ایہام گوئی کا مفہوم اور استعمال کی ضرورت

کتاب کا نام: تاریخ ادب اردو
کوڈ: 5601
موضوع: ایہام گوئی کا مفہوم اور استعمال کی ضرورت
صفحہ: 33

مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

ایہام گوئی کا مفہوم اور استعمال کی ضرورت

اردو لغت (ترقی اردو یورڈ کراچی) کے مموجب
1 اشتباہ جس میں ذہن دویا زیادہ مطالب کے متعلق یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ان میں کون سادرست ہے یامقصود ہے۔

سمجھے اس رمز کو ارباب معانی بیدار

صنعت حق سے جو یہ خلق میں ایہام رہا (میدار : 1794ء)

2 بلاغت کلام کی ایک صنعت توریہ (ایسا لفظ استعمال کرنا جس کے دو معنی ہوں۔ ایک قریب جو سیاق وسباق سے مناسبت رکھتے ہوں دوسرے بعید لیکن قائل معنی بعید مراد لے نہ کہ قریب)

بطور منزل ہے قائم ہے یہ گفتگو ور نہ تلاش ہے یہ مجھے ہو نہ شعر میں ایہام قائم (1795ء)اگر یہ کہا جائے کہ ایام اردو شاعری کی سب سے زیادہ کبھی مقبول اور کبھی بد نام صنعت ہے تو اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے۔ تاہم ذو معنی الفاظ سے شعر میں مزاء تفنن یا لطف پیدا کر نا صرف اردو ہی سے مخصوص نہیں، انگریزی میں بھی یہ رویہ ملتا ہے اور اس مقصد کے لئے PUN اور یونانی اصطلاح Paronomasi a مستعمل ہیں جبکہ سنسکرت میں اس مقصد کے لئے خلیش کی اصطلاح ملتی ہے۔ عنبر سر اچھی نے سنسکرت شعریات ( علی گڑھ : 1999ء) میں فلیش کی دو اقسام لکھی ہیں۔ شہد خلیش (ایسام لفظی ) اور ارتھ هلیش ” ( ایسام معنوی)

خیر پر اپکی ، سنسکرت شعریات ، علی گڑھ ایجو کیشن بک ہاؤس 1999 ء ص : 115)

ایهام – بلکہ شاعرانہ صنعت گرمی کے نقطہ نظر سے کسی بھی صنعت یا تشبیبہ استعارہ کے استعمال کی بنیادی وجہ شاعر کا یه اساسی مسئلہ ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اپنی بات رسوچ ، خیال ، تصویر تخیل ر نکته و نظریه ر روداد ما بزار واردات کردکھ خوشی کرب را اندوہ کیفیت کا اپنے قاری تک فوری درست اور موثر ابلاغ چاہتا ہے مگر ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنے ہی موزوں اور مناسب ترین بلکہ بہترین الفاظ ہی کیوں نہ استعمال کرلے مجرد کیفیات اور غیر مرئی احساسات کا مکمل ابلاغ ممکن نہیں اس لئے وہ شعر کی ہنڈیا میں صنعتوں کا تڑکا لگاتاہے۔
غالب نے اس ضمن بڑی اچھی بات کی ہے
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کے بغیر
شاعری میں موثر ابلاغ کے لئے جہاں تشبیہ استعارہ ” تمثال، خلیج اور ( جدید دور میں ) علامت سے کام لیا
جاتا ہے وہاں صنعتیں بھی بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ ماضی میں زیادہ مگر اب بھی یہ کلیتا متروک نہیں۔
جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے صنعتیں ساختہ ہوتی ہیں۔ لف و نشر ( مرتب و غیر مرتب ) مراة النظيرحسن تعلیل بتجنیس ایهام چند مشہور صنعتوں کے نام ہیں۔ یہ ایسی صنعتیں ہیں جو شعراء شعر کو بامز بنانے کے لئے بالعموم استعمال کرتے رہے ہیں۔ بامز ا شعر یا موثر اور مکمل ابلاغ کا انحصار اسلوب پر ہوتا ہے۔ صنعتوں کے فن کارانہ استعمال سے شعر کے ذائقہ میں گویا نمک شامل ہو جاتا ہے۔
اسلوب کی حسن کاری کے لئے صنعتوں کا استعمال پر انہیں بشر طیکہ انہیں صنعت ہی سمجھ کر استعمال کیا جائے اور انہیں ابلاغ کا ایک ذریعہ ہی سمجھا جائے۔ شعر میں کسی بھی صنعت کے استعمال کا جواز میں ہے کہ یہ معنی کی ترسیل اور مفہوم کے ابلاغ میں محمد ثابت ہوں یا پھر حسن کاری کا وسیلہ نے نہ کہ صنعت کا استعمال ہی اصل مقصد قرار دے دیا جائے۔ صنعت حصول مقصد کا ذریعہ ہے لہذا اسے مقصود بالذات نہ سمجھنا چاہے۔ہی برائی مثال۔ نمک مرچ بلدی دھنیا گرم مصالحہ اس وقت سالن کو خوش ذا لقتہ بناتے ہیں جب ان کا استعمال اعتبار سے سوچ سمجھ کر میں بندر ضرورت کیا جائے۔ تیز یک سری یا گرم مصالحہ کی ہنڈیا کون ہضم کر سکتا ہے ؟ اسی طرح صنعتیں اگر ابلاغ کے تابع نہ ہوں ، شاعر کا مقصد ہی صنعت کا استعمال ہو اور شعر محض صنعت برائے صنعت کی مثال بن جائے تو صنعتوں کا ایسا غیر تخلیقی استعمال شعر کو غیر فن کارانہ اور غیر تخلیقی بنادیتا ہے یوں شعر میں سے تخلیقی از ختم ، حسن خیال معراتصور نو عنقا اور شعر محض لفظی جمناسٹک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جب الفاظ کی
بھول بھلیاں میں معنی گم ہو جائیں تو لفظی چیتان قاری کے لئے سزا میں تبدیل ہو جاتی ہے اور یہی کثرت ایسام کے نتیجہ میں ہوا۔
بہت زیادہ مقبولیت کے بعد ایسام جو ہدف ملامت بنایا گیا تو اس کا یہی سبب تھا کہ ایہام کے ذریعہ سے غیر تخلیقی شعر کو تخلیقی شعر بنانے کی سعی کی جاتی رہی۔ اس حد تک کہ شعر گوئی ایہام گوئی کے مترادف قرار پا گئی لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واحد ایسی صنعت ہے جس کے نام سے شاعری کا ایک دور عہد ایہام ، دور ایہام گویاں ، منسوب ہوا تو ادی مورخین نے ایہام گوئی کو ایک تحریک قرار دیا۔ ملاحظہ کیجئے ملک حسن اختر کی تالیف اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک ( لاہور : 1986ء) عربی الاصل ایہام کے لغوی معنی میں اس کی تعریف بھی شامل ہے یعنی وہم میں ڈالنا ایسام فارسی سے اردو میں آیا۔ ولی یا د ہلی کے اردو غزل گو شعر اسے کہیں پہلے امیر خسرو اسے استعمال کر رہے تھے۔ بلکہ غرۃ الکمال میں انہوں نے ایسام کی ایک ایسی صورت کے موجد ہونے کا دعوی کیا جس میں ایک طرف اردو کا مطلب نکلتا ہے اور دوسری طرف فارسی زبان بن جاتی ہے۔ اور اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ امیر خسرو ہی اردو میں ایہام گوئی کی صنعت کو استعمال کرنے والے اولین شاعر ہیں۔
( حسن اختر او اکثر ملک اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک لاہور ص : 135)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں