اقبال کا تصور عقل و عشق
عقل
یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں اچھے برے میں تمیز یعنی فرق کرنے کی صلاحیت اور اس میں سے اچھے کا انتخاب کرنا ادراک، فہم سمجھ بوجھ وغیرہ الفاظ بھی عقل کے لیے استعمال کیئے جاتے ہیں۔
دنیا میں رنگ رنگ کے کام اور راستے ہیں انسان اپنی عقل سے کام لے کر اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کرتا ہے اور عقل کی مدد سے ہی اس راستے کی اونچ نیچ کو سجھتا ہے اور اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ انسانوں کو حیوانوں سے جو چیزیں ممتاز کرتی ہیں انسانی عقل بھی ان میں سے ایک ہے حیوان بھی محدود سمجھ بوجھ رکھتے ہیں لیکن انہیں عقل کا وہ درجہ حاصل نہیں ہوتا جو حضرت انسان کے حصے میں آیا ہے۔
عشق
یہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے کسی شخص کام خیال یا مظہر سے انتہا درجے کی دوستی کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ آخری سلام یا اس سلام کو بھی عشق کہتے ہیں جو پہلوان اکھاڑے میں اتر کر کرتے ہیں اردو میں عشق بچہ ایک بیل کا نام بھی ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جس درخت سے چمٹ جائے اسے سکھا دیتی ہے۔
"عشق ہے” کے معنی آفرین اور شاباش کے ہیں عام طور سے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں حقیقی عشق سے مراد خالق کائنات سے غیر معمولی تعلق اور شیفتگی ہے جب کہ مجازی سے مراد انسانوں سے ایسا ہی تعلق لیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقبال کا تصور عقل و عشق pdf
کلام اقبال میں عقل کاتذکرہ
علامہ اقبال کے اردو کلام کا پہلا مجموعہ بانگ درا ہے اس اولین مجموعے میں ایک نظم "عقل و دل“ کے نام سے شامل ہے جس میں علامہ اقبال نے عقل اور دل کے موازنے میں دراصل عقل اور عشق ہی کا موازنہ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ بانگ درا کی متعدد دوسری نظموں فلسفہ غم جواب شکوہ وغیرہ میں بھی عقل سے متعلق علامہ کے خیالات کا اظہار ہوا۔
ع آہ یہ عقل زیاں اندیشہ کیا چالاک ہے
فلسفه غم
ع ۔ عقل انسانی ہے فانی ،زندہ جاوید عشق
فلسفه غم
ع عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر مری
جواب شکوه
دوسرے مجموعہ کلام بال جبریل میں بھی عقل اور دل کا موازنہ جاری رہا ان کے خیالات کا جھکاؤ اس مجموعے میں بھی عقل کے خلاف اور دل یا عشق کے حق میں رہا۔ مختلف غزلوں میں بہ کثرت ایسے خیالات ظاہر ہوئے۔
عقل گوآستاں سے دور
نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
تیسرے مجموعہ کلام ضرب کلیم میں بھی عقل کو راہ نما بنانے کے رویے کی مذمت اور دل یا عشق کی برتری ہی کا اظہار ہوا اور یہ بتایا گیا کہ عقل جمع تفریق کرتی رہتی ہے اور زندگی کا معرکہ جمع تفریق سے نہیں بلکہ جذبہ عشق سے جیتا جاتا ہے۔
یہ عقل جو مرد پر دیں کا کھیلتی ہے شکار
شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو تن تخمیں تو زبوں
کارحیات
عقل کی بے بسی اور نارسائی کا یہ احساس ارمغان حجاز میں بھی نظر آتا ہے۔
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو
عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بنده لات و منات
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
یہی صورت ان کے فارسی کلام کے مجموعوں میں بھی پائی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موضوع کلام اقبال میں اول تا آخر موجود رہا اور زندگی کے کسی بھی مرحلے میں علامہ اقبال نے اس موضوع کو ترک نہیں کیا۔
کلام اقبال میں عشق کا تذکرہ
کم و بیش وہ تمام مقامات جہاں علامہ اقبال نے عقل کی تردید یا تنقیص کی ہے وہاں اس پر دل یا عشق کی برتری بھی ثابت کی ہے ۔
مذکورہ بالا مثالوں میں اس تدریج کے ساتھ جس کے ساتھ آپ نے عقل سے متعلق علامہ کے خیالات ملاحظہ فرمائے ہیں عشق سے متعلق ان کے خیالات بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ مثلا جہاں انہوں نے عقل کو فانی قرار دیا ہے اس کے ساتھ ہی عشق کو زندہ جاوید کہا جہاں عقل کو سپر کہا وہاں عشق کو شمشیر قرار دیا ہے ۔
عقل کو حکیمانہ نظر پیدا کرنے والی اور عشق کو سرمستی و رندی سکھانے والا قرار دیا ہے جہاں عقل کو غیار کہا وہاں عشق کو صوفی ملا اور حکیم کے پیر ہنوں سے آزاد بتایا اور جہاں یہ کہا کہ عقل پرانے چاک سینے کی صلاحیت نہیں رکھتی وہیں عشق کے اس کمال کا تذکرہ کیا کہ عشق انہیں چاکوں کو کسی سوئی اور دھاگے کے بغیر ملا سکتا ہے
اس طرح گو یا کلام اقبال میں عشق کا تذکرہ عقل کی طرح شروع سے آخر تک موجود ہے اور عقل کے حریف اور مقابل کے طور پر لایا گیا ہے اور عقل پر اس کی برتری و فوقیت بتائی گئی ہے۔
تصور عقل و عشق کی کلام اقبال سے مزید تشریحات
علامہ اقبال کے تصور عقل و عشق کے سلسلے میں ضروری ہے کہ بانگ درا کی نظم عقل و دل پر ایک نظر ڈالی جائے جس میں ان کا نظریہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے اور یہ اس موضوع پر ملنے والی ان کی پہلی مکمل نظم ہے لیکن اس میں پیش کیے گئے خیالات ان کے آخری عمر کے خیالات سے بھی مختلف نہیں ہیں بلکہ خلیفہ عبد الحکیم نے تو اس نظم کے حوالے سے لکھا ہے کہ۔۔۔
حواشی
موضوع ۔اقبال کا تصور عقل و عشق
کتاب کا نام۔علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ
صفحہ : 54
کورس کوڈ. 5613
مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین