ایہام گوئی اور شیخ حاتم
- (ماخوذ از: شعری اصناف: تعارف و تفہیم، صفحہ 158، مرتبہ: سمعیہ بی بی)
شاہ حاتم کا دور اردو شاعری میں ایہام گوئی کے رواج کا زمانہ تھا۔ اس عہد کے اکثر شعرا اس اسلوب سے متاثر تھے اور ایہام گوئی میں طبع آزمائی کو فنی مہارت سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، بعض اوقات یہ انداز ابتذال کے قریب بھی محسوس ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایہام گوئی کا مفہوم اور استعمال کی ضرورت
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شاہ حاتم نے ایہام گوئی میں بعض عمدہ اشعار تخلیق کیے، جن سے اردو زبان کی وسعت اور معنوی تہہ داری کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ ایہام کی خوبی اور خامی دونوں سے آگاہ تھے، اور انہوں نے اس اسلوب کو کبھی اپنے فنی وقار پر حاوی نہیں ہونے دیا۔
جب انہیں یہ احساس ہوا کہ ایہام گوئی سے ان کے فن کی شعری سچائی اور صفائی متاثر ہو رہی ہے، تو انہوں نے نہ صرف اس طرزِ اظہار کو ترک کیا بلکہ اپنے ایسے اشعار بھی کلام سے حذف کر دیے جن میں ابہام یا غیر ضروری پیچیدگی تھی۔
ان کے ایہام پر مبنی چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مثالِ بحر، موجیں مارتا ہے؛
لیا ہے جس نے اس جا کا کنارہ۔ہے وہ چرخ، مثالِ سرگرداں؛
جس کو حاتم، تلاشِ مال ہوا۔نظر آوے ہے، بکری سا کیا پر ذبح شیروں کو؛
نہ جانا میں نے، کہ وہ قصاب کا رکھتا ہے دلِ گردہ۔
بعد ازاں وہ ایہام گوئی سے مکمل دستبردار ہو گئے، جس کی جھلک ان کے درج ذیل اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے:
کہتا ہے صاف و شستہ سخن، بس کہ بے تلاش؛
حاتم کو اس سبب، نہیں ایہام پر نگاہ۔ان دنوں، سب کو ہوئی ہے صاف گوئی کی تلاش؛
نام کا چرچہ نہیں، حاتم! کہیں ابہام کا۔
یوں شاہ حاتم نے اپنی شاعری میں ایہام گوئی کو فنی شعور کے ساتھ برتا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس سے دستبردار ہو کر صاف گوئی اور سادگی کو اپنایا، جو ان کے ادبی بصیرت کا ثبوت ہے۔