علم بدیع کی تعریف اور اقسام

کتاب کا نام: اردو زبان و قواعد،کوڈ: 9010،موضوع: علم بدیع،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ۔

علم بدیع کی تعریف اور اقسام

بدیع کے لغوی معنی ندرت اور انوکھا پن کے ہیں۔ اصطلاح میں بدیع سے ایسا علم مراد ہے کہ جس سے تحسین و تزئین کلام کے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ کلام کا بلیغ اور مقتضائے حال کے موافق ہونا لازم ہے۔

بدیع کی مثال زیور کی ہے جیسے خوب صورت عورت معمولی زیورات سے بھی جاذب نظر دکھائی دیتی ہے اور بھدی یا بد شکل عورت کو اگر زیورات سے لا د بھی دیا جائے تو وہ دل پذیری کی صفت سے عاری رہے گی۔

محسنات شعری یا شاعری کے آرائشی اور تزئینی عناصر سے کلام کی جاذبیت اور تاثیر میں یقینا اضافہ ہوتا ہے اور اس کی دل کشی دل و نگاہ کو اپنی طرف کھنچنے کا باعث بنتی ہے مگر آرائشی عناصر کے استعمال میں جو قرینہ اور مہارت درکار ہوتی ہے وہ ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

بعض لوگوں کے خیال کے مطابق بدیع علم نہیں بلکہ ایک ملکہ یا مہارت ہے ہے تا ہم اکثریت اسے علم مانتی ہے چوں کہ اس کے قواعد موجود ہیں اور ان کی روشنی میں کلام میں تزئینی عناصر کا تجزیہ اور مطالعہ کر کے اس کے حسن وفتح کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

شعر میں یہ اضافی تزئینی عناصر یا تو لفظ کی ظاہری شکل وصورت اور خوبی کو چھکاتے ہیں یا اس کے معنوں میں زور، تاثیر اور حسن پیدا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے علم بدیع دو طرح کی مہارتوں کو ظاہر کرتا ہے۔

صنائع لفظی

صنائع صنعت کی جمع ہے ، جس کے معنی کاری گری اور مہارت کے ہیں۔ لفظی صنعت ایسی کاری گری اور مہارت ہے جو لفظ کے حسن و جمال کو چپکانے اور بڑھانے کا موجب ہو۔

اور صنایع معنوی معنوی صنعت سے مراد ایسی کاری گری اور مہارت ہے جو لفظ کے بجائے اس کے معنی کے دائرے کو کشادہ، حسین اور پُر تاثیر بنا کر کلام کو دل کشی عطا کرتی ہے۔

صنائع لفظی اور معنوی تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ ذیل میں چند اہم صنائع لفظی اور صنائع معنوی کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

صنائع لفظی

صنعت تجنیس

دو لفظ تلفظ میں مشابہہ ہوں اور معانی میں مختلف ۔ مثال:

جب میر گلستاں کو وہ شوخ کیا تڑ کے

دل چاک ہوا گل کا ، غنچے کا جگر تڑ کے

پہلاتڑ کے سویرے کے معنوں میں اور دوسرا پھٹنے کے معنوں میں ہے۔ تجنیس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، جیسے جھیں نام تجنیس خطی تجنیس مرکب وغیرہ۔

صنعت اشتقاق

یہ ایسی صنعت ہے کہ شعر میں دو ایسے لفظ برتے جائیں جو معنوں کے لحاظ سے مختلف ہوں مگر ایک ہی ماخذ سے ہوں ۔ مثال

اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام میں وہ ہے جو تکلف نہیں کرتا
اس شعر میں تکلیف اور تکلف صنعت اشتقاق کی مثال ہیں۔ دونوں لفظوں کا ماخذ اور منبع ایک ہے۔

صنعت مسمط

یہ ایسی صنعت ہے کہ شعر میں کئی ایسے ٹکڑے جمع ہوں جن میں جمع ہو یا وہ ہم وزن ہوں اور اگر ان میں قافیہ بھی ہو کلام کی نعمکیت اور ترنم میں اضافہ ہوتاہے

منہ سے گر لگے مینا، آپ خضر ہو پینا

پی کے ایک دم جینا ، عمر جاودانی ہے

اس شعر میں تین قافیوں کے التزام ( مینا، پینا، جینا اور چار سکھوں کی تقسیم نے غنائیت میں اضافہ کیا ہے۔
صنعت ترصیع: یہ صنعت بھی گیت اور غنائیت میں اضافہ کرتی ہے۔ شعر کے دونوں مصرعوں میں جتنے لفظ استعمال ہوں ، اوپر نیچے ہم وزن ہوں مثال :

ہمت نے مری مجھے آڑایا

غففلت نے تری مجھے چھڑایا

دونوں مصرعوں میں ایک جتنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور سب الفاظ اپنے مقابل آنے والے الفاظ کے ہم وزن بھی ہیں۔

صنعت مہملہ

یہ ایسی صنعت ہے کہ جس میں کلام حروف نقطہ دار سے عاری ہوتا ہے یعنی تمام الفاظ غیر منقوط ہوتے ہیں، مثال:

گل ہے کہ مہک سے ہی کل عالم ہے معطر
امی ہے کہ ہر علم کی حد اُس کا کیا ہے
ارشد محمود ناشاد کا به تعقیه شعر صحت مہملہ میں ہے۔ تمام الفاظ غیر منقوط ہیں۔

صنعت منقوط

یہ ایسی صنعت ہے کہ جس میں تمام حروف نقطه دار استعمال ہوں۔ مثال:

نے شیخ نے شقی بچے، نے تیغ زن بچے
بنی بچی محسین جبیں نے وقت بچے

اس شعر میں تمام حروف نقطہ دار ہیں ۔ یائے معروف اور یائے مجہول میں بھی دو نقطے ہوتے ہیں اگر چہ یہ لکھے نہیں جاتے۔

صنائع معنوی

صنعت مراعاة النظیر

اے صنعت تناسب اور اختلاف بھی کہتے ہیں۔ اس میں ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں

جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی معنوی رشتہ اور مناسبت ہو، مثال:

چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجل تھا

ہزاروں بلبلوں کی فوج تھی اور شور تھا، غل تھا

اس شعر میں چمن ، تخت گل بلبلیں ، شور وغل سبھی باغ کے مناسبات ہیں۔

صنعت تضاد

اس کو صنعت طباق اور مطابقت بھی کہتے ہیں۔ مثال :

کچھ تری بات کو ثبات نہیں

ایک ہاں ہے تو پانچ سات نہیں

ہاں اور نہیں“ میں تضاد ہے۔

صنعت ایہام

ایہام کے معنی وہم میں ڈالنا۔ ایسا لفظ استعمال کرنا جو ذو معنی ہو، ایک معنی قریب کے ایک ڈور
کے سلنے والے کا ذہن قریب کے معنوں کی طرف جائے مگر کہنے والی کی مراد معنی بعید سے ہو، مثال:

کیوں منڈاتا ہے زلف کوں پیارے

دیکھ تجھ کو کہیں گے سب مورکھ

مورکھ کے دو معنی ہیں ایک قریب کے یعنی نادان ، دوسرے بعید یعنی بال رکھے ہو کے معنی بال کے ہیں۔

صنعت تجاہل عارف

کسی شے کے بارے میں جانتے بوجھتے بے خبری کا اظہار کرنا ، مثال:

ہے زلف حلقہ زن خط دل بر کے آس پاس

یا اثر رہا ہے فوج سکندر کے آس پاس

کہنے والے کو معلوم ہے کہ خط دل پر کے آس پاس زلف حلقہ زن ہے مگر اپنے آپ کو انجان قرار دے رہا ہے۔

صنعت حسن تعلیل

کسی چیز کوکسی دوسری چیز کی صفت کے لیے ملت ٹھہرانا جب کہ وہ علت نہ ہو، مثال:

زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوزر یہ کف

قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا

پھول کے زردانوں کو قارون کے خزانے کا سونا ٹھہرانا حسن تعلیل ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں