرتا ہے۔ اقبال اپنے آپ کو اس دنیا میں مہمان کے طور پر دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں

کہ میری زندگی کے دن ختم ہونے کے قریب ہیں اور میں کسی بھی وقت اس فانی دنیا سے کوچ کر جاوں گا۔

شعر نمبر چھ

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی

بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

تشریح نمبر ایک

*بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی* اس مصرعے میں شاعر اپنی بے باکی کا ذکر کر رہا ہے۔ "بھری بزم” کا مطلب ہے ایک ایسی جگہ جہاں لوگ موجود ہیں، یعنی ایک محفل یا اجتماع۔ یہاں راز کی بات کہنے سے مراد یہ ہے کہ شاعر نے اپنی محبت یا جذبات کا ایک ایسا راز بیان کیا ہے جو عمومی طور پر چھپایا جانا چاہیے تھا۔

یہ ایک جرات مندی کا عمل ہے جہاں وہ اپنی دل کی بات کھل کر کہہ دیتے ہیں چاہے اس کا کیا اثر ہو۔**بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں** یہاں "بے ادب” سے مراد وہ بے باکی ہے جو شاعر نے اس عمل میں دکھائی۔ وہ اپنی اس جرات پر فخر محسوس کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے اس کی بے ادبی کی سزا ملے۔

یہ شعر عشق کی شدت اور عشق کے اظہار کی جستجو کی عکاسی کرتا ہے، جہاں شاعر اپنی حقیقت کو سامنے لانے کے لیے تیار ہے چاہے اس کے نتیجے میں کوئی بھی ناپسندیدہ ردعمل سامنے آئے۔1. **بزم**: محفل، اجتماع، وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں۔2. **راز**: چھپی ہوئی بات، وہ حقیقت جو عام لوگوں سے مخفی ہو۔3. **بے ادب**: بے باک، بے حسی سے، ادب کا لحاظ نہ رکھنے والا۔

تشریح نمبر دو

بھری بزم: بھری محفل میں، سر عامبے ادب: گستاخاقبال اس شعر میں کہتا ہے کہ جو راز کی باتیں ہوتیں ہیں، ان کو میں نے سر عام محفل میں ذکر کردیے ، میں نے تو بے ادبی کی ہے، اس لئے اس بے ادبی کی مجھے سزا چاہیے۔شاید ایک اور جگہ اقبال نے خود کہا ہے:خموش اے دل! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کی قرینوں میں۔

تشریح نمبر تین
مشکل الفاظ کی وضاحت
  1. بھری بزم: بھری بزم سے مراد ایسی محفل یا مجلس ہے جہاں بہت سے لوگ موجود ہوں۔
  2. راز کی بات: اس سے مراد ایسی بات ہے جو عام لوگوں سے چھپی ہوئی ہو یا جس کا علم کم لوگوں کو ہو۔
  3. بے ادب: بے ادب کا مطلب ہے کہ ادب و احترام کی حدود کو قائم نہ رکھنا ۔
  4. سزا چاہتا ہوں: یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی کچھ غلطیوں یا بے ادبی کے لئے سزا کا طلب گار ہے۔
روان ترجمہ

"میں نے ایک بھرے ہوئے محفل میں ایک راز کی بات کہہ دی۔ میں بہت بے ادب ہوں اور اپنی اس حرکت کی سزا چاہتا ہوں۔”

تشریح

یہ شعر علامہ اقبال کی شاعری کی خوبصورتی اور گہرائی کو نمایاں کرتا ہے۔ شاعر ایک ایسے موقع کی منظر کشی کر رہے ہیں جب وہ ایک بھری محفل میں ہیں، جہاں لوگوں کی موجودگی میں انہوں نے ایک گہرے راز کی بات کہی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی ہمیں کچھ چیزیں کھل کر بولنے کی عادت ہوتی ہے، چاہے وہ مقام و حیثیت کے لحاظ سے ناپسندیدہ کیوں نہ ہو۔

یہ شعر شاعر کی خود احتسابی کو بھی اجاگر کرتا ہے، جہاں وہ اپنی بے ادبی کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے لئے سزا چاہتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ "بڑا بے ادب ہوں” دراصل اس کی اپنی شخصیت کی گہرائی کو بھی عیاں کرتا ہے کہ وہ اپنے الفاظ کی اہمیت اور ان کے اثرات سے بخوبی واقف ہے۔

یہ شعر اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ کچھ زیادہ گہرے افکار، خیالات یا احساسات جب محفلوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں، تو وہ بعض اوقات کسی بھی معاشرتی آداب کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ لہذا شاعر حقیقت کو بیان کرنے میں اپنی بے ادبی کا شعور رکھتے ہوئے اپنی بنیادی نیت کی سچائی کے لیے سزا کا طلب گار ہے۔ یہ ایک تفکر پیدا کرنے والا شعر ہے جو معاشرتی آداب، علم و شعور اور دل کی آواز کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

Abstract ,Acknowledgement And Credit

Title: Explanation and Critical Review of Iqbal’s Ghazal "I Want the End of Your Love”

Abstract:
This post discusses the explanation and critical analysis of Allama Iqbal’s ghazal, "I Want the End of Your Love,” which was facilitated in our WhatsApp community. The discussion was led by Mr.Ansir as Admin, Abdullah Najam Afridi, a notable contributor and professorofurdu.com as a Host. Other significant contributors included ,No Thing Is Impossible, Ayesha etc.

who served as the admin and top contributors. The critical exploration delves into the nuances of Iqbal’s expression of love and spiritual longing, revealing layers of meaning that resonate deeply with the complexities of human emotions.

The collective effort in our community highlights not only the literary richness of Iqbal’s work but also underscores the collaborative spirit of literary analysis among members.

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں