موضوعات کی فہرست
موضوعات کی فہرست
آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 31 جولائی، 2025
تعارف
اردو ادب میں سفر نامہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جو قاری کو دیس بدیس کی سیر کراتی ہے۔ ابنِ انشا اس صنف کے چند سب سے بڑے ناموں میں شمار ہوتے ہیں۔ ابن انشا کے سفرنامے محض سفری روداد نہیں بلکہ مزاح، گہری انسانی نفسیات اور سماجی تبصرے کا بہترین امتزاج ہیں۔ ان کے سفرناموں نے نہ صرف اردو ادب کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا بلکہ عام قاری کے لیے سفر کو ایک دلچسپ اور پرلطف تجربہ بنا دیا۔ اس بلاگ پوسٹ میں ہم کشمیر یونیورسٹی کی ایک تحقیقی مقالے کی روشنی میں ابنِ انشا کی سفرنامہ نگاری کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔
سفرنامے کا فن اور ابنِ انشا کا مقام
سفرنامہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مسافرت کے ہیں۔ انسان فطری طور پر تنوع پسند ہے وہ جس ماحول میں سانس لیتا ہے کچھ عرصے کے بعد اس کی یکسانیت سے اکتا جاتا ہے۔ اس اکتاہٹ کو دور کرنے کے لئے کسی نہ کسی تبدیلی کا خواہشمند ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی بھی خواہش اس سے آمادہ سفر کرتی ہے اور وہ نئے مقامات کی سیر کرتے ہوئے اپنی طویل کیا نیت اور اکتاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی آمادگی سفر کا نقطہ آغاز ہے اور مسافت طے کرنے کے لئے اسی کو سفر کہتے ہیں۔ جس طرح ہماری زندگی میں سفر کی ضرورت و اہمیت ہے اسی طرح سفرنامہ کی اردو ادب میں اہمیت اور ضرورت ہے۔ سفرنامے کی ضرورت اور مقبولیت کی وجہ سے اردو میں بےشمار سفرنامے لکھے گئے۔ آج بھی سفرنامے نہ صرف شوق سے لکھے جا رہے ہیں بلکہ شوق سے پڑھے بھی جاتے ہیں۔ اردو سفرنامے کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس صنف نے اردو ادب میں نہ صرف ایک مقام بنایا ہے بلکہ اپنی اہمیت کا لوہا بھی منوایا ہے۔
دنیا کی ہر زبان میں سفرنامہ ایک مستقل صنف ادب قرار پائی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سفرنامے انتہائی مفید اور دلچسپ معلومات کا خزانہ ہیں۔ ایک زمانے تک سفرناموں میں لوگوں کے عادات و خصائل اور بود و باش اور پہلوؤں کا تذکرہ ہوتا تھا اس کے ساتھ ساتھ ان میں تاریخی اور جغرافیائی معلومات فراہم کرنے کا عمل زیادہ تھا۔ ادبی تحقیق کا عنصر ان سفرناموں میں نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔
ابن انشا کا اسلوبِ سفرنامہ نگاری
ابنِ انشا نے اپنے مخصوص دل نشین اور دل گداز شاعری اور ادبی مزاح لطیف کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں، جب وہ سفرنامہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے اپنے سفرناموں میں بھی مزاحیہ اسلوب کی داغ بیل ڈالی۔ اس طرح ابنِ انشا کی وساطت سے اُردو میں خاص مزاحیہ سفرنامہ نگاری کا آغاز ہوا۔ ابنِ انشا نے اپنی حیات میں مزاحیہ سفرنامہ نگاری کا جو پودا لگایا تھا وہ اتنا بار آور ہوا کہ اب اردو میں مزاحیہ سفرنامے تعداد اور اوصاف دونوں اعتبار سے بڑی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
ابن انشا کے سفرنامے پڑھنے کے ساتھ ساتھ قاری کو دلچسپی حاصل ہوتی ہے۔ ان سفرناموں میں تفریحی اور معاشرتی منظرناموں سے واقف ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ قادر الکلام مزاحیہ اسلوب کا جو رنگ گھلا رہتا ہے اس کی وجہ سے قاری کے ذہن و دل کو متاثر کرتا ہے۔
ابن انشا کے مشہور سفرنامے
ابنِ انشا کے سفرناموں کا جائزہ لیتے ہوئے سب سے پہلے ابنِ انشا کا نام ہی ذہن میں آتا ہے کیونکہ وہی اس صنف ادب کے موجد ہیں۔ ان کے پانچ مزاحیہ سفرنامے مندرجہ ذیل ہیں:
- چلتے ہو تو چین کو چلیے
- آوارہ گرد کی ڈائری
- دنیا گول ہے
- ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں
- نگری نگری پھرا مسافر
یہ مزاحیہ سفرنامے شائع ہوئے تو مقبول ہوئے۔ ابنِ انشا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنی بذلہ سنجی اور ظرافت کی رو میں بہا لے جاتے ہیں۔ ان کے سفرناموں میں ایک آوارہ گرد کا کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔
چلتے ہو تو چین کو چلیے: ایک جائزہ
"چلتے ہو تو چین کو چلیے” ابنِ انشا کا مزاحیہ سفرنامہ ہے جو مزاحیہ سفرناموں کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سفرنامہ اخباری کالموں کی صورت میں روزنامہ جنگ کراچی میں چھپتا رہا اور اگست 1967ء میں پہلی بار کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ اس سفرنامے میں چین، جاپان اور امریکہ کے سفر کی روداد بڑے ہی دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ابن انشا کے سفرنامے کی ایک بڑی خوبی ان کا سادہ اور رواں اسلوب ہے۔
ابنِ انشا نے اپنے سفرنامے ”چلتے ہو تو چین کو چلیے“ میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہم نے جتنی چین کے متعلق باتیں کیں اس سے ایک آدھ بات زیادہ سن لیجئے کہ چین میں ایک روپیہ اس ملک کے سو روپئے کے برابر ہے۔ اس ملک کی سیاست کے بارے میں قیاس آرائیوں سے پرہیز کرنا ہی مناسب ہے البتہ ہم اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔‘‘
آوارہ گرد کی ڈائری
یہ سفرنامہ 1966ء میں پہلی بار منظر عام پر آیا۔ اس سفرنامے میں فلیپائن، انڈونیشیا، سنگاپور، ملائیشیا، بنکاک، ہانگ کانگ، افغانستان، ترکی، جاپان، کوریا، لندن اور پیرس کے ساتھ ساتھ امریکی ریاست ہوائی کے علاوہ سان فرانسسکو کی سیاحت کا احوال درج ہے۔ ”دنیا گول ہے“ کے بارے میں ابنِ انشا نے شہروں اور بستیوں کے مناظر تفصیل سے روشنی ڈالے بغیر اکثر ان مقامات کا ذکر کیا جہاں ان کا قیام زیادہ رہا۔ اس سفر نامے میں ان کو جن بات کے مطالعے اور مشاہدے کا فرصت ہی نہیں آتی۔ وہ کبھی مشاہدے کی گہرائی میں اترنے کے مواقع سے بھی عاری نظر آتے ہیں۔
دنیا گول ہے
ابنِ انشا کا سفرنامہ ”دنیا گول ہے“ 1972ء میں پہلی بار منظر عام پر آیا۔ اس سفرنامہ میں فلپائن، انڈونیشیا، سنگاپور، ملائیشیا، بنکاک، ہانگ کانگ، افغانستان، ترکی، جاپان، کوریا، لندن اور پیرس کے ساتھ ساتھ امریکی ریاست ہوائی کے علاوہ سان فرانسسکو کی سیاحت کا احوال درج ہے۔ ابن انشا کے اس سفرنامے کی گہرائی اور گیرائی کی وجہ یہی ہے کہ وہ دل کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور پچھلے سفرنامے سے اسے الگ کر دیتے ہیں۔ اس بارے میں وہ دنیا گول ہے کے دیباچے میں خود لکھتے ہیں:
”قاعدے سے صرف اس ایک سفر کی روداد پر مبنی ’دنیا گول ہے‘ کا سرنامہ لگ سکتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ سفر بحری ہم نے کر رکھے تھے، وہ بھی اس میں ملا دئے، یوں تو ہماری آوارگی ہمارے 1961ء سے شروع ہوتی ہے اور 1963ء میں ہم ایران سے فارسی بولتے ہوئے اور کچھ فارسی والوں کو اردو میں لٹکا کر واپس آئے۔‘‘
خلاصہ
مختصراً ابن انشا کے سفرنامے اردو ادب میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہوں نے سفرنامہ نگاری کو سنجیدگی کے خول سے نکال کر مزاح اور شگفتگی کی چاشنی بخشی۔ ان کا سادہ، رواں اور پُرلطف انداز آج بھی قارئین کو اپنے ساتھ دنیا کی سیر پر مجبور کر دیتا ہے۔
ماخذ اور حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: ابنِ انشا کی تصانیف کا تنقیدی مطالعہ
- محقق: عاصمیہ بانو
- نگران: ڈاکٹر منظور احمد میر
- یونیورسٹی: شعبۂ اردو، کشمیر یونیورسٹی، حضرت بل، سرینگر
- سالِ تکمیل: 2021
- اقتباس کے صفحہ نمبر: 138-191
ڈس کلیمر: کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔
آپ نے ابنِ انشا کا کون سا سفرنامہ پڑھا ہے اور اس میں آپ کو سب سے زیادہ کیا پسند آیا؟ اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں ضرور کریں۔