اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاء کی تیسری منزل

اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاء کی تیسری منزل

اقبال 27 جولائی 1908ء کو لاہور پہنچ کر سیالکوٹ چلے گئے، اور دو ماہ بعد واپس لاہور آئے تاکہ اپنا کاروبار (وکالت) شروع کر سکیں۔ "گورنمنٹ کالج لاہور” کی ملازمت سے وہ استعفیٰ دے چکے تھے اور قانون کے آزاد پیشے میں آ کر اپنے عزائم کی پیش رفت میں مصروف ہونا چاہتے تھے۔

مگر پیشۂ وکالت کی اپنی مصروفیات تھیں، اور مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کے ساتھ کچھ گھریلو الجھنیں بھی تھیں جن کی وجہ سے اقبال ایک دو سال تک مضطرب اور بے چین رہے۔ شعر گوئی کی طرف میلان بھی کم ہو گیا۔ وہ کسی ایسے ذریعہ معاش کی تلاش میں رہے جس میں اطمینان کے ساتھ اپنے خیالات و احساسات کو تخلیقی صورت دے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقبال شخص اور شخصیت مقالہ | PDF

اس مقصد کی خاطر وہ ایک بار مارچ 1910ء میں حیدرآباد (دکن) بھی گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے اورنگزیب عالمگیر کے مرقد منور کی زیارت بھی کی، اور اس موقع پر ایسی کیفیت ان پر طاری ہوئی کہ اس درویش شہنشاہ پر ایک نظم تخلیق کرنے کے عزم کا اظہار انہوں نے عطیہ بیگم کے نام خط میں کیا۔

(آئندہ چند برس میں اقبال نے یہ نظم تخلیق کی، اور یہی وہ نظم ہے جو "اسرارِ خودی” اور "رموزِ بےخودی” کے عنوان سے اقبال کی شہرۂ آفاق نظم کے طور پر مشہور ہوئی۔)

ہیجان و اضطراب کے ان ایّام میں بھی اقبال کی شعری و نثری تالیفات کا سلسلہ جاری رہا۔ گو اس کی مقدار کم ہے، مگر ان کے ذہنی و فکری ارتقاء کے مطالعے میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ ان کے نثری مضامین زیادہ تر انگریزی میں لکھے جاتے رہے۔ ان تحریروں میں دو تالیفات خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں:

یہ بھی پڑھیں: اقبال اور عشقِ رسول ﷺ

ایک تو 1910ء کا تحریر کردہ ان کا روزنامچہ ہے جس کا عنوان Stray Reflections (شذراتِ فکرِ اقبال) ہے، اور دوسرا ان کا ایک لیکچر ہے جو انہوں نے موسمِ سرما (آغاز 1911ء ) میں علی گڑھ کالج میں دیا تھا، اور جس کا اردو ترجمہ ظفر علی خان نے "بیضا” پر "ایک عمرانی نظر” کے عنوان سے انہی دنوں میں کیا تھا۔ مضمون کا انگریزی عنوان تھا:

"The Muslim Community — A Sociological Study”

شذراتِ فکرِ اقبال میں اقبال کے اس زمانے کے ذہنی تاثرات خاص اہمیت رکھتے ہیں، جو آگے چل کر ان کی شاعری اور نثر میں ایک مربوط فلسفۂ حیات کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً "شخصیت” ( Personality ) کے بارے میں ان کے یہ تاثرات ہی آگے چل کر "فلسفۂ خودی” کا روپ اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح فن اور فنکار، اسلامی تہذیب، مسلم قومیت کا نظریہ، مسلمانوں کا تہذیبی، علمی اور تاریخی ورثہ ( نظامِ قانون ) وغیرہ —

ان اہم بیانات پر اقبال کا ذہن و فکر اس زمانے (1910ء ) میں کام کر رہا تھا، اور پھر انہی خیالات کے حوالے سے اگلے سال کے…

Name: Misbah Rao

حواشی

موضوع :اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاء کی تیسری منزل کتاب کا نام :علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ کورس کوڈ :5613 صفحہ نمبر :12تا12 مرتب کردہ :کوثر بیگم فخر عالم مشائخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں