انتظار حسین بحیثیت آپ بیتی نگار
کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے اس زبان کا ادب ایک اہم وسیلہ ہوتا ہے۔ ایک زندہ زبان کے لیے اس زبان کے ادب کا ہمہ گیر اور ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
اردو زبان کو دنیا بھر کی زبانوں میں مشہور و معروف بنانے اور ہمیشہ زندہ رکھنے میں اس زبان کے ادب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس حوالے سے اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے ایک طرف اگر اس میں داستان سے لے کر افسانچے تک کی اصناف موجود ہیں۔ تو دوسری طرف اردو ادب کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان اصناف کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہترین شعرا اور ادبا سے نوازا۔
ہر دور میں اس زبان سے محبت کرنے والے اور اس کو آگے بڑھانے والے کثیر تعداد میں لوگ موجود رہے اور اردو ادب کے بہت سے تخلیق کاروں نے خاموشی سے اپنا تخلیقی سفرجاری رکھا۔
جب بھی ان کی تخلیقات منظر عام پر آئیں تو کامیابی کی منازل سے ہمکنار ہوئے تو قاری نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس طرح کے تخلیق کاروں کی فہرست میں ایک اہم نام انتظار حسین کا بھی ہے۔
اردوکے اکثر ادیبوں نے ایک سے زیادہ اصناف ادب پر طبع آزمائی کی ہے لیکن انھیں زیادہ شہرت اور کامیابی کسی ایک مخصوص صنف کے حوالے سے ملی اور لوگ آج اس مخصوص صنف کے حوالے سے انھیں پہچانتے ہیں۔
جیسے اقبال نے نظم اور غزل،غالب نے غزل ،مرثیہ اور قصیدہ جیسی اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن وہ غزل کے حوالے سے ممتاز مقام پر فائز ہو گئے حالاں کہ ان کی دوسری تخلیقات بھی اعلیٰ پائے کی ہیں۔ اسی طرح انتظار حسین اردو فکشن کی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔
اپنی افسانوی تخلیقات ، منفرد لہجے کے بنا پر انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ شخصیت انتظار حسین نے افسانوی ادب کے علاوہ ابتدا میں شاعری اور بعد میں کالم نگاری کے ساتھ ساتھ خودنوشت کی ادبی دنیا میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی دو خود نوشت ہیں ، ایک "چراغوں کا دھواں "اور دوسری خودنوشت” جستجو کیا ہے؟”ہے۔
زیر نظر تحقیقی مقالے میں انتظار حسین کی دوسری خودنوشت "جستجو کیا ہے؟” کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے گا۔ اس مقالے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے انتظار حسین کی خود نوشت "جستجو کیا ہے؟” کی کتابی صورت جو نیاز احمد نے ۲۰۱۱ ءمیں سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور سے شائع کی ہے کو بروئے کار لایا گیا ہے۔
انتظار حسین کی آپ بیتیوں پر ایک مختصر نظر:
انتظار حسین کی پہلی خودنوشت چراغوں کا دھواں ۱۹۹۹ ء میں شائع ہوئی تھی۔
اس خود نوشت پر انتساب کے طور پر مولانا الظاف حسین حالی کا یہ شعر درج ہے:
؎بزم کو برہم ہوئے مدت نہیں گذری بہت
اٹھ رہا ہے شمع سے اس بزم کی اب تک دھواں(۱)
یہ خود نوشت۲۳ عنوانات پر مشتمل ہے جس میں پہلا عنوان” تاریخ کا جہاز” اور آخری عنوان”اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے ” کے نام سے ہے.اس خود نوشت میں انتظار حسین نے ہجرت کے بعد کے ۵۰ سال کے حالات و واقعات پیش کیے ہیں۔ اس میں لاہور کی ادبی محفلوں اور اس کے اجڑنے پر انتظار حسین کا رنج اور غم اہم فکری موضوعات ہیں۔
انتظار حسین کی دوسری آب بیتی "جستجو کیا ہے؟ "ہے۔ انتظار حسین کی یہ خودنوشت ۳۱ عنوانات کے تحت تکمیل تک پہنچتی ہے جو ۲۹۴ صفحات پر مشتمل ہیں۔ انتظار حسین کی اس خودنوشت کا نام غالب کی غزل کے پانچویں شعر کے مصرعہ ثانی سے ماخوذ ہے۔ انتساب کے طور پر اس کے پہلے صفحے پر اس شعر کا پورا مصرعہ ثانی درج ہے۔
”ع کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے”(۲)
اس خودنوشت کے نام پر اگر غور کیا جائے تو ‘جستجو کیا ہے "نام اور اس آپ بیتی میں موجود مواد میں ایک گہرے تعلق کا اندازہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔
اس نام میں بنیادی اہمیت ‘جستجو ‘کو حاصل ہے اس جستجو کی مختلف کیفیات ہو سکتی ہیں جیسی خوب سے خوب تر کی جستجو، عشق کی جستجو،معشوق کی جستجو،خدا کی جستو،خود اپنی ذات کی جستجو اور کسی کھوئی ہوئی چیز کو پانے کی جستجو وغیرہ۔
لیکن یہاں پر انتظار حسین نے سوالیہ انداز میں یہ جملہ بطور اس کا نام درج کیا ہے اس خودنوشت کے نام پر بحث کرنے سے پہلے اس پر ارشد خاتم کی نقل کردہ کشورناہید کی رائے کچھ یوں ہے۔
”کشور ناہید نے اپنے کالم میں” جستجو کیا ہے "پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت زیادہ ملفوف انداز میں انھیں بھیجا تھا اور ایک طرح سے کہنے کی کوشش کی تھی کہ تنہائی کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ سوال جستجو کیا ہے؟ کو اب ختم ہونا چاہیے تھا یعنی آپ کی تنہائی کو اور شاید خوب تر کی جستجو کو بھی۔ “(۳)
انتظار حسین نے اس خودنوشت میں اپنی عمر کی یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ انتظار حسین کو ۲۵یا۲۴ سال کی عین جوانی اور جذباتی عمر میں اپنے رشتہ داروں ،دوستوں، ہمسایوں ،اپنے محلے ،شہر ،ملک اور تہذیب سے بچھڑ نا پڑا۔ تہذیب کے بچھڑنے کا دکھ ان پر اس قدر اثر انداز ہوا کہ وہ عمر بھر کھوئی ہوئی یادوں اور تہذیبی جستجو میں سرگرداں رہے۔
ان کی یہ خودنوشت زندگی کے آخری حصے تقریباً ۸۸ سال کی عمر لکھی میں گئی ہے۔ اس میں ابتدا سے آخر تک ماضی پرستی اور کھوئی ہوئی یادوں کی جستجو جذباتی اتار چڑھاؤ کے ساتھ نظر آتی ہے اس لیے اس کا نام جستجو کیا ہے؟ رکھا گیا ہے۔
یہ خود نوشت ۳۱ عنوانات پر مشتمل ہیں۔ جن کو دی گئی ترتیب کے لحاظ سے مندرجہ ذیل فکری حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ابتدائی سات عنوانات خود نوشت کے ۷۱ صفحات پر مشتمل ہیں اس میں تقسیم سے پہلے انتظار حسین کی زندگی کے حالات و واقعات کا ذکر کیا گیا ہے خاص کر بچپن ،ان کی بستی اور محلے سے لے کر ان کی تعلیم،ابتدائی ملازمت اور خاندانی حالات۔ وہ عنوانات کچھ اس طرح ہیں:
۱۔ کتنے خوابوں کے بعد ۲۔ جڑوں کے سراغ
۳۔ جس محلہ میں تھا ہمارا گھر ۴۔ شام پڑے رات گئے
۵۔ اکہ گم،ٹم ٹم حاضر ۶۔ شہر میں پہلا قدم
۷۔ میرٹھ اور پھر میرٹھ
اگلا حصہ تقسیم ہند کے حالات اور انتظار حسین کی پاکستان ہجرت پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں اس وقت کے ابتر حالات کی جھلک بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے پاکستاں میں ابتدائی زندگی کے مشکلات اور مختلف اخبارات سے منسلک ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اس حصے میں شامل عنوانات یہ ہیں :
۱۔ زمین بٹ گئی زمانہ بدل گیا ۲۔ ساتھ اس کارواں کے ہم بھی تھے
۳۔ تو شب آفریدی،رتجگا آفریدم ۴:برے بھلے مرے دن گزر رہے ہیں
آگے کی خود نوشت پاکستان کے عمومی حالات،سیاسی،معاشی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ لاہور اور کراچی کی ادبی محفلوں اور ادیبوں کا ذکر موجود ہے۔
ان کے علاوہ اس حصے میں انتظار حسین کی ازدواجی زندگی،مختلف اندرونی اور بیرونی ملک سفر،مختلف ادبی سیمینارز اور کانفر نسز،ان کی زندگی مشاغل اور ان کی پیشہ وارانہ زندگی کا ذکر خوبصورت انداز میں ملتا ہے۔ جو عنوانات اس حصے کے ذیل میں آتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ جرنیلی بندوبست کے سائے میں
۲۔ جوں غنچہ میر اتنے نہ بیٹھے رہا کرو
۳۔ بندر ابن کی کنج گلی میں
۴۔ حسینی برہمن زادی کیا کہتی ہے۔
۵۔ پریم چند فیلوشف کا سندیسہ
۶۔ پریم یاترا
۷۔ علی گڑھ سے ڈبائی تک
۸۔ آہ لکھنؤ واہ پٹنہ
۹۔ بنارس،برہمن اور حسینی برہمن
۱۰۔ دلی میں اور دلی سے آگے
۱۱۔ صنم کدے یا حیرت کدے
۱۲۔ دکھن سا نہیں ٹھارسنسا رمیں
۱۳۔ پھر سلطان ٹیپو کے حضور ۱۴۔ کلکتہ میں لکھنؤ کی تلاش
۱۵۔ سنہری نگر،گلابی نگر،جھیل نگر
۱۶۔ ذاکر حسین کالج
آخری چار عنوانات میں انتظار حسین نے اس پوری خودنوشت کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے مثلاً
خودنوشت کی نوعیت، خودنوشت کو لکھنے کا پس منظراور قاری کے لیے کچھ نصیحتیں اور دعائیاں کلمات وغیرہ۔ اس حصے کو پڑھنے سے قاری کو واضح اندازہ ہوتا ہے۔
کہ گزری عمر اور گزرے وقت کے احساس کے ساتھ ساتھ انتظار حسین کے لہجے میں دکھ ،افسردگی اور ایک قسم کی ناامیدی دکھائی دیتی ہے۔ آخری حصے میں آنے والے عنوانات یہ ہیں:
۱۔ گھاٹ گھاٹ اور اس کے بعد ۲۔ ہائے گل ہائے دل
۳۔ وقت،میرے عزیز ،وقت ۴۔ کہنے والے کا بھلا سنے والے کا بھلا
حوالہ جات
۱۔ انتظار حسین، چراغو کا دھواں،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۸ء،ص ۴
۲۔ انتظار حسین،جستجو کیاہے؟،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۸ء،ص۱
۳۔ ایک جنم دو یاداشتیں،ارشد خاتم،مشمولہ:عالمی اردو ادب انتظار حسین نمبر،دسمبر ۲۰۱۶ء،کرشن نگر دہلی،ص ۸۷