کتاب کا نام ۔۔۔۔افسانوی ادب 1
کوڈ۔۔۔۔۔5603
صفحہ نمبر ۔۔62۔سے55
موضوع ۔۔۔ابن الوقت
مرتب کردہ ۔۔۔اقصئ
ابن الوقت کا پس منظر
کسی بھی فن پارے کو اس کے پس منظر سے جدا کر کے سمجھنا دشوار ہوتا ہے ۔ پس منظر سے مراد وہ مخصوص سیاسی سماجی اور معاشرتی حالات ہوتے ہیں۔ جن کے زیر اثر کوئی فن پارہ تخلیق پاتا ہے۔ اور ابن الوقت تو یوں بھی مخصوص حالات کے نتیجے میں لکھا گیا ناول ہے۔ سو ناول کی کہانی اور اس کے فنی و فکری تجزیے سے قبل ہم ان حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ ابن الوقت نذیر احمد کے سیاسی معاشرتی ، تعلیمی اور مذہبی نظریات کا نچوڑ ہے ۔ اس ناول کا تعلق قومی زندگی کے نہایت اہم مسائل اور رجحانات سے ہے ۔ ابن الوقت کے قصے کا آغاز 1857ء کے ہنگامے سے ہوتا ہے اور 1857ء کا انقلاب اس اعتبار سے برصغیر کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے نہایت دور رس سیاسی و معاشرتی نتائج مرتب ہوئے ۔ اس ناول کے محرکات میں سے ایک تو غدر کے حالات ہیں اور دوسرے تحریک علی گڑھ کا اثر ہے ۔ اس ناول میں پوری علی گڑھ تحریک کو تجزیے اور تبصرے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اور 1857 ء سے ناول کے آغاز کا مقصد بھی علی گڑھ تحریک کے سیاسی پس منظر کو سامنے لانا ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا جب سرسیدے کی تحریک اپنے عروج پر تھی اور اس تحریک نے مسلمانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا ۔ ایک گروہ سرسید کی تعلیمات کا حامی تھا اور اس تحریک کی سرگرمیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیتا تھا ۔ دوسرا اس تحریک کا شدید مخالف تھا اور سرسید کی تعلیمات کے باعث ان پر کفر و الحاد کے فتوے لگاتا رہتا تھا۔ مولوی نذیر احم نہ تو سرسید احمد خان کے مکمل حامی تھے اور نہ ہی مکمل طور پر مخالف بقول ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی :-
سرسید اور نذیر احمد کے معاشرتی نظریات کا بنیادی فرق یہی ہے ۔ دونوں اصلاح کی ضرورت کو سمجھتے تھے لیکن سرسید قوم کی قلب ماہیت کے خواہاں تھے اور اسے انگریز بنا دینے کے درپے رہے۔ نذیر احمد قومی خودی اور قومی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک جائز حد کے اندر اصلاح چاہتے تھے ۔“
سرسید احمد خان کو حد سے زیادہ جدت پسند کہا گیا ہے۔ لیکن نذیر احمد قدامت پرستی اور جدت پسندی کے درمیان ایک حد اعتدال کے قائل تھے اور ابن الوقت میں اس قدامت وجدت کی آمیزش کے مناظر جگہ جگہ دکھائےگئے ہیں۔
ابن الوقت کا موضوع معاشرت ہے اور قصے کی بنیاد تمدنی مسائل پر رکھی گئی ہے ۔ ابن الوقت کے پس منظر پر تفصیلی بحث کے لئے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، سید سبط حسن مرتب ابن الوقت اور ڈاکٹر احسن فاروقی کی کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
- ابن الوقت کا پلاٹ و کردار
ابن الوقت کا پلاٹ نہایت سیدھا سادا اور سپاٹ ہے ۔ اس میں کسی طرح کی پیچیدگی موجود نہیں ۔ ذیل میں اس قصے کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ پلاٹ کے متعلق کچھ اندازہ ہو سکے۔
ابن الوقت دہلی کا ایک کھاتا پیتا نوجوان ہے مگر اس کا تھوڑا سا تعلق شاہی قلعے سے بھی ہے ۔ غدر کے ہنگامے میں ایک دن وہ ایک زخمی انگریز افر نوبیل صاحب کی جان بچاتا ہے اور اسے اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے۔ اس کے صلے میں ابن الوقت کو ایک معقول جاگیر اور ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنری کا عہدہ ملتا ہے۔ نوبل صاحب کی باتوں کا اس پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ قوم کی اصلاح کی خاطر انگریزی کی طرز معاشرت اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اپنا آبائی مکان چھوڑ کر چھاؤنی میں جہاں انگریز آباد ہیں ایک کو بھی کرائے پر لیتا ہے اسے انگریزی انداز سے آراستہ کرتا ہے اور اکیلا وہاں رہنے لگتا ہے۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے ناتا توڑ کر انگریزوں سے رشتہ جوڑتا ہے اور ان سے برابری سے ملتا ہے۔ نوبل صاحب کے ہندوستان میں قیام تک دوسرے انگریز بھی اس کی آؤ بھگت کرتے ہیں مگر نوبل
صاحب کے ولایت واپس جانے کے بعد ان کے دل کی کدورت ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے اور وہ ابن الوقت کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ ابن الوقت کو چھاؤنی کی کوٹھی خالی کرنی پڑتی ہے کیونکہ انگریز یہ نہیں برداشت کر سکتے کہ کوئی دیسی آدمی ان کے علاقے میں ان کا ہم سر بن کر رہے ۔ قریب ہے کہ ابن الوقت معتوب ہو کر نوکری سے بھی نکالا جائے کہ اس کے دور کے ایک رشتہ دار خواجہ خضر بن کر آتے ہیں اور مباحثوں اور مناظروں کے ذریعہ ابن الوقت کو مغربی طرز زندگی ترک کرنے پر تیار کرتے ہیں جب اس کی نوکری بحال ہو جاتی ہے اور ابن الوقت اپنے رشتہ داروں سے جاملتا ہے۔
4- ابن الوقت کی کردار نگاری
ایک معیاری ناول میں یوں تو بہت کی باتوں کا موجود ہونا ضروری ہے مگر تین باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ان میں پہلی پلاٹ دوسری کردار نگاری اور تیسری زبان یا اسلوب ہے۔ ابن الوقت کے پلاٹ کا تذکرہ آپ
پڑھ چکے ہیں ۔ کردار نگاری کے حوالے سے ابن الوقت کو دیکھا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ یوں تو اس میں متعدد کردار موجود ہیں مگر مرکزی کردار ابن الوقت ہی ہے۔ ناقدین ادب نے کبھی ابن الوقت کو سرسید سے اور کبھی خود نذیر احمد سے مشابہ قرار دیا ہے ۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے ابن الوقت کے کردار کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(الف) اس کے کردار میں تبدیلی ایک تدریجی ارتقائی عمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ زندہ متحرک اور نمو پذیر کردار ہے۔
(ب) اس کے کردار میں نفسیاتی کیفیات کی ایسی مصوری موجود ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
(ج) ابن الوقت نذیر احمد کا معتوب کردار نہیں بلکہ اس کے کردار میں نذیر احمد کے بیشتر پسندیدہ اور ذاتی اوصاف موجود ہیں ۔
(1) نذیر احمد کا ابن الوقت روایتی ابن الوقتوں سے بالکل مختلف ہے ۔ اس میں حق گوئی اصول پسندی ، فرض شناسی اور دیگر متعد د اوصاف موجود ہیں ۔
(ر) وہ مغربی طرز زندگی کا حامی ہے اور مغرب کی بنیا د تقلید کی بجائے عقل اور سائنس پر رکھتا ہے۔
ابن الوقت کے ضمنی کرداروں میں نوبل، شارپ جان نثار اور حجۃ الاسلام قابل ذکر ہیں ۔ ان میں سے ہر
کردار اپنی جگہ نہایت اہم ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کردار بقول سید سبط حسن ابن الوقت کے کردار کی تعمیل و تشکیل میں اس کے معاون بن کر سامنے آتے ہیں ۔
ابن الوقت میں مولوی نذیر احمد اپنے دیگر ناولوں کے برعکس ایک کامیاب کردار نگار کی حیثیت
سے ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ان کے اکثر کردار اسم با مسمی ہوتے ہیں مگر ابن الوقت ایک متحرک کردار ہے۔
5- ابن الوقت کی زبان واسلوب
مولوی نذیر احمد ایک مقصدی ناول نگار ہیں انہوں نے زیادہ تر مذہبی معاشرتی اور مذہبی مسائل پر ناول لکھے ہیں۔ اس قدر متنوع مسائل پر لکھنے کے باوجود شاید ہی کسی خیال کے اظہار میں انہیں کوئی تشنگی محسوس ہوتی ہو اس کی بنیادی وجہ ان کا زور بیان ہے۔ ان کے اسلوب کی اس خوبی کا اعتراف اکثر ناقدین نے کیا ہے۔ اپنے ایک خط میں انہوں نے اس بات کا ذکر یوں کیا ہے۔
میری زبان میں خدا نے اتنی قوت دی ہے کہ سمجھا دینے اور ذہن نشین کر دینے کا دعوی رکھتاہوں ۔
ناقدین ادب نے نذیر احمد کے زبان و اسلوب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ نمبر وار ذیل میں درج ہے۔
نذیر احمد کے بیانیہ اسلوب میں میر امن کے اسلوب کی بعض بنیادی خصوصیات موجود ہیں ۔
روزمرہ اور محاورے کے استعمال پر انہیں بے پنا و قدرت حاصل ہے۔
زبان کے معاملے میں انہوں نے اشرافی روایات سے بغاوت کر کے ٹھیٹھ عوامی بول چال کو
رواج دیا۔
نذیر احمد کو ہر طبقے اور بالخصوص طبقہ نسواں کے مخصوص الفاظ و محاورات و اصطلاحوں پر خاص مہارت حاصل ہے۔
مذہبی موضوعات میں نذیر احمد کے عامیانہ محاورات والفاظ اصول بلاغت کے خلاف ہیں۔
نذیر احمد کی لفاظی نے اکثر مقامات پر طوالت اور تکرار کو جنم دیا ہے۔
ان کی بیشتر تحریروں میں گفتگو کا انداز اور براہ راست تخاطب کا پیرا یہ موجود ہے۔
نذیر احمد کے زبان و اسلوب کی چند نمایاں باتیں اوپر درج کی جا چکی ہیں ۔ ایسی آرا دینے والوں میں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی الطاف حسین حالی، مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر سید عبد اللہ اور سید وقار عظیم کے اسمائے گرامی قابل
ذکر ہیں ۔ آپ نذیر احمد کے اسلوب و زبان سے متعلق تفصیلی بحث ان کتب میں پڑھیں گے جن کے نام آگے درج کیے جا رہے ہیں ۔ ذیل میں ابن الوقت کے متن کا نمونہ درج ہے۔ جس سے نذیر احمد کے اسلوب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نمونه متن
دنیا میں شاید قوم کی رفارم (اصلاح) سے زیادہ مشکل کوئی اور کام نہیں ہو سکتا سو ابھی یہاں پوری رفارم کا کیا فائدہ ہے۔ پوری رفارم تو وہ تھی جس کا بیڑا اہمارے پیغمبر صاحب نے اٹھایا تھا ۔ مبعوث ہوئے عرب میں جن سے بدتر اس وقت روئے زمین پر کوئی قوم نہ تھی ۔ اس رفارم کے مقابلے میں کیا بچارہ ابن الوقت اور کیا اس کی رفارم ! وہی مثل ہے ۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شور ہا۔ اس کی اتنی ہی بساط تھی کہ اس کو آپ سوجھی اور نو بل صاحب نے بھی سمجھا وہی کہ انگریزی عملداری میں مسلمان بگڑتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ تھا ایک واقعہ بدیہی ۔ سب کی تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ انگریزی عملداری میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ دریا میں رہنا اور مگر مچھ سے بیر ۔ رعیت ہو کر بادشاہ سے نفرت محکوم رہ کر حاکم سے گریز یہاں تک ابن الوقت کی رائے نہایت درست تھی ۔ اب اس نے قومی ہمدردی اور سرکاری خیر خواہی کے تقاضے سے چاہا کہ مسلمانوں کی وحشت اور اجنبیت کو دور کر کے حاکم و محکوم میں ارتباط و اختلاط پیدا کرا دوں ۔
حجة الاسلام : ” بحث مت کرو میں تو مذہب رے میں مناظرے اور مباحثے کا سخت مخالف ہوں اور میں نے شروع ہی میں تم سے کہہ دیا تھا کہ دین حجت اور تکرار سے حاصل ہونے والی چیز نہیں ۔ دین دوا ہے بیمار کی تسلی ہے بیقرار کی ۔ متاع ہے خریدار کی بشارت ہے امیدوار کی ۔ نجات ہے گنہگار کی یعنی عنایت ہے پروردگار کی جو کچھ میں نے تم سے کہا ہرگز از راہ بحث نہیں کہا بلکہ یہ تقاضائے محبت کہ تم کو اپنی سمجھ کے مطابق ایک تدبیر بتائی کہ اگر اپنے دل میں صدق نیت کے ساتھ غو ب نہیں خلجان باقی نہ رہے اور قیامت اور بازخواست قیامت کی بات کے نکالنے کی جو تم کہی یہ تو تمام رحمتیں اسی دن کے لیے ہیں اگر قیامت اور قیامت کی بازخواست نہ ہوتی تو کیوں دین ڈھونڈتے اور کس لیے مذہب کی تلاش کرتے ۔ بڑی مشکل تو یہی ہے کہ مرنے سے بھی آدمی کا پنڈ نہیں چھوٹتا۔ یه زندگی دنیا تو چند روز ہے بھلی طرح بھی گزر جائے گی اور بری طرح بھی گزر جائے گی ۔ پہاڑی زندگی تو وہ ہے جو مرنے سے شروع ہو گی گویا از سرنو پیدا ہوئے اور جس کی اصلاح دین کا مقصود اصلی ہے
ابن الوقت : ” خدا کے ہونے پر تو بھلا آپ نے ایک دلیل قائم کی بھی ۔ ہر چند میرے دل کو اس سے تسلی نہیں ہوتی اور میں اس وقت تک یہی سمجھتا ہوں کہ لوگ ہو رہے ہیں اسباب کے خوگر جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں سبب ہی سبب نظر آ رہے ہیں ۔ اس وجہ سے انہوں نے ذہن میں تقسیم کر لی ہے کہ ہر واقعہ کے لیے سبب کا ہونا ضرور ہے اور سبب نہیں پاتے تو جھٹ سے خدا کے قائل ہو جاتے ہیں ۔ مگر میں بننا چاہتا ہوں کہ قیامت اور باز خواست قیامت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے”
حجتہ الاسلام : ” میں نہیں جانتا کہ خدا کے لیے تم کس طرح کا ثبوت چاہتے ہو؟ اگر یہ مطلب ہے کہ آنکھ سے دیکھوں یا ہاتھ سے ٹولوں تو میں کیا کوئی بھی دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ تم کو خدا کا دیدار دکھا دے گا۔ مگر یہ فرماؤ کہ ثبوت دلیل سارے اذعان حاصل کرنے کے ذریعے ہیں اذعان مرئیات اور ملموسات ہی میں منحصر ہے؟ ہرگز نہیں ہر شخص اپنے وجدانیات کا اذعان کرتا ہے ۔ حالانکہ امور وجدانی نہ مرتی ہیں نہ ملموس اور تقیم پر جو تم نے اعتراض کیا، کیونکہ میں سمجھوں کہ حقیقت میں تم کو شک ہے، جبکہ میں دیکھتا ہوں اور تم کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو ابن الوقت : خیر آپ کی عقل ایسے ڈھکوسلوں کو قبول کرتی ہو گی کہیے تو آپ کی خاطر سے جھوٹ بول دوں ۔ ورنہ میں تو نہیں سمجھتا کہ جب تک مسلمان تقدیر اور شیطان اور اسی طرح دوسری لغویات کے معتقد رہیں
گے ان کو کبھی فلاح ہو
حجتہ : ملا جی گالیوں کی سہی نہیں۔ خلط مبحث مت کرو ۔ مقرر کر کے ایک ایک بات کہو تو جواب دیا جائے ابن الوقت : آپ ہی انصاف سے کہئے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمت نہیں کیا ۔ سب سے بڑے دیندار ورثہ الانبیاء دین کے محافظ دین کے حامی دین کے رواج دینے والے مولوی مشائخ اور یہ تو ہمارے گھر کا کام ہے۔ ساری حقیقت آپ کو بھی معلوم ہے۔ مجھ کو بھی ہے۔ مردوزن ملا کر ڈیڑھ سو پونے دو سو آدمیوں کی گزر کس چیز پر تھی ؟ خیر خیرات پر جس کو دیکھو تن بہ تقدیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ۔”
حجتہ : شخصیات سے بحث کرنے میں تو غیبت ہوتی ہے اور کسی کی نیت کا حال کیا معلوم مگر تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمت کر دیا ۔ دنیا میں مسلمانوں نے کیا نہیں کیا ؟ ملک گیر یاں کیں، ملک داریاں کیں ۔ خشکی اور تری کے سفر کیئے تجارتیں، صناعیاں کیں، دستکاریاں کین، علم تحصیل کیے ۔ ایجاد میں کیں۔ غرض دنیا کے سبھی کام کیئے اور ایسے کیے کہ ان کے زمانے میں دوسروں سے نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اب بھی زمینداری کاشتکاری دستکاری، تھوڑی بہت تجارت برا بھلا پڑھنا لکھنا نوکری چاکری بھی کچھ کرتے ہیں ۔ اور کرتے نہیں تو کھاتے پیتے کہاں سے ہیں ؟ یہ بات دوسری ہے جو چاہیے نہیں کرتے یا کرنے میں کمی کرتے ہیں ۔ مگر اس کے اسباب دوسرے ہیں نہ یہ عقیدہ کو کاہل کر دیا ہے۔ ہندو عیسائی یہودی کون ہے جو تقدیر کا قائل نہیں ۔ تو اگر مجرد تقدیر پر عقیدہ رکھنا کا ہلی کا باعث ہوتا تو یہ سب کامل ہوتے حالانکہ با تخصیص مسلمانوں ہی کو ملزم ٹھہراتے ہو اور چونکہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں تقدیر پر عقیدہ رکھنا کاہلی کا سبب کیوں ہونے لگا ۔ بلکہ وافر مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں نے ثابت قدمی اور استقلال مزاجی کے
ساتھ کوشش کی اور آخر کامیاب ہوئے
آخر میں بطور ناول نگار مولوی نذیر احمد کے فن کو بجھنے کے لئے ڈاکٹر ایم ۔ ڈی تاثیر اور پروفیسر احتشامحجتہ الاسلام : ” میں نہیں جانتا کہ خدا کے لیے تم کس طرح کا ثبوت چاہتے ہو؟ اگر یہ مطلب ہے کہ آنکھ سے دیکھوں یا ہاتھ سے ٹولوں تو میں کیا کوئی بھی دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ تم کو خدا کا دیدار دکھا دے گا۔ مگر یہ فرماؤ کہ ثبوت دلیل سارے اذعان حاصل کرنے کے ذریعے ہیں اذعان مرئیات اور ملموسات ہی میں منحصر ہے؟ ہرگز نہیں ہر شخص اپنے وجدانیات کا اذعان کرتا ہے ۔ حالانکہ امور وجدانی نہ مرتی ہیں نہ ملموس اور تقیم پر جو تم نے اعتراض کیا، کیونکہ میں سمجھوں کہ حقیقت میں تم کو شک ہے، جبکہ میں دیکھتا ہوں اور تم کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو ابن الوقت : خیر آپ کی عقل ایسے ڈھکوسلوں کو قبول کرتی ہو گی کہیے تو آپ کی خاطر سے جھوٹ بول دوں ۔ ورنہ میں تو نہیں سمجھتا کہ جب تک مسلمان تقدیر اور شیطان اور اسی طرح دوسری لغویات کے معتقد رہیں
گے ان کو کبھی فلاح ہو
حجتہ : ملا جی گالیوں کی سہی نہیں۔ خلط مبحث مت کرو ۔ مقرر کر کے ایک ایک بات کہو تو جواب دیا جائے ابن الوقت : آپ ہی انصاف سے کہئے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمت نہیں کیا ۔ سب سے بڑے دیندار ورثہ الانبیاء دین کے محافظ دین کے حامی دین کے رواج دینے والے مولوی مشائخ اور یہ تو ہمارے گھر کا کام ہے۔ ساری حقیقت آپ کو بھی معلوم ہے۔ مجھ کو بھی ہے۔ مردوزن ملا کر ڈیڑھ سو پونے دو سو آدمیوں کی گزر کس چیز پر تھی ؟ خیر خیرات پر جس کو دیکھو تن بہ تقدیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ۔”
حجتہ : شخصیات سے بحث کرنے میں تو غیبت ہوتی ہے اور کسی کی نیت کا حال کیا معلوم مگر تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل اور قاصر الہمت کر دیا ۔ دنیا میں مسلمانوں نے کیا نہیں کیا ؟ ملک گیر یاں کیں، ملک داریاں کیں ۔ خشکی اور تری کے سفر کیئے تجارتیں، صناعیاں کیں، دستکاریاں کین، علم تحصیل کیے ۔ ایجاد میں کیں۔ غرض دنیا کے سبھی کام کیئے اور ایسے کیے کہ ان کے زمانے میں دوسروں سے نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اب بھی زمینداری کاشتکاری دستکاری، تھوڑی بہت تجارت برا بھلا پڑھنا لکھنا نوکری چاکری بھی کچھ کرتے ہیں ۔ اور کرتے نہیں تو کھاتے پیتے کہاں سے ہیں ؟ یہ بات دوسری ہے جو چاہیے نہیں کرتے یا کرنے میں کمی کرتے ہیں ۔ مگر اس کے اسباب دوسرے ہیں نہ یہ عقیدہ کو کاہل کر دیا ہے۔ ہندو عیسائی یہودی کون ہے جو تقدیر کا قائل نہیں ۔ تو اگر مجرد تقدیر پر عقیدہ رکھنا کا ہلی کا باعث ہوتا تو یہ سب کامل ہوتے حالانکہ با تخصیص مسلمانوں ہی کو ملزم ٹھہراتے ہو اور چونکہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں تقدیر پر عقیدہ رکھنا کاہلی کا سبب کیوں ہونے لگا ۔ بلکہ وافر مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں نے ثابت قدمی اور استقلال مزاجی کے
ساتھ کوشش کی اور آخر کامیاب ہوئے
آخر میں بطور ناول نگار مولوی نذیر احمد کے فن کو بجھنے کے لئے ڈاکٹر ایم ۔ ڈی تاثیر اور پروفیسر احتشام حسین کی آرا درج کی جارہی ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں