مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ابن انشا کے تراجم اور خطوط: ایک ادیب کے پوشیدہ ادبی خزانے

ابن انشا کے تراجم اور خطوط: ایک ادیب کے پوشیدہ ادبی خزانے


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 31 جولائی، 2025

محقق کا تعارف

یہ بلاگ پوسٹ عاصمیہ بانو کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے۔ عاصمیہ بانو کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ایک محقق ہیں۔ انہوں نے یہ مقالہ ڈاکٹر منظور احمد میر کی زیرِ نگرانی اپنے پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے مکمل کیا۔ ان کی تحقیق اردو ادب کے نامور شاعر اور ادیب ابنِ انشا کی تصانیف کے گہرے تنقیودی مطالعے پر مشتمل ہے، جو ان کی علمی قابلیت اور ادبی شعبے میں مہارت کی عکاسی کرتی ہے۔

تعارف

ابنِ انشا کی ادبی شخصیت کئی جہتیں رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں اداسی کا رنگ ہے تو سفرناموں میں دنیا جہان کی سیر، اور طنز و مزاح میں معاشرے کی ناہمواریوں پر گہری چوٹ۔ لیکن ان کی ادبی خدمات کا دائرہ ان مشہور اصناف سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ابن انشا کے تراجم اور خطوط ان کی شخصیت اور فن کے ان گوشوں کو سامنے لاتے ہیں جو اکثر قارئین کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ انہوں نے عالمی ادب کے شاہکاروں کو اردو کا جامہ پہنایا اور اپنے خطوط میں ذاتی زندگی اور ادبی دنیا کی جھلکیاں پیش کیں۔ اس بلاگ پوسٹ میں ہم ان کے اسی ورسٹائل کام کا ایک تحقیقی جائزہ لیں گے۔

ترجمہ نگاری کا فن اور ابن انشا

ترجمہ، اردو زبان و ادب میں ترجمہ نگاری کے ضمن میں اولین دور کے ایک مشہور و معروف ناقد اور نظریہ ساز حاجی اصغر کی نظر سے:

"یہ امر مسلم الثبوت ہے کہ جب کوئی قوم علوم وفنون میں ترقی کا پہلا قدم اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے علمی زبانوں کے تراجم سے اپنی زبان کو مایہ دار بناتی ہے۔ اور آئندہ اقوام کی کوشش کے نتائج کو اپنے اندر جذب کر کے اپنے علمی خزانوں کو معمور کرتی ہے۔”

اردو زبان میں تراجم کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اپنی کتاب ”اردو میں ترجمے کی روایت“ میں یوں رقمطراز ہیں:

”اردو میں نثری تراجم کا جائزہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اردو زبان و ادب کی وسعت اور گہرائی میں اغذ و ترجمے نے خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ شاید تراجم نے لسانی اسالیب بیان کو حجم دیا۔ ترجمے نے احساس کو ادراک، پیرایہ بیان میں صلابت، متانت اور استدلال کو بڑھاوا دیا اور پیرایہ اظہار کے نئے سانچے فراہم کیے۔ نیز یہ کہ نئی اصناف سے آشنا ہی نہیں کیا بلکہ ان اصناف کو نئی جہتیں بخشیں۔ اردو ادب میں ترجمے کی جگہ تشکیک، داستان اور تمثیل کی جگہ ناول، رپنس اور روشنی کی جگہ ڈراما اور کہانی کی جگہ افسانہ جیسی جدید اصناف نے لے لی۔ اور ادبیات عالم سے واقفیت ممکن ہوئی۔”

عالمی ادب کے اردو تراجم

ابنِ انشا نے نہ صرف مشرقی بلکہ مغربی ادب کے بہترین نمونوں کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے امریکی ادیب جان اسٹین بیک (John Steinbeck) کے شہرہ آفاق ناول "The Moon is Down” کا اردو ترجمہ "شہر پناہ” کے نام سے کیا۔ یہ ترجمہ صرف لفظی نہیں بلکہ انہوں نے اصل ناول کی روح اور اس کے تہذیبی پس منظر کو کامیابی سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔

اسی طرح انہوں نے امریکی افسانہ نگار او ہینری (O. Henry) کی مشہور کہانیوں کے مجموعے "The Four Million” کا ترجمہ "لاکھوں کا شہر” کے نام سے کیا۔ یہ کتاب امریکی معاشرت اور وہاں کے کرداروں کی عکاسی کرتی ہے، جسے ابنِ انشا نے نہایت خوبصورتی سے اردو دان طبقے کے لیے پیش کیا۔

انہوں نے جرمن شاعروں اور ادیبوں کے کام کو بھی اردو میں متعارف کرایا۔ "قصہ اک کنوارے کا” جو ویلہم بش (Wilhelm Busch) کی منظوم تخلیق "Adventures of a Bachelor” کا ترجمہ ہے، اس کی بہترین مثال ہے۔

ابن انشا کی خطوط نگاری: ایک ذاتی جھلک

ابن انشا کے تراجم اور خطوط ان کی شخصیت کے دو مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ جہاں تراجم ان کی علمی قابلیت اور ادبی فہم کا ثبوت ہیں، وہیں ان کے خطوط ان کی ذاتی زندگی، دوستیوں، اور ادبی دنیا سے متعلق ان کے خیالات کا آئینہ ہیں۔

خطوطِ انشا:
ابنِ انشا کے خطوط کا مجموعہ "خطوطِ انشا” ان کی وفات کے بعد ریاض احمد ریاض نے مرتب کیا۔ یہ خطوط محض ذاتی نوعیت کے نہیں ہیں، بلکہ ان میں ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر ان کے تبصرے ملتے ہیں۔ ان خطوط سے ان کی حس مزاح، دوستوں سے محبت اور اصولوں پر قائم رہنے کی عادت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جیسا کہ جمیل الدین عالی کے نام ایک خط میں وہ لکھتے ہیں:

”اس نے مجھے بڑی اپنائیت کے ساتھ خطوط لکھنے اور ان خطوط میں اپنی شخصیت کو بار بار بے نقاب کیا۔ اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو عجیب عجیب پیرائے میں بیان کیا۔۔۔ آج ان خطوط کو پڑھتا ہوں تو جو خیال ہوتا ہے وہ یہ کہ سچ مچ کا صوفی تھا۔“

یہ خطوط ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتے ہیں اور ان کے ذہنی ارتقا کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں ان کی بیماری، ادبی سرگرمیاں، اور دوستوں سے کیے گئے شکوے اور محبت بھری باتیں شامل ہیں۔

خطوط کا اسلوب: بے تکلفی اور گہرائی

ابنِ انشا کے خطوط کا اسلوب بے تکلف اور سادہ ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں جیسے وہ سامنے بیٹھے ہوں۔ ان کے خطوط میں ان کی حسِ مزاح بھی جھلکتی ہے، لیکن ساتھ ہی ایک گہری سنجیدگی اور فکر مندی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے خطوط میں ادبی اور سماجی مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں، جو ان کی وسیع النظری اور سماجی شعور کا ثبوت ہے۔

ایک خط میں وہ اپنے دوست حمید اختر کو لکھتے ہیں:

”۔۔۔ اب تک تمنا، آنکھوں نے جو کچھ دیکھا، ان میں سے بہت سی باتیں لکھی ہیں اور بہت سی باقی ہیں۔ لاہور کی گلیوں میں جہاں گھوم پھر کر شام ہوتی ہے وہ محروم رہتے ہو۔ ادبی مجالس میں دو کتابیں آرہی ہیں۔ ایک جدید اردو ریڈر اردو کی آخری کتاب کے نام سے، دوسری سفرنامہ ”آوارہ گرد کی ڈائری“ ان کے بارے میں کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ سرِ دست خود اپنی تعریف میں یہ دو سطری قطعہ حاضر ہے۔“

خلاصہ

ابن انشا کے تراجم اور خطوط ان کی ادبی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ ان کے تراجم نے اردو ادب کو عالمی ادب سے جوڑا، جبکہ ان کے خطوط نے ان کی ذاتی شخصیت اور ان کے دور کی ادبی فضا کو ہمارے سامنے زندہ کر دیا۔ ان کا یہ کام ثابت کرتا ہے کہ وہ محض ایک شاعر یا مزاح نگار نہیں تھے، بلکہ ایک مکمل ادیب تھے جس نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔


ماخذ اور حوالہ جات


ڈس کلیمر: کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔


کیا آپ نے ابنِ انشا کا کوئی ترجمہ پڑھا ہے یا ان کے خطوط کا مطالعہ کیا ہے؟ اپنے خیالات کمنٹس میں ضرور شیئر کریں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں