مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ابن انشا کی شاعری: اداسی اور جدید حسیت کا منفرد امتزاج

/


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 31 جولائی، 2025

محقق کا تعارف

یہ بلاگ پوسٹ عاصمیہ بانو کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے۔ عاصمیہ بانو کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ایک محقق ہیں۔ انہوں نے یہ مقالہ ڈاکٹر منظور احمد میر کی زیرِ نگرانی اپنے پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے مکمل کیا۔ ان کی تحقیق اردو ادب کے نامور شاعر اور ادیب ابنِ انشا کی تصانیف کے گہرے تنقیدی مطالعے پر مشتمل ہے، جو ان کی علمی قابلیت اور ادبی شعبے میں مہارت کی عکاسی کرتی ہے۔

تعارف

ابنِ انشا کا نام جب بھی اردو ادب میں لیا جاتا ہے تو ذہن فوراً ان کے طنز و مزاح اور سفرناموں کی طرف جاتا ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کا ایک اور نہایت طاقتور پہلو ابن انشا کی شاعری ہے، جس میں اداسی، تنہائی اور جدید حسیت کا ایک گہرا رنگ پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری ان کے مزاحیہ اسلوب سے بالکل مختلف ہے، لیکن اتنی ہی پر اثر اور دل کو چھو لینے والی ہے۔ اس بلاگ پوسٹ میں ہم کشمیر یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کی روشنی میں ابن انشا کی شاعری کے فنی اور فکری پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔

ابن انشا کا شعری اسلوب: سادگی میں گہرائی

ابنِ انشا نے اپنی شاعری میں سادہ زبان اور عام فہم الفاظ کا استعمال کیا، لیکن ان کے پیچھے معنی کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ ان کی شاعری روایتی غزل کے برعکس جدید دور کے انسان کے کرب، تنہائی اور بے چینی کی عکاسی کرتی ہے۔

ابن انشا کی شاعری کی روایت میں ان کی آواز اپنے مخصوص رنگ و آہنگ اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ جس میں لطافت اور شگفتگی ہے، جس میں ان کا پورا تہذیبی شعور بول رہا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی شاعری کا خوب ہے جو خوابوں اور حقیقت کی سرحد پر بڑی فنکارانہ خوش اسلوبی سے قدم رکھتا نظر آتا ہے۔

ان کی شاعری کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:

  • جدید حسیت: وہ جدید دور کے مسائل اور انسانی نفسیات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔
  • اداس لہجہ: ان کی نظموں اور غزلوں میں ایک گہری اداسی اور تنہائی کا احساس پایا جاتا ہے۔
  • سادگی اور روانی: ان کا اسلوب انتہائی سادہ اور رواں ہے، جو قاری کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
  • ہندی الفاظ کا استعمال: انہوں نے اپنی شاعری میں ہندی کے الفاظ کو خوبصورتی سے استعمال کیا، جس سے ان کے کلام میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا۔

ابن انشا کی غزل گوئی کا فن

ابن انشا کی شاعری میں غزل کا ایک خاص مقام ہے۔ انہوں نے روایتی غزل کے مضامین کو جدید حسیت کے ساتھ پیش کیا۔ ان کی غزلوں میں محبت، ہجر اور وصال کے موضوعات تو ملتے ہیں، لیکن ان کا انداز بالکل نیا اور اچھوتا ہے۔ ان کی غزل کا ایک مشہور شعر ملاحظہ ہو:

انشاء جی اٹھو! اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

یہ اشعار محض قافیہ پیمائی نہیں، بلکہ جدید دور کے انسان کی داخلی بے چینی اور بے قراری کی بہترین عکاسی ہیں۔

"چاند نگر”: ایک شعری سنگِ میل

"چاند نگر” ابن انشا کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جو 1955ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے نے ابنِ انشا کو جدید اردو شعراء کی صف میں ایک نمایاں مقام عطا کیا۔ "چاند نگر” کی نظموں میں ایک خوابناک اور رومانوی فضا ملتی ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک گہری اداسی اور حقیقت کی تلخی بھی چھپی ہوئی ہے۔

اس مجموعے کی ایک نظم کا اقتباس:

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

اس مجموعے میں ابنِ انشا نے اپنی انفرادیت اور فنی پختگی کا بھرپور ثبوت دیا۔

نظم گوئی: نئے تجربات اور موضوعات

ابنِ انشا نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی نظمیں اکثر بیانیہ انداز کی ہوتی ہیں، جن میں وہ کوئی کہانی یا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کی نظم "بغداد کی ایک رات” اس کی بہترین مثال ہے، جس میں انہوں نے بغداد کے تاریخی پس منظر میں جدید دور کے انسان کے کرب کو بیان کیا ہے۔

خلاصہ

ابن انشا کی شاعری ان کے مزاحیہ کام سے بالکل مختلف، لیکن اتنی ہی اہم اور گہری ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے جدید انسان کے داخلی کرب، تنہائی اور بے چینی کو جس خوبصورتی سے بیان کیا، وہ اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا سادہ لیکن پراثر اسلوب آج بھی قارئین کے دلوں کو چھوتا ہے اور انہیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔


ماخذ اور حوالہ جات


ڈس کلیمر: کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔


ابنِ انشا کا کون سا شعر آپ کے دل کو چھو جاتا ہے؟ اپنی رائے کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں