علم بیان اور تشبیہ تعارف و تفہیم
موضوعات کی فہرست
علم البیان
تعریف نمبر ایک
علم البیان کے معانی ہے کہ ایک بات کو مختلف انداز سے بیان کرنا کہ اس کے معنی واضح ہو جائے اور یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی بات کو اس انداز اور طریقے سے ادا کریں کہ ایک دوسرے سے زیادہ دلکش ہو ۔
تعریف نمبر دو
قواعد و ضوابط کا ایسا مجموعہ جس سے کلام میں خوبصورتی ،شگفتگی پیدا کی جاتی ہیں۔
تعریف نمبر تین
علم بیان ایسے قاعدوں اور ضابطوں کا نام ہے جس کو جان لینے کے بعد ہم ایک بات یا مضمون کو مختلف طریقوں سے ادا کر سکتے ہیں اور ان میں ہر ایک طریقہ دوسرے طریقے سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہوتا ہے۔
تعریف نمبر چار
ایسا علم جس سے کلام میں خوبصورتی، برجستگی ، نزاکت و نفاست پیدا کی جاتی ہیں۔
تعریف نمبر پانچ
علم بیان ان قاعدوں اور ضابطوں کا نام ہے جن کے ذریعے سے ایک بات کو معنی کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے ادا کیا جا سکے اور اس سے بیان موثر اور دلکش ہو اور اسلوب میں ندرت پیدا ہو۔
علم بیان کی وضاحت
علم بیان ایک ادبی فن ہے جو الفاظ کے استعمال کے ذریعے خیالات اور جذبات کو بیان کرنے کا طریقہ کار سکھاتا ہے۔ یہ علم، زبان کی خوبصورتی اور اثر کو بڑھانے کے لیے مختلف بیانیہ تکنیکوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ علم بیان کے تحت مختلف اقسام کی تشبیہات، استعارے، کنایے، اور دیگر تشبیہاتی شکلیں شامل ہوتی ہیں، جو کسی خیال یا تصور کی وضاحت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اردو میں علم بیان و بدیع کے مباحث مقالہ pdf
تشبیہ، علم بیان کی ایک اہم قسم ہے، جس میں کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی خصوصیات کو واضح کیا جا سکے۔ یہ موازنہ عموماً "کی طرح* یا جیسے کے الفاظ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، وہ چاند کی طرح روشن ہے میں چہرے کی خوبصورتی کو چاند کی روشنی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، جو کہ ایک خوبصورت اور مؤثر طریقہ ہے۔ تشبیہ کا استعمال لکھنے میں جان دار تصویر کشی اور احساسات کو ابھارنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فصاحت و بلاغت
بقول مزمل حسین
یہ علم ایسے اصول و قواعد کا مجموعہ ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک معنی کو کئی طریقوں سے بیان کرنے کا انداز اور سلیقہ ہے۔یعنی شاعر یا نثر نگار اپنے مقصد کو بیان کرنے کے لیے مختلف راہوں کو اختیار کر سکتا ہے
بقول نجم الغنی رام پوری
علم البیان ایسے قاعدوں کا نام ہے کہ اگر کوئی ان کو جانے اور یاد رکھے تو ایک معنی کو کئی طریق سے عبارات مختلفہ میں ادا کر سکتا ہے جس میں بعض کی دلالت معنی پر بعض طریق سے زیادہ واضح ہوتی ہے
علمِ بیان کے ارکان
علمِ بیان کا دارومدار چار چیزوں پر ہے :
1) تشبیہ
2) استعارہ
3) کنایہ
4) مجاز مرسل
یہ بھی پڑھیں: اردو نسائی زبان و محاورہ تجزیاتی مطالعہ | pdf
علم بیان کا مقصد
علمِ بیان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو اور ساتھ ہی معنی میں خوبصورتی پیدا ہو۔
علم البیان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام کے سمجھنے میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو اور اس میں دلکشی ہو اور معانی میں خوبصورتی ہو ۔
یہ دراصل الفاظ کے چناؤ کا تعین کرتا ہے اس کا موضوع لفظ ہے جسے حقیقی اور مجازی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
حقیقی معنی
لفظ کو ان معنوں میں استعمال کرنا جس کے لئے وہ بنا ہو یعنی اگر لفظ کے معانی استعمال ہو تو کلام کا حسن ختم ہو جاتا ہے جیسے شیر کو اگر مراد کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب بھی وہی درندہ ہوتا ہے ۔
مجازی معنی
یعنی اگر لفظ ہو استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب حقیقی نہیں ہوتا مجازی ہوتا ہے جیسے اگر شیر جو مراد لیا جائے تو اس سے مراد اس کی بہادری ہوگی۔
مثال :
مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے بارے میں کہا جاۓ کہ ” وہ بڑا سخی ہے ” یا "وہ بڑا کریم ہے”.
ان جملوں میں مترادفات تو ہیں لیکن کلام کی رو سے کوئی خوبصورتی نہیں ۔ اس کے برعکس اگر یوں کہا جاۓ کہ” وہ اپنے دور کا حاتم ہے ” تو اس سے مطلب اور معنی زیادہ واضح اور مؤثر بن جاتا ہے ۔
علم بیان کی اقسام
علم البیان کی چار اقسام ہیں۔
تشبیہ ،استعارہ،کنایہ ،مجاز مرسل
تشبیہ(SIMILE)
بنیادی طور پر اس کے معانی ہے مثال دینا۔چنانچہ کسی چیز کو کسی خاکی یا خوبی کی بناء پر ایک دوسرے کے مماثل قرار دینا ۔تشبیہ کہلاتا ہے جیسے علی شیر کی طرح بہادر ہے ۔
تشبیہ عربی لفظ شبہ سے بنا ہے جس کے لغوی معانی ہیں مشابہت پیدا کرنا۔علم بیان کی رو سے جب ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاۓ جب کہ وہ خوبی دوسری چیز میں زیادہ پائی جاتی ہو تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ مثلا ’’ چشمے کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا ہے ۔
تشبیہ کے لیے انگلش میں سیمیلی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تشبیہ کے معنی ہیں ایک چیز کو کسی خوبی یا خامی کی وجہ سے کسی دوسری چیز کی مانند قرار دینا تشبیہ کہلاتا ہے تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں مشبہ، مشبہ بہ ،وجہ تشبیہ،حرف تشبیہ اور غرض تشبیہ۔
اس کے لغوی معنی مشابہت کے ہیں اصطلاح ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دینا تشبیہ کہتے ہیں۔
اس پیالے میں زہر تھا نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
تشبیہ کی شعری مثالیں
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا میر
پھول ہیں صحرا ہیں یا پریاں قطار اندر قطار
اورے اودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پیرہن۔۔۔اقبال
وہ ستاره تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں ۔۔۔۔۔ناصر کاظمی
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے۔۔۔اقبال
احمد ندیم قاسمی کے ان اشعار میں دیکھیے تشبیہ کے کیسے کیسے رنگ نمایاں ہیں۔
شام کو صبح چمن یاد آئی
کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
یاد آۓ تیرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی فن یاد آئی
جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا
تیرے گیسو کی شکن یاد آئی
چاند جب دور افق میں ڈوبا
تیرےلہجے کی تھکن یاد آئی
ارکان تشبیہ
مشبہ ،مشبہ بہ،وجہ شبہ ،غرض شبہ ،حرف شبہ
مشبہ
جس چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے مشبہ کہلاتا ہے جیسے علی شیر کی طرح بہادر ہے تو اس جملے میں علی مشبہ ہے۔
مشبہ بہ
مشبہ کو جس چیز سے تشبیہ دی جائے جیسے اوپر جملے میں شیر مشبہ بہ ہے۔
حرف شبہ
تشبیہ دینے کے لیے جو حروف استعمال کئے جائے
وجہ شبہ
جس وجہ سے تشبیہ دی جارہی ہو
غرض شبہ
جس مقصد کے لیے تشبیہ دی جارہی ہو۔
نوٹ: غرض تشبیہ کا ذکر تشبیہ میں موجود نہیں ہوتا البتہ قرینے سے معلوم کیا جاتا ہے۔
چند مشہور تشبیہات
اسمان کی طرح بلند
آئینے کی طرح صاف
بال کی طرح باریک
بجلی کی طرح تیز
بکری کی طرح شریف
بھیڑ کی طرح سادہ
چاندنی کی طرح سفید
چیتے کی طرح خونخوار اور تیز
اندھی کی طرح زور دار
انگارے کی طرح سرخ
بت کی طرح خاموش
برف کی طرح ٹھنڈا
بلور کی طرح شفاف
تلوار کی طرح تیز
چٹان کی طرح مضبوط
حاتم کی طرح سخی
مثال تشبیہ
ذیل کے شعر میں پانچ ارکان موجود ہیں۔
اتنے کم ظرف نہیں ہم کہ بہکتے جاویں
گل کی مانند جدھر جاویں مہکتے جاویں
اس میں’’ہم‘‘مشہ’گل‘‘مشبہ بہ مہکنا‘‘وجہ شبہ اور مانند حرف شبہ ہے اور خوشبو کا پھیلنا غرض تشبیہ ہے۔
طرفین تشبیہ
طرفین تشبیہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔
حسی اور عقلی
طرفین حسی
یہ وہ طرفین ہیں جو حواس خمسہ ظاہری سے دریافت ہو سکیں ۔ حواس خمسہ یہ ہیں۔ باصرہ ( دیکھنا) ، سامعہ ( سننا) ، شامہ ( سونگھنا) ، ذائقہ ( چکھنا) ، لامسہ ( چھونا)
مثالیں:
سرو سا قد تو گل سے رخسارے
شانے بازو بھرے بھرے سارے۔ (باصرہ)
اس شعر میں قد جو سرو سے اور رخسار کو گل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ دونوں چیزیں آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔
جس نے سونگھی ہو تیری زلف سیہ کار کی بو
کیا پسند آئے اسے نافعہ تاتار کی بو۔ ( شامہ)
خوشبو کا تعلق سونگھنے سے ہے۔
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہے
(سامعہ)
چشمے کی آواز کو باجے سے تشبیہ دی گئی ہے اس کا تعلق سننے سے ہے۔
جھوٹی شراب اپنی مجھے مرتے دم تو دے
یہ آب تلخ شربت قند و نبات ہے
(ذائقہ)
شراب کو شربت قند و نبات کہا گیا ہے اس کا تعلق قوت ذائقہ سے ہے۔
پیٹ نرمی میں صورت مخمل
صاف مانند تختہ صندل
(لامسہ)
پیٹ کی نرمی چھونے سے معلوم ہو سکتی ہے۔
طرفین عقلی
طرفین تشبیہ عقلی وہ ہیں جو حواس خمسہ سے دریافت نہ ہوں بلکہ عقل سے معلوم ہوں ۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔
1۔ مشبہ اور مشبہ بہ دونوں عقلی ہوں جیسے علم کو زندگی سے اور جہل کو موت سے تشبیہ دینا۔
2۔ مشبہ عقلی اور مشبہ بہ حسی ہو۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
یہاں مشبہ زندگی عقلی ہے اور مشبہ بہ طوفان حسی ہے۔
3۔ مشبہ حسی اور مشبہ بہ عقلی ہو
نگہ آفت چشم عین بلا
یہاں مشبہ چشم حسی ہے اور مشبہ بہ بلا عقلی ہے۔
تشبیہ کی اقسام
تشبیہ مفصل
جس میں تمام ارکان تشبیہ موجود ہوں ۔ مثلا ’’ اس کی زلف موج دریا کی طرح ہے
یا پھر احسن کا شعر ہے۔ ۔
جو بھی سنتا ہے وہ دل تھام کے رہ جاتا ہے
شعر غمناک بھی اک نالہ دل گیر تو ہے
اس شعر میں شعر غمناک کو نالہ دل گیر سے تشبیہ دی گئی ہے
تشبیه مجمل
جس تشبیہ میں وجہ شبہ مذکورہ نہ ہو۔ ۔
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
شاعر نے محبوب کی چال کو کڑی کمان کے تیر سے تشبیہ دی لیکن وجہ۔ کا ذکر نہیں۔
تشبیہ قریب
جس تشبیہ میں وجہ شبہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہو اسے تشبیہ قریب کہتے ہیں۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
اس شعر میں جگنوکوشمع سے تشبیہ دی گئی اور وجہ شبہ روشنی پھیلانا ہے۔
تشبیه بعید
وہ تشبیہ جس کی وجہ شبہ کافی غور وخوض کے بعد سمجھ میں آۓ ۔ ۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
(میر درد )
تشبیه جمع
جس تشبیہ میں مشبہ ایک اور مشبہ بہ ایک سے زیادہ ہوں اسے تشبیہ جمع کہتے ہیں۔
میں نے پوچھا زندگی کیا ہے
ہنس دیے پھول، رو پڑی شبنم
تشبیه مفروق
جس تشبیہ میں ہر مشبہ کے ساتھ مشبہ بہ کا ذکر آۓ تشبیہ مفروق کہلاتی ہے۔ مثلا۔
اچھا ہے نہیں آئے وہ دھوپ کی گرمی
میں قامت تو قیامت تھا سایہ بھی بلا ہوتا
اس شعر میں قامت مشبہ اور قیامت مشبہ بہ اور سایہ مشبہ اور بلامشبہ بہ ہیں۔
تشبیه ملفوف
اس تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں متعدد ہوتے ہیں ۔ترتیب میں مشبہ ایک ساتھ آئے اور مشبہ بہ ایک ساتھ ۔ مثلا۔
ایک سب آگ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
آنکھ کو پانی اور دل کو آگ سے تشبیہ دی گئی ہے لیکن دونوں مشبہ اور مشبہ بہ ساتھ ساتھ ہیں۔
تشبیہ مرسل
جس تشبیہ میں حرف تشبیہ مذکور ہووہ تشبیہ مرسل کہلاتی ہے۔ مثلا۔
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
میر
اس شعر میں حرف تشبیہ’’سی‘‘مذکور ہے اس کے علاوہ ذیل کے حرف بھی اس تشبیہ میں آتے ہیں۔ مثلا سا، سے، طرح، جیسا ،جیسی، گویا، مانند، مثل، صورت، شکل، جوں ، جیسے وغیرہ ۔
تشبیه موکد
وہ تشبیہ ہے جس میں حرف تشبیہ مذکور نہ ہومثلا۔
دل کی ویرانی کا کیا ذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
اس میں شاعر نے دل کو نگر یعنی بستی سے تشبیہ دی ہے لیکن حرف تشبیہ موجود نہیں ہے ۔
تشبیه تسوید
مشبہ ایک سے زیادہ ہوں اور مشبہ بہ ایک ہومثلا۔
بدن کو، جان کو، دل کو، جگر کو آگ لگی
غم فراق، میرے گھر کے گھر کو، آگ لگی
(حسرت)
اس میں شاعر نے اپنے بدن ، جان ، دل اور جگر کو آگ سے تشبیہ دی ہے ۔
تشبیہ مضمر
یہ تشبیہ پوشیدہ ہوتی ہے اور بظاہر معلوم نہیں ہوتی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والے نے پوشیدہ تشبیہ دی ہے۔ مثلاً ۔
اپنی تصویر پر نازاں ہو؟ تمہارا کیا ہے!
آنکھ نرگس کی، دہن غنچے کا، حیرت میری
اس شعر میں شاعر نے نہایت لطیف پیرائے میں محبوب کی آنکھ کونرگس سے اور دہن کو غنچے سے تشبیہ دے دی مگر یہ بالکل پوشیدہ ہے اور بظاہر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شاعر تشبیہ دے رہا ہے۔
تشبیہ اور تشابہ میں فرق
اگر دونوں چیزوں میں یکساں نوعیت کی خوبی پائی جائے تو اسے تشبیہ نہیں بلکہ تشابہ کہیں گے۔
مثلاً۔ شازیہ پھول کی مانند ہے۔۔ تشبیہ
شازیہ،ناہید کی مانند ہے۔۔۔۔ تشابہ
convert the titte of this post into English, then write abstract for this post in english and then give a topic acknowledgement and say this yo memebs who contributed in it because this oost is based on the text msgs in iur wahtsapp community (پروفیسر آف اردو
مرضی کے مطابق بنائیں
نیا
پوسٹ میں ترمیم کریں
professorofurdu.com، کیسے ہیں
Skip to content
Main Menu
Search
پروفیسر آف اردو
اہم ٹیگز
Pdf Professor Of Urdu آپ بیتی احمد ندیم قاسمی اردو ادب اسلوب افسانہ اقبال انتظار حسین انشائیہ تاریخ تاریخی ناول تحقیق ترجمہ تنقید جمیلہ ہاشمی خاکہ داستان سعادت حسن منٹو سفر نامہ شاعری صحافت غالب غزل فیض احمد فیض قرۃ العین حیدر لسانیات مثنوی محمد حسین آزاد مرثیہ مقالہ منٹو میر تقی میر ناصر کاظمی ناول نثر نذیر احمد نسیم حجازی نظم نعت نفسیات وزیر آغا ولی دکنی پریم چند ڈرامہ
علم بیان اور تشبیہ تعارف و تفہیم
By professorofurdu.com | 28/10/2024
علم بیان اور تشبیہ تعارف و تفہیم
موضوعات کی فہرست
علم بیان اور تشبیہ تعارف و تفہیم
علم البیان
تعریف نمبر ایک
تعریف نمبر دو
تعریف نمبر تین
تعریف نمبر چار
تعریف نمبر پانچ
علم بیان کی وضاحت
علمِ بیان کے ارکان
علم بیان کا مقصد
حقیقی معنی
مجازی معنی
علم بیان کی اقسام
تشبیہ(SIMILE)
ارکان تشبیہ
مشبہ
مشبہ بہ
حرف شبہ
وجہ شبہ
غرض شبہ
چند مشہور تشبیہات
طرفین تشبیہ
طرفین حسی
طرفین عقلی
تشبیہ کی اقسام
تشبیہ مفصل
تشبیه مجمل
تشبیہ قریب
تشبیه بعید
تشبیه جمع
تشبیه مفروق
تشبیه ملفوف
تشبیہ مرسل
تشبیه موکد
تشبیه تسوید
تشبیہ مضمر
تشبیہ اور تشابہ میں فرق
علم البیان
تعریف نمبر ایک
علم البیان کے معانی ہے کہ ایک بات کو مختلف انداز سے بیان کرنا کہ اس کے معنی واضح ہو جائے اور یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی بات کو اس انداز اور طریقے سے ادا کریں کہ ایک دوسرے سے زیادہ دلکش ہو ۔
تعریف نمبر دو
قواعد و ضوابط کا ایسا مجموعہ جس سے کلام میں خوبصورتی ،شگفتگی پیدا کی جاتی ہیں۔
تعریف نمبر تین
علم بیان ایسے قاعدوں اور ضابطوں کا نام ہے جس کو جان لینے کے بعد ہم ایک بات یا مضمون کو مختلف طریقوں سے ادا کر سکتے ہیں اور ان میں ہر ایک طریقہ دوسرے طریقے سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہوتا ہے۔
تعریف نمبر چار
ایسا علم جس سے کلام میں خوبصورتی، برجستگی ، نزاکت و نفاست پیدا کی جاتی ہیں۔
تعریف نمبر پانچ
علم بیان ان قاعدوں اور ضابطوں کا نام ہے جن کے ذریعے سے ایک بات کو معنی کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے ادا کیا جا سکے اور اس سے بیان موثر اور دلکش ہو اور اسلوب میں ندرت پیدا ہو۔
علم بیان کی وضاحت
علم بیان ایک ادبی فن ہے جو الفاظ کے استعمال کے ذریعے خیالات اور جذبات کو بیان کرنے کا طریقہ کار سکھاتا ہے۔ یہ علم، زبان کی خوبصورتی اور اثر کو بڑھانے کے لیے مختلف بیانیہ تکنیکوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ علم بیان کے تحت مختلف اقسام کی تشبیہات، استعارے، کنایے، اور دیگر تشبیہاتی شکلیں شامل ہوتی ہیں، جو کسی خیال یا تصور کی وضاحت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اردو میں علم بیان و بدیع کے مباحث مقالہ pdf
تشبیہ، علم بیان کی ایک اہم قسم ہے، جس میں کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی خصوصیات کو واضح کیا جا سکے۔ یہ موازنہ عموماً "کی طرح* یا جیسے کے الفاظ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، وہ چاند کی طرح روشن ہے میں چہرے کی خوبصورتی کو چاند کی روشنی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، جو کہ ایک خوبصورت اور مؤثر طریقہ ہے۔ تشبیہ کا استعمال لکھنے میں جان دار تصویر کشی اور احساسات کو ابھارنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فصاحت و بلاغت
بقول مزمل حسین
یہ علم ایسے اصول و قواعد کا مجموعہ ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک معنی کو کئی طریقوں سے بیان کرنے کا انداز اور سلیقہ ہے۔یعنی شاعر یا نثر نگار اپنے مقصد کو بیان کرنے کے لیے مختلف راہوں کو اختیار کر سکتا ہے
بقول نجم الغنی رام پوری
علم البیان ایسے قاعدوں کا نام ہے کہ اگر کوئی ان کو جانے اور یاد رکھے تو ایک معنی کو کئی طریق سے عبارات مختلفہ میں ادا کر سکتا ہے جس میں بعض کی دلالت معنی پر بعض طریق سے زیادہ واضح ہوتی ہے
علمِ بیان کے ارکان
علمِ بیان کا دارومدار چار چیزوں پر ہے :
1) تشبیہ
2) استعارہ
3) کنایہ
4) مجاز مرسل
یہ بھی پڑھیں: اردو نسائی زبان و محاورہ تجزیاتی مطالعہ | pdf
علم بیان کا مقصد
علمِ بیان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو اور ساتھ ہی معنی میں خوبصورتی پیدا ہو۔
علم البیان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کلام کے سمجھنے میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو اور اس میں دلکشی ہو اور معانی میں خوبصورتی ہو ۔
یہ دراصل الفاظ کے چناؤ کا تعین کرتا ہے اس کا موضوع لفظ ہے جسے حقیقی اور مجازی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
حقیقی معنی
لفظ کو ان معنوں میں استعمال کرنا جس کے لئے وہ بنا ہو یعنی اگر لفظ کے معانی استعمال ہو تو کلام کا حسن ختم ہو جاتا ہے جیسے شیر کو اگر مراد کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب بھی وہی درندہ ہوتا ہے ۔
مجازی معنی
یعنی اگر لفظ ہو استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب حقیقی نہیں ہوتا مجازی ہوتا ہے جیسے اگر شیر جو مراد لیا جائے تو اس سے مراد اس کی بہادری ہوگی۔
مثال :
مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے بارے میں کہا جاۓ کہ ” وہ بڑا سخی ہے ” یا "وہ بڑا کریم ہے”.
ان جملوں میں مترادفات تو ہیں لیکن کلام کی رو سے کوئی خوبصورتی نہیں ۔ اس کے برعکس اگر یوں کہا جاۓ کہ” وہ اپنے دور کا حاتم ہے ” تو اس سے مطلب اور معنی زیادہ واضح اور مؤثر بن جاتا ہے ۔
علم بیان کی اقسام
علم البیان کی چار اقسام ہیں۔
تشبیہ ،استعارہ،کنایہ ،مجاز مرسل
تشبیہ(SIMILE)
بنیادی طور پر اس کے معانی ہے مثال دینا۔چنانچہ کسی چیز کو کسی خاکی یا خوبی کی بناء پر ایک دوسرے کے مماثل قرار دینا ۔تشبیہ کہلاتا ہے جیسے علی شیر کی طرح بہادر ہے ۔
تشبیہ عربی لفظ شبہ سے بنا ہے جس کے لغوی معانی ہیں مشابہت پیدا کرنا۔علم بیان کی رو سے جب ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاۓ جب کہ وہ خوبی دوسری چیز میں زیادہ پائی جاتی ہو تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ مثلا ’’ چشمے کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا ہے ۔
تشبیہ کے لیے انگلش میں سیمیلی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تشبیہ کے معنی ہیں ایک چیز کو کسی خوبی یا خامی کی وجہ سے کسی دوسری چیز کی مانند قرار دینا تشبیہ کہلاتا ہے تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں مشبہ، مشبہ بہ ،وجہ تشبیہ،حرف تشبیہ اور غرض تشبیہ۔
اس کے لغوی معنی مشابہت کے ہیں اصطلاح ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دینا تشبیہ کہتے ہیں۔
اس پیالے میں زہر تھا نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
تشبیہ کی شعری مثالیں
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا میر
پھول ہیں صحرا ہیں یا پریاں قطار اندر قطار
اورے اودے ، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پیرہن۔۔۔اقبال
وہ ستاره تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں ۔۔۔۔۔ناصر کاظمی
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے۔۔۔اقبال
احمد ندیم قاسمی کے ان اشعار میں دیکھیے تشبیہ کے کیسے کیسے رنگ نمایاں ہیں۔
شام کو صبح چمن یاد آئی
کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
یاد آۓ تیرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی فن یاد آئی
جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا
تیرے گیسو کی شکن یاد آئی
چاند جب دور افق میں ڈوبا
تیرےلہجے کی تھکن یاد آئی
ارکان تشبیہ
مشبہ ،مشبہ بہ،وجہ شبہ ،غرض شبہ ،حرف شبہ
مشبہ
جس چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے مشبہ کہلاتا ہے جیسے علی شیر کی طرح بہادر ہے تو اس جملے میں علی مشبہ ہے۔
مشبہ بہ
مشبہ کو جس چیز سے تشبیہ دی جائے جیسے اوپر جملے میں شیر مشبہ بہ ہے۔
حرف شبہ
تشبیہ دینے کے لیے جو حروف استعمال کئے جائے
وجہ شبہ
جس وجہ سے تشبیہ دی جارہی ہو
غرض شبہ
جس مقصد کے لیے تشبیہ دی جارہی ہو۔
نوٹ: غرض تشبیہ کا ذکر تشبیہ میں موجود نہیں ہوتا البتہ قرینے سے معلوم کیا جاتا ہے۔
چند مشہور تشبیہات
اسمان کی طرح بلند
آئینے کی طرح صاف
بال کی طرح باریک
بجلی کی طرح تیز
بکری کی طرح شریف
بھیڑ کی طرح سادہ
چاندنی کی طرح سفید
چیتے کی طرح خونخوار اور تیز
اندھی کی طرح زور دار
انگارے کی طرح سرخ
بت کی طرح خاموش
برف کی طرح ٹھنڈا
بلور کی طرح شفاف
تلوار کی طرح تیز
چٹان کی طرح مضبوط
حاتم کی طرح سخی
مثال تشبیہ
ذیل کے شعر میں پانچ ارکان موجود ہیں۔
اتنے کم ظرف نہیں ہم کہ بہکتے جاویں
گل کی مانند جدھر جاویں مہکتے جاویں
اس میں’’ہم‘‘مشہ’گل‘‘مشبہ بہ مہکنا‘‘وجہ شبہ اور مانند حرف شبہ ہے اور خوشبو کا پھیلنا غرض تشبیہ ہے۔
طرفین تشبیہ
طرفین تشبیہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔
حسی اور عقلی
طرفین حسی
یہ وہ طرفین ہیں جو حواس خمسہ ظاہری سے دریافت ہو سکیں ۔ حواس خمسہ یہ ہیں۔ باصرہ ( دیکھنا) ، سامعہ ( سننا) ، شامہ ( سونگھنا) ، ذائقہ ( چکھنا) ، لامسہ ( چھونا)
مثالیں:
سرو سا قد تو گل سے رخسارے
شانے بازو بھرے بھرے سارے۔ (باصرہ)
اس شعر میں قد جو سرو سے اور رخسار کو گل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ دونوں چیزیں آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔
جس نے سونگھی ہو تیری زلف سیہ کار کی بو
کیا پسند آئے اسے نافعہ تاتار کی بو۔ ( شامہ)
خوشبو کا تعلق سونگھنے سے ہے۔
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہے
(سامعہ)
چشمے کی آواز کو باجے سے تشبیہ دی گئی ہے اس کا تعلق سننے سے ہے۔
جھوٹی شراب اپنی مجھے مرتے دم تو دے
یہ آب تلخ شربت قند و نبات ہے
(ذائقہ)
شراب کو شربت قند و نبات کہا گیا ہے اس کا تعلق قوت ذائقہ سے ہے۔
پیٹ نرمی میں صورت مخمل
صاف مانند تختہ صندل
(لامسہ)
پیٹ کی نرمی چھونے سے معلوم ہو سکتی ہے۔
طرفین عقلی
طرفین تشبیہ عقلی وہ ہیں جو حواس خمسہ سے دریافت نہ ہوں بلکہ عقل سے معلوم ہوں ۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔
1۔ مشبہ اور مشبہ بہ دونوں عقلی ہوں جیسے علم کو زندگی سے اور جہل کو موت سے تشبیہ دینا۔
2۔ مشبہ عقلی اور مشبہ بہ حسی ہو۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
یہاں مشبہ زندگی عقلی ہے اور مشبہ بہ طوفان حسی ہے۔
3۔ مشبہ حسی اور مشبہ بہ عقلی ہو
نگہ آفت چشم عین بلا
یہاں مشبہ چشم حسی ہے اور مشبہ بہ بلا عقلی ہے۔
تشبیہ کی اقسام
تشبیہ مفصل
جس میں تمام ارکان تشبیہ موجود ہوں ۔ مثلا ’’ اس کی زلف موج دریا کی طرح ہے
یا پھر احسن کا شعر ہے۔ ۔
جو بھی سنتا ہے وہ دل تھام کے رہ جاتا ہے
شعر غمناک بھی اک نالہ دل گیر تو ہے
اس شعر میں شعر غمناک کو نالہ دل گیر سے تشبیہ دی گئی ہے
تشبیه مجمل
جس تشبیہ میں وجہ شبہ مذکورہ نہ ہو۔ ۔
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
شاعر نے محبوب کی چال کو کڑی کمان کے تیر سے تشبیہ دی لیکن وجہ۔ کا ذکر نہیں۔
تشبیہ قریب
جس تشبیہ میں وجہ شبہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہو اسے تشبیہ قریب کہتے ہیں۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
اس شعر میں جگنوکوشمع سے تشبیہ دی گئی اور وجہ شبہ روشنی پھیلانا ہے۔
تشبیه بعید
وہ تشبیہ جس کی وجہ شبہ کافی غور وخوض کے بعد سمجھ میں آۓ ۔ ۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
(میر درد )
تشبیه جمع
جس تشبیہ میں مشبہ ایک اور مشبہ بہ ایک سے زیادہ ہوں اسے تشبیہ جمع کہتے ہیں۔
میں نے پوچھا زندگی کیا ہے
ہنس دیے پھول، رو پڑی شبنم
تشبیه مفروق
جس تشبیہ میں ہر مشبہ کے ساتھ مشبہ بہ کا ذکر آۓ تشبیہ مفروق کہلاتی ہے۔ مثلا۔
اچھا ہے نہیں آئے وہ دھوپ کی گرمی
میں قامت تو قیامت تھا سایہ بھی بلا ہوتا
اس شعر میں قامت مشبہ اور قیامت مشبہ بہ اور سایہ مشبہ اور بلامشبہ بہ ہیں۔
تشبیه ملفوف
اس تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں متعدد ہوتے ہیں ۔ترتیب میں مشبہ ایک ساتھ آئے اور مشبہ بہ ایک ساتھ ۔ مثلا۔
ایک سب آگ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
آنکھ کو پانی اور دل کو آگ سے تشبیہ دی گئی ہے لیکن دونوں مشبہ اور مشبہ بہ ساتھ ساتھ ہیں۔
تشبیہ مرسل
جس تشبیہ میں حرف تشبیہ مذکور ہووہ تشبیہ مرسل کہلاتی ہے۔ مثلا۔
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
میر
اس شعر میں حرف تشبیہ’’سی‘‘مذکور ہے اس کے علاوہ ذیل کے حرف بھی اس تشبیہ میں آتے ہیں۔ مثلا سا، سے، طرح، جیسا ،جیسی، گویا، مانند، مثل، صورت، شکل، جوں ، جیسے وغیرہ ۔
تشبیه موکد
وہ تشبیہ ہے جس میں حرف تشبیہ مذکور نہ ہومثلا۔
دل کی ویرانی کا کیا ذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
اس میں شاعر نے دل کو نگر یعنی بستی سے تشبیہ دی ہے لیکن حرف تشبیہ موجود نہیں ہے ۔
تشبیه تسوید
مشبہ ایک سے زیادہ ہوں اور مشبہ بہ ایک ہومثلا۔
بدن کو، جان کو، دل کو، جگر کو آگ لگی
غم فراق، میرے گھر کے گھر کو، آگ لگی
(حسرت)
اس میں شاعر نے اپنے بدن ، جان ، دل اور جگر کو آگ سے تشبیہ دی ہے ۔
تشبیہ مضمر
یہ تشبیہ پوشیدہ ہوتی ہے اور بظاہر معلوم نہیں ہوتی غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والے نے پوشیدہ تشبیہ دی ہے۔ مثلاً ۔
اپنی تصویر پر نازاں ہو؟ تمہارا کیا ہے!
آنکھ نرگس کی، دہن غنچے کا، حیرت میری
اس شعر میں شاعر نے نہایت لطیف پیرائے میں محبوب کی آنکھ کونرگس سے اور دہن کو غنچے سے تشبیہ دے دی مگر یہ بالکل پوشیدہ ہے اور بظاہر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شاعر تشبیہ دے رہا ہے۔
تشبیہ اور تشابہ میں فرق
اگر دونوں چیزوں میں یکساں نوعیت کی خوبی پائی جائے تو اسے تشبیہ نہیں بلکہ تشابہ کہیں گے۔
مثلاً۔ شازیہ پھول کی مانند ہے۔۔ تشبیہ
شازیہ،ناہید کی مانند ہے۔
Title"Introduction and Understanding of Rhetoric and Simile.”
Abstract: This post explores the concept of rhetoric and simile in Urdu literature. It defines rhetoric, its components, and its purpose in enhancing the beauty and clarity of expression. The post elaborates on various types of similes, their structure, and their significance in literary works, providing examples from renowned Urdu poets.
Acknowledgment: Special thanks to the members(سائرہ ارشد،میمونہ تحسین بنت محمد اسمٰعیل ناندیڑ،ثنا زمان،عنصر اقبال،انیثہ کلثوم ،غلام حسین،حرا،فرح ناز،طیبہ نواز) of our WhatsApp community whose insightful text messages contributed to the development of this post.
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں