اقبال اور نظریہ پاکستان از سمیع اللہ خان فلکؔ
اقبال کا یہ کہنا کہ ”میں نظریہ پاکستان کا قائل نہیں ہوں“ حق بجانب ہے کیونکہ 4 مارچ 1934 کو مسٹر تھامپسن کے نام لکھے گئے خط میں انہوں نے یہ بات واضح طور پر بیان کی ہیں کہ 1930 میں خطبہ آلہ آباد کے موقع پر انہوں نے جس مملکت کا ذکر کیا تھا وہ مسلم اکثریت ریاست کا تصور تھا ۔
علامہ اقبال کی آخری خواہش | PDF
وہ اس ریاست کو ہندوستانی وفاق سے الگ تھلگ ریاست قائم کرنے کے حق میں بالکل نہ تھے ۔
فکر اقبال اور نو آبادیاتی نظام | PDF
البتہ جو بات علامہ اقبال کے تصور ریاست اور آزاد مملکت پاکستان جس کو ہم عرف عام میں ہم نظریہ پاکستان بھی کہہ سکتے ہیں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ برصغیر میں زمین کا ایسا ٹکڑا حاصل کرنا جہاں مسلمان اپنے مذہب کے رہنما اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکے اور اسلامی قدروں کو فروغ دے سکے؛ مگر 1932 کے تیسرے اور اخری گول میز کانفرنس کا جو خلاصہ سامنے آیا وہ کچھ یوں تھا کہ برصغیر کے شمال مغرب میں واقعہ پنجاب , سندھ, بلوچستان اور سرحد کو ملا کر ایک لگ ملک بنادیاجائے ۔
خطبات اقبال اور افکار عصر | PDF
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نظریہ پاکستان کے خلاف کیوں تھے ؟ اس سوال کا جواب اگر علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں ڈھونڈا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ کہ اقبال نظریہ پاکستان جس کو ہم عرف عام میں اسلامی تصور حیات سے تعبیر کرتے ہیں کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ دراصل وطن پرستی کے خلاف ۔ جس طرح انہوں نے ایک جگہ فرمایا ہے:
؎ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جھاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہیں ہماری
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدو میں وہ پہلاگھر خدا کا
ہم پاسباں ہیں اس کے وہ پاسباں ہمارا
اقبال مسلمان کو دنیا میں کسی مخصوص خطے کا وارث ماننے کے قائل ہرگز نہیں تھے وہ مسلمان کو خدا تعالی کا نائب اور خلیفہ بننے کی تلقین کرتا ہے اور مسلمان کو باعث تخلیق کائنات مانتا ہے ۔ایک جگہ وہ کہتےہیں:
؎عالم ہےفقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جوصاحب لولاک نہیں ہے
ایک جگہ اور کہتےہیں:
؎ جہاں میراث ہے تمام مرد مومن کی
میرے کلام پہ حجت ہے نکتہ ادراک
اقبال نے وطن پرستی کی جو محالفت کی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک ہی جگہ پر اقوام مختلفہ رہ رہے ہو تو بجائے ملی وحدت کے تعصب اور مادہ پرستی اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔
اقبال کا یہ تجربہ متحدہ ہندوستان میں بخوبی ہوا تھا اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے مگر باوجود ا س کہ اقبال نے جس وطن کا ذکر کیا ہے وہ درحقیقت اسلامی ریاست ہی ہے۔اقبال کے مطابق:
اقبال کے مثالی معاشرے کا تصور نفسیات | PDF
؎رولاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیرے بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوں گے تو مٹ جاٶگے ای ہندوستاںوالوں!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
Title: Iqbal and the Concept of Pakistan
Author: Samiullah Khan Falak
Abstract:
This article explores Allama Muhammad Iqbal’s stance on the concept of Pakistan, challenging the common perception that he was a proponent of the idea. Through an analysis of Iqbal’s letters and poetry, the author argues that Iqbal’s vision was not for a separate nation-state but rather for a Muslim-majority state within a united India. Iqbal’s concern was the preservation of Islamic values and the promotion of Muslim unity, rather than territorial nationalism.
The article highlights Iqbal’s opposition to territorial nationalism, citing his famous lines emphasizing the universalism of Islam and the Muslim’s inheritance of the world. Iqbal’s experience with the failures of united India led him to advocate for a separate Muslim entity, but his conception differed significantly from the eventual creation of Pakistan.
This nuanced study sheds light on Iqbal’s philosophical and ideological perspectives, clarifying his position on Pakistan and its implications for understanding the complex history of the region.
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں